قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 15
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیاوی عذاب آنے کی مہلت میں فرق:
(حصہ چہارم)
عام لوگ جو ان سرداروں کے کہنے پر جنگ بدر میں چلے آئے تھے اور ان پر ابھی اتمام حجت نہیں ہوا تھا،یا اتمام حجت ہو تو گیا تھا، لیکن ان کے ایمان لانے کا امکان تھا، وہ اس جنگ میں نہیں مارے گئے۔ تاہم، ان میں سے بھی اگر کوئی مارا گیا ہو سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ عصبیت کی جنگ لڑتا ہوا اپنی جارحیت کے نتیجے میں مارا گیا۔ وہ اگر اس جارحیت کا ارتکاب نہ کرتا تو مزید مہلت سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اتمامِ حجت کا یہ مطلب نہیں کہ موعود عذاب سے پہلے کوئی جارحیت کرے تب بھی مارا نہ جائے یا اسے طبعی موت نہ آئے گی۔ ایسے مارے جانے یا مر جانے والے افراد کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
جنگِ بدر میں آنے والے ان متبعینِ کفار، جن پر اتمام حجت نہیں ہوا تھا، میں سے اکثر واپس جانے میں کامیاب ہوگئے تھے، جب کہ 70 افراد قیدی بنا لیے گئے اور وہ بھی بعد میں چھوڑ دییے گیے۔ یعنی ابھی ان پر حتمی عذاب کا وقت نہیں آیا تھا۔ اب ان میں جو زخمی ہوئے، جن کو ہزیمت کا مزہ چھکنا پڑا اور جو قید ہوئے، تو ان کے لیے یہ دنیاوی عذاب کی چھوٹی قسمیں تھیں، جو تنبیہ کے لیے آتے ہیں، اور جو رسولوں کے منکرین کو حتمی دنیاوی عذاب سے پہلے دیے جاتے ہیں، ایسے ہی جیسے فرعون اور اس کی قوم پر غرق ہونے کے آخری عذاب سے پہلے 7 عذاب نازل کئے گئے تھے تاکہ ان لوگوں میں جو متنبہ ہو کر ایمان لانے والے ہیں وہ ایمان لے آئیں۔ سب سے آخری عذاب میں فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کیا گیا، پھر اس کے پیچھے اس کے ملک پر اسی طرح عذاب آیا جیسے دیگر اقوام پر آتا رہا تھا۔
فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ (سورہ اعراف،7:136-137)
سو ہم نے اُن سے انتقام لیا اور اُنھیں سمندر میں غرق کر دیا، اِس لیے کہ اُنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور اُن سے بے پروا بنے رہے۔ اور اُن کو جو دبا کر رکھے گئے تھے، ہم نے اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۔ بنی اسرائیل پر تیرے پروردگار کا وعدۂ خیر اِس طرح پورا ہوا، کیونکہ وہ ثابت قدم رہے اور ہم نے فرعون اور اُس کی قوم کا سب کچھ برباد کر دیا جو وہ (اپنے شہروں میں) بناتے اور جو کچھ (دیہات کے باغوں اور کھیتوں میں ٹٹیوں پر) چڑھاتے تھے۔
اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بعد بھی ممکنہ ایمان لانے والوں کے لیے منکرین اور معاندین پر بھی تنبیہی عذاب کا سلسلہ جاری رہا تھا، درج ذیل آیات دیکھیے:
أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (سورہ التوبہ 9:1266)
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ وہ آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی نہ توبہ کرتے ہیں، نہ یاددہانی حاصل کرتے ہیں۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللَّـهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۚ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (سورہ الرعد، 13:41)
کیا یہ نہیں دیکھ رہے کہ اِس سرزمین کو ہم اِس کے کناروں سے کم کرتے ہوئے اِس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اُس کے فیصلے کو ہٹانے والا نہیں ہے اور وہ بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۔
جنگ بدر میں قید ہونے والوں کے لیے ابھی مہلت ختم نہیں ہوئی تھی، اسی لیے ان سے کہا گیا کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارا طرز عمل دیکھیں گے۔ چنانچہ ان میں سے کئی بعد میں مسلمان ہو گئے اور جو نہیں ہوئے ان میں سے بعض کے لیے وہی قتل کی سزا تجویز ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے وقت اعلان فرمایا کہ یہ لوگ اگر کعبے کا غلاف پکڑ کر بھی پناہ مانگیں تو بھی ان کو معاف نہ کیا جائے۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“