قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 14
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیاوی عذاب آنے کی مہلت میں فرق:
(حصہ سوم)
البتہ ان کفار میں سے جو اتمام حجت کے بعد مستحق عذاب ہو چکے تھے، ان پر عذاب آنے میں زیادہ مہلت نہیں دی گئی۔ مثلًا جو کفار خود آگے بڑھ کر بدر کے میدان میں جنگ کرنے اٹھ آئے تھے، ان میں بھی زیادہ وہی سرداران مارے گئے تھے، جن پر حجت تمام ہو گئی تھی۔
ہم جانتے ہیں کہ رسول اپنی دعوت کی ابتدا اپنی قوم کے سرداروں سے ہی کرتا ہے۔ ایک وقت تک ان کو سمجھانے اور ان کی طرف سے مایوسی کے بعد اسے دعوت عام کا حکم ملتا ہے۔ اس لیے سرداروں پر اتمامِ حجت بھی دوسروں سے پہلے ہو جاتا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اپنی کتاب ’’دعوت دین اور اُس کا طریق کار‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’…حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے خود اپنے اُس خاندان کو دعوت دی جو قوم کی مذہبی پیشوائی کی مسند پر متمکن تھا ۔ پھر اُس بادشاہ کو دعوت دی جس کے ہاتھوں میں سیاسی اقتدار کی باگ تھی اور جو اپنے آپ کو لوگوں کی زندگی اور موت کا مالک سمجھے ہوئے بیٹھا تھا …حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ سب سے پہلے فرعون کو مخاطب کریں … حضرت مسیح علیہ السلام نے سب سے پہلے علماے یہود کو دعوت دی ۔اِسی طرح حضرات نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، سب کی دعوتیں قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اِن میں سے ہر نبی نے سب سے پہلے اپنے وقت کے ارباب اقتدار اور متکبرین کوجھنجھوڑا اور اُن کے افکار و نظریات پر ضرب لگائی ۔سب سے آخر میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ کو حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔یہ لوگ عرب کی مذہبی اور پدرسرانہ (patriarchal) حکومت کے ارباب حل و عقد تھے اور اِس کے واسطے سے سارے عرب کی اخلاقی اور سیاسی رہنمائی کر رہے تھے ۔‘‘
اسی لیے دیکھا جائے تو جنگِ بدر میں مارے جانے والے 700 کفار میں تقریبًا تمام ہی سردارانِ قریش تھے۔
اس بات کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جن سرداران قریش پر اتمامِ حجت کے بعد مہلت ختم ہو گئی تھی اور وہ جنگ بدر میں نہیں آئے تھے، وہ بھی آخری اجتماعی عذاب، جو صحابہ کی تلواروں سے آیا، سے پہلے ہی انفرادی عذاب کا شکار ہو کر مرے۔ مثلاً ابو لہب جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کے باوجود اللہ کے دنیاوی عذاب کا شکار ہو کر رہا۔ اسے عدسہ کی بیماری لاحق ہوئی۔ لوگ بدبو کی وجہ سے اس کے پاس نہ آتے تھے۔ سخت اذیت اور بے بسی کے ساتھ وہ مرا۔ پھر اس کی لاش کی بدبو کی وجہ سے کوئی اسے اٹھاتا نہ تھا۔ آخر شرم دلانے پر اس کے بیٹوں نے اس کے پاؤں میں رسی ڈال کر اس کو گھسیٹ کر ایک جگہ پھینکا اور اوپر پتھر ڈال دیئے۔ یہی حال مکہ کے چند دیگر سرداران: عاص بن وائل، اسود بن مطلب، ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یعوث اور حارث بن قیس کا ہوا۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“