قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 23
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…
محمد رسول اللہ ﷺ کے سیاسی غلبہ کی حیثیت:
سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنے مخالفین پر جو سیاسی غلبہ ملا اس کی حیثیت کیا ہے؟ تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپؐ کو یہ غلبہ منصبِ رسالت کے تحت نہیں ملا، یہ غلبہ دراصل ذریت ابراہیم کو ملا تھا، جس کی تفصیل گزر چکی۔ ان سے خدا نے وعدہ کر رکھا تھا کہ اگر وہ ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پورے اترے تو آخرت سے پہلے دنیا میں ہی وہ سیاسی غلبہ اور مالی خوشحالی کی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔
پہلے یہ معاملہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہو چکا تھا، اب چونکہ اس وقت ذریت ابرہیم کی دوسری شاخ، بنی اسماعیل دین کے اس خاص منصبِ شھادت کے لیے چنے گیے تھے، اس لیے سیاسی غلبے کا معاملہ ان کے ساتھ ہونا تھا۔ چونکہ ان کی دینی اور سیاسی امامت و قیادت، اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دی گئی تھی، اس لیے اس غلبے کی ابتدا آپؐ سے ہوئی۔ چنانچہ غلبہ کی بشارت سنانے والی آیات کا اسلوب دیکھا جا سکتا ہے وہ جماعت صحابہ سے مخاطب ہیں۔ نیز،وہ آیات بھی جو محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کے وقت میں آپ کی قائم کردہ ریاست سے متعلق ہیں وہاں بھی ایک رسول کو مخاطب کرنے کی بجائے پوری جماعت کو مخاطب کر کے احکامات دیے گئے ہیں، مثلًا:
الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (سورہ الحج، 22:41)
یہ وہی ہیں کہ جن کو اگر ہم اِس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتما م کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ (اللہ ضرور اُن کی مدد کرے گا) اور سب کاموں کا انجام تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ التوبة، 9:5)
بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے ہونے والے اتمام حجت کے نتیجے میں آنے والی قیامت صغریٰ میں آپؐ کے منکرین کو دی جانے والی سزا کا نفاذ آپؐ نے بحیثیت رسول نہیں، بلکہ بحیثیت سربراہ ذریت ابراہیم کیا تھا، کیونکہ یہ منصب ذریت ابراہیم ہی کا تھا کہ منکرینِ حق کا استیصال کرے اور ان کو محکوم بنائے۔ البتہ، ان سب کاموں کی ابتدا آپؐ سے کرا دی گئی، جس کی تکمیل آپؐ کے خلفاء کے ہاتھوں سے ہوئی، جیسا کہ اس سے پہلے موسیؐ کی وفات کے بعد ان کے خلفاء کے ذریعے اس سنت الہی کا اظہار کیا گیا تھا۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔