قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 22
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسولوں کے غلبے کا مطلب سیاسی غلبہ نہیں:
ایک غلط فہمی رسول کے غلبے کے بارے میں یہ پائی جاتی ہے کہ رسول کے غلبے کو سیاسی غلبہ سمجھا جاتا ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ اکثر رسولوں کو سیاسی غلبہ نہیں ملا اور کچھ کو ملا، ادھر قرآن کہتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول غالب ہو کر رہتے ہیں:
كَتَبَ اللَّـهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّـهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (سورہ المجادلہ، 58:21)
(اِس لیے کہ) اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ قانون اتمام حجت میں جس سیاسی غلبے کا وعدہ ہے وہ رسولوں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کی قوموں کے مومنین کے ساتھ خاص ہے۔ رسول کا سیاسی غلبہ، منصبِ رسالت کا کوئی جزو نہیں ہے۔ قرآن مجید نے منصبِ رسالت کے جو فرائض بتائے ہیں ان میں پہلا اور بنیادی کام پیغام الہی کو بلا کم و کاست مخاطبین تک پہنچانا ہے:
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (سورہ یسین، 36:17)
اور ہمارے اوپر اِس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ صاف صاف پہنچا دیں۔
مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ (سورہ المائدہ، 5:99)
پیغمبر پر تو صرف پہنچا دینے کی ذ مہ داری ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ چھپاتے ہو۔
فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (سورہ الرعد، 13:40)
سو تمھاری ذمہ داری صرف پہنچانا ہے اور اِن کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔
فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (سورہ النحل، 16:35)
سو رسولوں پر تو صاف صاف پہنچا دینے ہی کی ذمہ داری ہے۔
دوسرا یہ کہ اس پیغام الہی کے ابلاغ کے نتیجے میں ایمان لانے والوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے عبادت اور اطاعت الہی کے طریقے سکھا کر ان کا تزکیہ اور تطہیر کرنا ہے۔ رسول کے اول الذکر اور ثانی الذکر دونوں فرائض کا جامع تذکرہ درج ذیل آیت میں کیا گیا ہے:
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (سورہ البقرہ۔ 2:151)
چنانچہ (یہی مقاصد ہیں جن کے لیے ) ہم نے ایک رسول تم میں سے تمھارے اندر بھیجا ہے جو ہماری آیتیں تمھیں سناتا ہے اور تمھارا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے) تمھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور (اِس طرح) وہ چیزیں تمھیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
جہاں تک سیاسی غلبے کا تعلق ہے، منصب رسالت کے بیان میں نہ صرف اس کو کوئی جگہ نہیں دی گئی بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر منصب رسالت کے لیے اس کی نفی کی گئی ہے:
وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ (سورہ ق 50:45)
اور (یاد رکھو کہ) تم اِن پر کوئی داروغہ مقرر نہیں کیے گئے ہو۔ سو قرآن کے ذریعے سے یاددہانی کرو اُنھیں جو میری تنبیہ سے ڈرتے ہوں۔
فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ (سورہ الغاشة، 88:21-22)
تو تم یاددہانی کر دو،(اے پیغمبر)، تم یاددہانی کرنے والے ہی ہو۔ تم اِن پر کوئی داروغہ نہیں ہو۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔