قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 2
قانون اتمام حجت کے بارے میں چند باتیں پیشِ نظر رہنا ضروری ہیں:
1) قرآن مجید کی بیان کردہ اس حقیقت سے قرآن کا کوئی طالب علم انکار نہیں کر سکتا کہ خدا کے رسولوں کی دعوتِ دین کے نتیجے میں ان کی قوموں کے منکرین پر ایک خاص وقت گزر جانے کے بعد اللہ کی طرف سے اسی دنیا میں عذاب دیا گیا، جب کہ رسولوں اور ان کے مومنین کو اس عذاب سے بچا لیا گیا۔ جس تسلسل اور یکسانیت سے یہ معاملہ مختلف رسولوں کی قوموں کو پیش آیا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ضابطہء الہی رہا ہے۔ عذاب آنے سے پہلے کی مہلت کا مقصد، پیغامِ حق کو اس کے پورے دلائل اور براہین سے قوم کے سامنے اس طرح رکھ دینا ہوتا ہے کہ قوم کے لیے انکار کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔ اس کو اتمامِ حجت کا اصطلاحی عنوان دیا گیا ہے۔ اس قانون کا تذکرہ قرآن مجید کے صفحے صفحے پر رقم ہے۔
درج ذیل آیات میں یہ قانون الہی اس طرح بیان ہوا ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ( سورہ یونس، 10:477)
(اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آ جاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔
فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ (سورہ آل عمران 3:566)
تو جن لوگوں نے کفر کیا ان کو سخت عذاب دوں گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔
ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ (سورہ یونس، 10:103)
(اِنھیں بتا دو کہ) پھر (جب وہ دن آجاتا ہے تو) ہم اپنے رسولوں کو بچا لیتے ہیں اور( اُن کو بھی) جو اُن پر ایمان لائے ہوں۔ اِسی طرح ہمارا ذمہ ہے، ہم اُن کو بچا لیں گے جو ایمان لے آئے ہیں۔
اتمامِ حجت کے بعد، منکرینِ حق پر دنیا میں آنے والے یہ عذاب، آندھی، طوفان، سیلاب اور زلزلے وغیرہ کی قدرتی طاقتوں کے ذریعے بھی نازل ہوئے اور انسانی ہاتھوں کے ذریعے بھی۔ یہ دونوں یہ صورتیں قرآن کی نصوص سے ظاہر ہیں۔ (تفصیل آگے آتی ہے)
2) رسول پر ایمان لانے، اس کی پیروی کرنے اور استقامت کے ساتھ راہ حق کی تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے اجر کے نتیجے میں نجات یافتہ مومنوں سے اسی دنیا میں مالی خوش حالی اور سیاسی برتری کے وعدے کیے گیے۔ مثلًا، پہلے رسول، نوحؑ نے اپنی قوم سے ایمان لانے کی صورت میں مالی خوش حالی اور سیاسی طاقت کے حصول کا وعدہ فرمایا اس طرح فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا (سورہ نوح، 71:10-12)
اِس طرح کہ میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو۔ بے شک، وہ بڑا معاف کر دینے والا ہے۔ (اِس کے نتیجے میں) وہ تم پر چھاجوں مینہ برسائے گا۔ اور مال و اولاد سے تم کو برکت دے گا اور تمھارے لیے باغ اگائے گا اور تمھارے لیے نہریں بہا دے گا۔
اور آخری رسول، محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم، بنی اسماعیل سے فتح و نصرت اور سیاسی غلبہ و استلاء کے وعدے اس طرح کیے گیے:
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (سورہ آل عمران، 3:139)
اور (جو نقصان تمھیں پہنچا ہے، اُس سے) بے حوصلہ نہ ہو اور غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو غلبہ بالآخر تمھیں ہی حاصل ہو گا۔
لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ (سورہ آل عمران، 3:111)
یہ تمھیں کچھ اذیت دے سکتے ہیں، اِس کے سوا یہ تم کو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور (مطمئن رہو کہ) اگر یہ تم سے لڑیں گے تو لازماً پیٹھ دکھائیں گے۔ پھر اِن کو کہیں سے کوئی مدد نہ ملے گی۔
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (سورہ النور، 24:55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اُن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کو وہ اِس سرزمین میں ضروراُسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اُس نے عطا فرمایا تھا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا جسے اُس نے اُن کے لیے پسند فرمایا ہے اور اُن کے اِس خوف کی حالت کے بعد اِسے ضرورامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔ اور جو اِس کے بعد بھی منکر ہوں تو وہی نافرمان ہیں۔
اسی طرح اس وقت ہجرت کرنے والوں کو دنیا میں ہی اچھے ٹھکانے کے وعدے کیے گیے:
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّـهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (سورہ النحل، 16:41)
جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے، اِس کے بعد کہ اُن پر ظلم ڈھائے گئے ، ہم اُن کو دنیا میں بھی لازماً اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو کہیں بڑھ کر ہے۔ اے کاش، یہ منکرین جانتے۔
3) یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ معلوم تاریخ میں رسولوں کے انذار کے بغیر انکارِ حق کرنے والی قوموں پر اس قسم کے عذاب نہیں آئے، اور نہ اب اس قسم کا کوئی عذاب، جس میں مخاطبین کو تنبیہ اور چیلنج کرنے کے بعد اور یہ بتا کر کہ عذاب کیوں آ رہا ہے، عذاب نازل ہوا ہو، اس کی وجہ بھی قرآن نے بیان کر دی ہے کہ کسی قوم پر تب تک عذاب نہیں آتا جب تک ان میں کسی رسول کی بعثت کے ساتھ اتمامِ حجت نہ ہو جائے۔ اس قانون الہی کو درج ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا (سورہ الاسراء، آیت 15)
ہم (کسی قوم کو) کبھی سزا نہیں دیتے، جب تک ایک رسول نہ بھیج دیں (کہ سزا سے پہلے وہ اُس پر حجت پوری کر دے)۔
اسی طرح رسول کی مخاطب قوم کے علاوہ عام مومنین کو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے پر مالی خوش حالی اور سیاسی غلبہ لازمی طور پر نہیں ملے اور نہ اب ایمان والوں کے ساتھ یہ معاملہ دنیا میں یقینی طور پر پیش آتا ہے۔ (ذریت ابراہیم کا معاملہ البتہ خصوصی نوعیت کا ہے، جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔)
اسی طرح، رسول کے دور میں ہجرت کرنے پر کیے جانے والے وعدے دوسرے مسلمانوں کے لیے لازمی طور پر پورے نہیں ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اب جن مسلمانوں کو دین کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑ جاتی ہے، اکثر اوقات وہ بڑی کسمپرسی کے اوقات گزار کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔