قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 20
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استیصال کی سزا شرک کے جرم سے مشروط ہے:
رسولوں کی جتنی اقوام پر استیصال کا عذاب آیا، ان تمام کی تباہی کی وجہ شرک کا ارتکاب تھا، جس پر انہیں اصرار تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے رسولوں کی دعوت اور خدا کی تمام نشانیاں جھٹلا دیں تھیں۔ سورہ اعراف میں دیکھیے ہر رسول اپنی قوم کو ایک ہی پیغام دے رہا تھا کہ شرک چھوڑ کر ایک خدا کو مانو۔ چنانچہ تقریبًا ہر رسول کی زبان سے یہ آیت قرآن نے نقل کی ہے:
يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ (سورہ الاعراف، 7:65)
اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے۔
نبی اسرائیل میں انبیا کا ایک تسلسل کے ساتھ مبعوث ہوتے رہنے، دین کی خاندانی روایت اور تورات کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے یہ لوگ دین کے بنیادی تصورات، خصوصاً توحید سے بالکلیہ کبھی ناآشنا نہیں رہے۔ اس لیے ان پر استیصال کے عذاب کی بجائے تنبیہی عذاب آتے رہے، جیسا کہ دیگر رسولوں کی قوموں پر بھی آتے رہے۔ البتہ جب کبھی انہوں نے کھلم کھلا شرک کا ارتکاب کیا تو ان پر بھی استیصال کا عذاب ہی آیا۔
دوسری بات یہ کہ قتل کے حکم کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ سب کے سب مشرکین کو بیک قلم قتل ہی کر دینا ضروری ہے۔ اس قتل و غارت میں بھی توبہ کی توفیق حاصل کرنے والوں کی گنجائش رکھی جاتی ہے، جیسا کہ سورہ توبہ میں مشرکین عرب پر آخری عذاب کے طور پر جب قتل کا حکم آیا تو اس کے لیے قید و بند کا اہتمام بھی کیا گیا تاکہ جس نے ایمان قبول کرنا ہے، کر لے:
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ توبہ 9:5)
(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔ پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
اسی وجہ سے شرک کرنے کے باوجود بھی بنی اسرائیل کے مکمل استیصال کی نوبت نہیں آئی۔ قتل و اسیری کا عذاب آتے ہیں انہیں تنبیہ ہو جاتی اور یوں وہ سارے کے سارے قتل ہونے سے بچ جاتے تھے۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ جس طرح خدا قدرتی آفات کے ذریعے آنے والے عذاب کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے، اسی طرح انسانوں کو جب وہ کسی پر عذاب مسلط کرنے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے، تو ان کو بھی اپنی طرف منسوب کرتا ہے، درج ذیل آیت دیکھیے، جس میں قدرتی طاقتوں کے ذریعے آنے والے عذاب کو خدا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے:
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ (سورہ الاعراف، 7:133)
سو ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈیاں، جوئیں اور مینڈک چھوڑ دیے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں تھیں، (بنی اسرائیل کے صحیفوں میں) جن کی تفصیل کر دی گئی ہے۔ مگر وہ تکبر کرتے رہے اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ مجرم لوگ تھے۔
اسی طرح اللہ تعالی نے اُن رومیوں کو بھی اپنے بندے کہا جن کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر تباہی، ذلت اور محکومی مسلط کی:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا (سورہ الاسراء 17:5)
لہٰذا دونوں مرتبہ سخت سزا پاؤ گے)۔ پھر (تم نے دیکھا کہ) جب اُن میں سے پہلی بار کے وعدے کا وقت آجاتا ہے تو ہم تم پر اپنے ایسے بندے اٹھا کرمسلط کر دیتے ہیں جو نہایت زور آور تھے۔ سو وہ تمھارے گھروں کے اندر گھس پڑے اور وعدہ پورا ہوکے رہا۔
ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ کفار مکہ پر عذاب مومنین کے ہاتھوں آیا اور بنی اسرائیل پر مشرک قوموں کے ہاتھوں، ایسا کیوں؟ تو معلوم ہونا چاہیے کہ خدا نے خود پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی کہ سزا اگر انسانوں کے ہاتھوں سے دی جا رہی ہو تو وہ ذریت ابراہیم کے مومنین کی طرح کی کوئی منتخب قوم ہی ہو۔ سزا تو سزا ہے، کبھی مومنین کے ہاتھوں دی گئ، کبھی غیر مسلمین کے ہاتھوں اور کبھی قدرتی آفات کے ذریعے۔ سزا کی نوعیت اور سزا کا آلہ کار کا تعین حالات پر منحصر ہے۔ خدا نے ایسا کوئی ضابطہ نہیں دیا کہ وہ انسانوں میں سے صرف مومنین کے ذریعے ہی سزا دے گا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو بھی اس کام کے لیے چنا گیا تھا، جیسا کہ پیشتر بتایا گیا۔
اسی طرح قتل و قتال بھی ایک سزا ہے، جو ضروری نہیں کہ صرف شرک کی سزا کے طور پر ہی ملے۔ اس کے کم تر جرائم پر بھی قتل کی سزا مل سکتی ہے۔ مثلًا، قتل کرنے کے جرم کی سزا میں قصاص کے طور پر بھی تو مجرم کو قتل ہی کیا جاتا ہے، جو شرک سے کم تر جرم ہے۔ خدا کی طرف سے قتل کی سزا مسلط ہونے کی وجہ اگر شرک نہ ہو تو پوری قوم کا استصال، البتہ، نہیں ہوتا، نیز، شرک کرنے کی صورت میں جو قتل کی سزا مسلط ہوتی ہے تو اس میں بھی متنبہ ہو جانے والے لوگوں کے قتل ہو جانے سے بچ جانے کی گنجائش ہوتی ہے۔
یہاں ایک اعتراض کیا گیا کہ بنی اسرائیل پر استیصال کا عذاب اس لیے نہیں آیا تھا کہ "سب تو شرک میں مبتلا نہیں ہوتے تھے بلکہ کچھ توحید پر قائم بھی رہتے تھے تو سوچیے کہ توحید پر قائم لوگ تو ہر معاشرے میں، یہاں تک کہ مشرکینِ عرب میں رسول اللہ ﷺ سے قبل فترت کے عہد میں بھی پائے جاتے تھے۔ پھر ان پر استصال کا عذاب کیوں مسلط کر دیا گیا۔"
اس پر عرض ہے کہ عرب معاشرے کے موحدین کوئی ایسا قابل لحاظ گروہ تو تھا نہیں کہ ان کے ساتھ کوئی مستقل جنگ ہوئی ہوتی تو یہ اعتراض کیا جاتا۔ یہ لوگ انفرادی طور پر کہیں کہیں پائے جاتے تھے۔ اگر اس طرح کا کوئی کیس سامنے آتا تو ہم دیکھتے کہ رسول اللہ اس پر کیا فیصلہ فرماتے۔ اتنا گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان موحدین میں سے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کی بجائے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے ہوئے، جیسا کہ اس دور کا قبائلی نظام تقاضا کرتا تھا، مسلمانوں سے جنگ کی ہوگی، وہ عصبیت کی لڑائی لڑتے ہوئے مارے گئے ہوں گے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اتمام حجت کے قانون کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہو تو اتمام حجت سے پہلے اس کو قتل وغیرہ نہ کیا جا سکے، جنگ بدر میں جارحیت کا ارتکاب کرکے حملہ کیا گیا تو ان جارحین کے ساتھ قتال کیا گیا۔ چنانچہ ہم کہ سکتے ہیں کہ عرب کے ایسے موحدین یا تو مسلمان ہو گئے یا پھر جارحیت کے نتیجے میں عصبیت کی جنگ لڑتے ہوئے مارے گئے، یا منافقین کی طرح بظاہر مطیع ہو کر اپنی سرگرمیوں سے تائب ہو کر وقت گزار کر مر گیے۔
یہود کی تاقیامت محکومی کی سزا پر بھی اشکال پیش کیا جاتا ہے کی یہ کیا معاملہ ہے۔ اس پر عرض ہے کہ مسیحؑ کی نافرمانی اور ان کے اقدام قتل کے نتیجے میں بنی اسرائیل کو ملنے والی تا قیامت محکومی کی خصوصی سزا بھی ان کے اس خاص عہد الہی کی وجہ سے ہے، جو خدا نے بنی اسرائیل کے ساتھ کر رکھا ہے۔ مسیحؑ کے معاملے میں ان کی اس عظیم کوتاہی کی سزا انہیں مسیحؑ کے متبعیں کے تحت ان کی مغلوبیت کی صورت میں ملی ہے۔ جو خدا کے خاص نشان حق کے طور تا قیامت قائم کر دیا گیا ہے، یوں نشانِ حق کا یہ ایک خصوصی معاملہ بن گیا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ درج بالا آیت میں متبعین مسیحؑ سے کون مراد ہے، جن کا غلبہ تاقیامت یہود پر قائم کر دیا گیا ہے۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“