قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 18
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنی اسرائیل سے اس خاص عہد الہی کے ظاہری نتائج و شواہد:
بنی اسرائیل نے جب خود کو منصب شھادت کا اہل ثابت کیا تو طالوت، داؤدؑ اور سلیمانؑ کی ادوار میں زبردست سلطنتیں قائم کیں، جس کا رعب و دبدبہ ارد گرد کی ریاستوں پر طاری تھا۔ قرآن مجید میں ملکہ سبا کے ساتھ سلیمانؑ کا قصہ دیکھ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بائیبل میں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔
تاہم، قرآن مجید ہی ہمیں بتاتا ہے کہ جب جب بنی اسرائیل نے ایمان و عمل میں کوتاہیاں برتیں، تو انہیں ان کے جرم کی نوعیت کے مطابق، مختلف سزائیں بھی دی گئیں۔ لیکن ایک بات طے کر دی گئی کہ شرک نہ ہونے کی صورت میں ان کا استصال نہ ہوگا:
وَلَوْلَا أَن كَتَبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ (سورہ الحشر، 59:33)
اور اگر اللہ نے اُن کے لیے (اِسی طرح) جگہ جگہ سے اجڑنے کی سزا نہ لکھ دی ہوتی تو وہ اُنھیں دنیا ہی میں عذاب دے ڈالتا اور قیامت میں تو اُن کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔
ان کا قصور ایمان و عمل کی کوتاہیاں، انبیا اور رسولوں کا انکار و قتل اور بعض اوقات کھلا شرک کرنا تھا۔ اس پر ان کو ذلت و رسوائی، جلا وطنی اور محکومی سے لے کر قتل و قتال تک سب عذاب سہنے پڑے۔
i. مثلًا، ان میں سے جب دریا کی کنارے بسنے والے کچھ لوگوں نے جب شریعت ک ایک حکم، یعنی سبت کے دن کی مسلسل خلاف ورزی، کی تو انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا گیا ہے:
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (سورہ البقرہ 2:65)
اور تم اُنھیں بھی جانتے ہی ہو جنھوں نے تمھارے لوگوں میں سے سبت کی بے حرمتی کی تو ہم نے اُن سے کہا: جاؤ، ذلیل بندر بن جاؤ۔
iii. خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرنے پر یہ سزا ملی:
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ (سورہ البقرہ، 2:61)
اور یاد کرو ، جب تم نے کہا :اے موسیٰ، ہم ایک ہی کھانے پر ہرگز صبر نہ کریں گے۔ سو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو کہ یہ سبزی ،ککڑی ،لہسن، مسور اور پیاز جو زمین اگاتی ہے ،وہ اِن چیزوں میں سے ہمارے لیے نکال کر لائے ۔ اُس نے کہا : تم ایک بہتر چیز کو کم تر چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو؟ (اچھا تو جاؤ)، کسی مصر ہی میں جا رہو۔ اِس لیے کہ یہ جو کچھ تم مانگتے ہو ،وہاں تم کو مل جائے گا ۔ (وہ یہی کرتے رہے) اور اُن پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کا غضب کما لائے۔ یہ اِس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کو نہیں مانتے تھے اور اُس کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اُنھوں نے نافرمانی کی اور (وہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی) کسی حد پر نہ رہتے تھے۔
iiii. جہاد کے حکم سے منہ پھیرنے پر یہ سزا ملی:
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللَّـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ قَالَ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (سورہ المائدہ، 5:20-26)
(اپنے جرائم کی پاداش سے ڈرو، اے اہل کتاب) اور یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: میری قوم کے لوگو، اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کا خیال کرو کہ اُس نے تم میں نبی بنائے اور تمھیں بادشاہ ٹھیرایا ہے اور تمھیں وہ کچھ دے دیا ہے جو دنیا والوں میں سے اُس نے کسی کو نہیں دیا ہے۔ میری قوم کے لوگو، (اِس کے لیے) اُس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھ پر الٹے نہ پھرو، ورنہ نامراد ہو جاؤ گے۔ اُنھوں نے جواب دیا: موسیٰ، اُس میں بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں، ہم اُس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے، جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں، اگر وہ نکل جائیں تو ہم یقیناًداخل ہو جائیں گے۔ ن ڈرنے والوں میں دو شخص، البتہ ایسے تھے جن پر خدا کی عنایت تھی، اُنھوں نے کہا: تم (اِس شہر کے) لوگوں پر چڑھائی کر کے اِس کے دروازے میں گھس جاؤ، جب تم اُس میں گھس جاؤ گے تو تمھی غالب رہو گے اور اللہ ہی پر بھروسا کرو، اگر تم اُس کے ماننے والے ہو۔ لیکن اُنھوں نے پھر یہی کہا کہ موسیٰ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں، ہم اُس میں کبھی داخل نہ ہوں گے، اِس لیے تم اور تمھارا پروردگار، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اِس پر موسیٰ نے دعا کی: پروردگار، میری ذات اور میرے بھائی کے سوا کسی پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے، لہٰذا تو ہمیں اور اِن نافرمان لوگوں کو الگ الگ کر دے۔
ivv. انبیاء کے قتل پر یہ ذلت و رسوائی کی سزا ملی:
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّـهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ (سورہ آل عمران، 3:112)
اِنھیں جہاں دیکھیے، اِن پر ذلت کی مار ہے، الاّ یہ کہ اللہ کی رسی تھام لیں اور اُن لوگوں کی رسی تھام لیں (جنھوں نے اللہ کی رسی تھام لی ہے)۔ یہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور اِن پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی آیتوں کے منکر رہے ہیں اور اُس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں، اِس لیے کہ اِنھوں نے نافرمانی کی اور یہ ہمیشہ حد سے بڑھتے رہے ہیں۔
پھر اپنی تاریخ کے ایک دور میں ان سے بڑی کوتاہی ہوئی: انہوں نے بنی اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیؑ کا انکار کر دیا اور ان کے قتل کی کوشش بھی کی۔ اس کی پاداش میں ان پر تاقیامت متبعینِ مسیح کی محکومی لکھ دی گئی۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔