قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 19
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
v. اور شرک کرنے پر وہی استیصال کی سزا ملی جو دیگر مشرک اقوام کو ملی تھی، جن کو رسولوں نے اپنا مخاطب بنایا تھا:
مثلاً جب انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تو شرک کے مرتکبین کو قتل کر دیا گیا:
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (سورہ البقرہ، 2:54)
اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا :میری قوم کے لوگو ،تم نے یہ بچھڑا بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے ، اِس لیے اب اپنے خالق کی طرف لوٹو اور (اِس کے لیے) اپنے اِن لوگوں کو (اپنے ہاتھوں سے) قتل کرو۔ یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔ (چنانچہ تم نے یہ کیا) تو اُس نے تمھاری توبہ قبول فرمائی۔ بے شک، وہی بڑا معاف کرنے والا ہے ،اُس کی شفقت ابدی ہے۔
اسی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بنی اسرائیل کو مسیحؑ کی نافرمانی اور اقدام قتل کی سزا استصال کی صورت میں کیوں نہ ملی، جیسا کہ اشکال پیش کیا جاتا ہے۔ مسیحؑ کے وقت بھی بنی اسرائیل کا جرم شرک کا نہیں تھا، بلکہ رسول کی نافرمانی اور اس کے اقدام قتل کا تھا، اور اس پر انہیں وہی ذلت و محکومی کی سزا ملی:
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (سورہ آل عمران، 3:55)
اُس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گااور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے ۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔
یعنی وہی سزا ملی جو گزشتہ انبیاءِ بنی اسرائیل کے قتل و نافرمانی پر انہیں ملتی رہی اور جو محمد رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اور ان کے ساتھ قتال کے جرم کے نتیجے میں انہیں ملی:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (سورہ التوبہ، 9:29)
(اِن مشرکوں کے علاوہ) اُن اہل کتاب سے بھی لڑو جو نہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں، (اُن سے لڑو)، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“