قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 17
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلط فہمی کی بنیاد
حصہ دوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر بنی اسماعیل سے اس عہد کا ذکر اس آیت میں ہے:
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٰ، ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ، مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ، ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا، لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ.﴿الحج ۲۲: ۷۸﴾
’’اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو جیسا کہ اِس جدوجہد کا حق ہے ۔ اُسی نے تم کو ﴿اِس ذمہ داری کے لیے﴾ منتخب کیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ تمھارے لیے پسند فرمایا ہے ۔ اُسی نے تمھارا نام مسلمان رکھا تھا، اِس سے پہلے بھی اور اِس﴿آخری بعثت کے دور﴾ میں بھی ۔ اِس لیے ﴿منتخب کیا ہے ﴾ کہ رسول تم پر گواہی دے اور دنیا کے باقی لوگوں پر تم ﴿اِس دین کی﴾ گواہی دینے والے بنو ۔‘‘
رسولوں اور ذریت ابراہیم کے اس منصب کو منصبِ شہادت (گواہی) کا اصطلاحی نام دیا گیا ہے۔ یعنی جو منصبِ شھادت رسول کو انفرادی حیثیت میں دیا گیا ہے، وہی ذریت ابراہیم کو بحیثیتِ قوم دیا گیا ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (سورہ البقرہ، 2:143)
اور (جس طرح مسجد حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرایا ہے)، اِسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے ۔ اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے ، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھیرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ ایک بھاری بات تھی، مگر اُن کے لیے نہیں ، جنھیں اللہ ہدایت سے بہرہ یاب کرے ۔ اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ (اِس طرح کی آزمایش سے وہ) تمھارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے ۔اللہ تو لوگوں کے لیے بڑا مہربان ہے ، سراسر رحمت ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں بنی اسماعیلؑ شھداء یعنی گواہ قرار دییے گیے ہیں۔ اسی نسبت سے بنی اسرائیل کو بھی شھداء کہا گیا ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (سورہ آل عمران، 3:99)
اِن سے پوچھو، اے اہل کتاب، تم اُن لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہوجو ایمان لائے ہیں ؟تم اِس میں عیب ڈھونڈتے ہو، دراں حالیکہ تم اِس کے گواہ بنائے گئے ہو؟ (اِس پر غور کرو) اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔
اس خاص منصب کے محسوس اور ظاہری اظہار کے لیے انہیں بتا دیا گیا کہ کہ اگر وہ ایمان و عمل اور دعوتِ دین کے مطلوبہ معیار پر پورا اتریں گے تو اسی دنیا میں مادی برکات، خوش حالی، اور مخالف اقوام پر سیاسی غلبہ پائیں گے اور اگر ایسا نہیں کریں گے، تو اپنے جرائم کے لحاظ سے ذلت و رسوائی اور قتل و محکومی کی سزائیں پائیں گے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم (سورہ المائدہ، 5:69)
(حقیقت یہ ہے کہ خدا کی نجات پر کسی کا اجارہ نہیں ہے، لہٰذا) جو مسلمان ہیں اور جو (اِن سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو صابی اور نصاریٰ کہلاتے ہیں، اِن میں سے جو لوگ بھی اللہ پر ایمان لائے ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے نہ (خدا کے حضور میں) کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔
بائیبل میں اس کی مزید تصریح مل جاتی ہے۔ کتاب استثنا میں یہ خدا کا یہ وعدہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اُس کے اُن سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی مبارک ہو گا… خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں، تیرے روبرو شکست دلائے گا۔ وہ تیرے مقابلے کو تو ایک ہی راستے سے آئیں گے، پر سات سات راستوں سے ہو کر ترے آگے سے بھاگیں گے… اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے، تجھ سے ڈر جائیں گی… اور خداوند تجھ کو دُم نہیں، بلکہ سر ٹھیرائے گا اور تو پست نہیں، بلکہ سرفراز ہی رہے گا… لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اُس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی تو لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی لعنتی ہو گا… خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو اُن کے مقابلے کے لیے تو ایک ہی راستے سے جائے گا اور اُن کے سامنے سے سات سات راستوں سے ہو کر بھاگے گا اور دنیا کی تمام سلطنتوں میں تو مارا مارا پھرے گا۔‘ (28:1-25)
اس کی ایک دوسری دلیل یہ ہے کہ خدا کا عمومی تکوینی قانون یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار کوئی قوم عروج کے بعد زوال آشنا ہو جائے تو پھر کبھی ویسا عروج نہیں پاتی۔ قدیم دور میں یونان اور روم، اور جدید دور میں برطانیہ اور روس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن اس عمومی کلیہ سے بالکل برعکس، بنی اسرائیل دنیا کی واحد قوم ہے، جس نے اپنی دو ہزار سالہ تاریخ میں عروج و زوال کے کئی ادوار دیکھیے۔ یہ وہ محسوس نشانِ حق ہے جو خدا نے ذریت ابراہیم کے ذریعے دنیا میں قائم کر رکھا ہے۔
جاری۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“