قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 16
غلط فہمی کی بنیاد:
جاوید احمد غامدی صاحب کے بیان کردہ اتمام حجت کے اس ضابطہء الہی کے اطلاقات اور جزئیات کے بیان پر جو اعتراضات پیش کیے جاتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ دو مختلف قوانین الہی کی تفہیم میں عدم امتیاز برتنا ہے، جس سے خلط مبحث پیدا ہوا ہے۔
ان میں سے ایک تو قانونِ اتمام حجت ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اس کے علاوہ ایک اور خاص قانونِ الہی بھی ہے جس کو ایک عہد کی صورت میں اللہ نے ذریت ابراہیم کے ساتھ طے کیا تھا اور جو اب تک چلا آ رہا ہے۔ ان دونوں قوانین کے اپنے اپنے اطلاقات ہیں۔ ان کو الگ الگ سمجھنا چاہیے۔
8) ذریت ابراہیمؑ کے ساتھ خدا کا خاص عہد
خدا اپنے دین کے اظہار اور تبلیغ کے لیے خاص افراد کو بھی چنتا ہے اور خاص اقوام کو بھی:
اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (سورہ الحج، 75)
اللہ فرشتوں میں سے بھی (اپنے) پیغام بر چنتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ (اِس سے وہ خدائی میں شریک کیوں ہو جائیں گے)؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ (خود) سمیع و بصیر ہے۔
اسی اصو ل کے تحت ذریت ابراہیم کو چنا گیا:
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ. ﴿آل عمران ۳: ۳۳﴾
’’اللہ نے آدم اور نوح کو ، اور ابراہیم اور عمران کی ذریت کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر ﴿اُن کی ہدایت کے لیے﴾ منتخب فرمایا ۔‘‘
ان کے ساتھ خدا کا عہد ہے کہ اگر وہ ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورا اتریں گے تو اسی دنیا میں مالی خوشحالی اور سیاسی سربلندی پائیں گے، اور اگر ایمان و عمل میں کوتاہی برتیں گے تو اسی دنیا میں ذلت و رسوائی کا منہ دیکھیں گے۔ ان کا وجود تاقیامت خدا کے ایک زندہ نشان کے طور پر قائم رہنا ہے، تاکہ لوگ عبرت حاصل کرتے رہیں۔ یہ عہد ذریت ابراہیم کی پہلی شاخ، بنی اسرائیل سے بھی طے پایا اور دوسری شاخ، بنی اسماعیل سے بھی۔
بنی اسرائیل سے اس عہد کا تذکرہ قرآن میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (سورہ البقرہ 2:63)
ور یاد کرو، جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا اور طور کو تم پر اٹھایا تھا، (اِس تاکید کے ساتھ کہ ) اُس چیز کو پوری قوت کے ساتھ پکڑو جو ہم نے تمھیں دی ہے، اور جو کچھ اُس میں (لکھا) ہے، اُسے یاد رکھو تاکہ تم (خدا کے غضب سے) بچے رہو۔
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (سورہ البقرہ، 2:40)
(قرآن تمھارے لیے یہی ہدایت لے کر آیا ہے ، اِس لیے) اے بنی اسرائیل، میری اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی تھی اور میرے عہد کو پورا کرو ، میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔
وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّـهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِندَ اللَّـهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورہ النحل، 16:95)
تم اللہ کے عہد کو تھوڑی قیمت کے عوض نہ بیچو۔ (خدا کے بندو)، اگر تم جانو تو جو کچھ خدا کے پاس ہے، وہی تمھارے لیے بہتر ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ (سورہ آل عمران، 3:187)
اور اُن لوگوں کو جنھیں کتاب دی گئی، اُن کا وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے اُن سے لیا تھا کہ تم لوگوں کے سامنے اِس کتاب کو لازماً بیان کرو گے اور اِسے ہرگز نہ چھپاؤ گے۔
جاری۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“