قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 12
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7) دنیاوی عذاب آنے کی مہلت میں فرق:
بعض لوگوں کو رسولوں کی قوموں کو اتمام حجت کے بعد عذاب آنے سے پہلے دی جانے والی مختلف مدت کی مہلتوں سے اشکال ہوا، خصوصًا، محمد رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بعد ان کے کفار پر دنیاوی عذاب نازل ہونے میں ملنے والی نسبتا طویل مہلت کی وجہ محل اشکال بنی ہے۔ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ جس طرح انبیا کی مدت تبلیغ و دعوت اور اتمام حجت کی مدت میں فرق ہے، اسی طرح اتمامِ حجت کے بعد مختلف رسولوں کی منکر اقوام پر آنے والے دنیاوی عذاب کی مہلت میں بھی فرق ہے۔ اس کی وجہ ہر قوم کے اپنے اپنے حالات تھے، جن کا کامل علم خدا کے پاس ہوتا ہے۔ نوحؑ نے 950 سال تبلیغ کی۔ عیسیؑ نے چند سال اور محمد رسول اللہ ﷺ نے صرف 13 سال میں مکہ والوں پر اتمام حجت کیا، اور باقی کے 11 سال مدینہ کے ارد گرد یہود، اور عرب علاقوں کے نصاری اور دیگر عرب قبائل پر اتمام حجت فرمایا۔ اتمام حجت کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی، بے شمار سماجی اور نفساتی مسائل اور عوامل کی وجہ سے یہ ممکن بھی نیہں۔ اسی طرح اتمام حجت کے بعد عذاب کے آنے کے لیے بھی کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی۔ جہاں قوم نوحؑ اور قومِ لوط پر ان کے رسولوں کی ہجرت کے فورًا بعد عذاب اتر آیا، وہاں عیسیؑ کے رفع آسمانی کی ہجرت کے بعد 70 عیسیوی میں بنی اسرائیل پر جلا وطنی کا حتمی عذابِ موعود نازل ہوا، جب رومی کمانڈر، ٹائیٹس نے یروشلم کو، عیسیؑ کی پیشن گوئی کے مطابق تباہ و برباد کیا اور یہود کو دربدر کر دیا، جب کہ صالحؑ کی قوم کو تین دن کے الٹی میٹم دے کر عذاب نازل کیا گیا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیاوی کے عذاب نازل ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ رسول اور مومنین کفار سے مکمل طور پر الگ ہو جائیں، جیسا کہ قیامت میں جنت اور جھنم کے فیصلے سے پہلے مومنین کو کفار سے علیحدہ کر دیا جائے گا:
لِيَمِيزَ اللَّـهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (سورہ انفال، 8:37)
اس لیے کہ (اپنی جنت کے لیے) اللہ پاک سے ناپاک کو الگ کرے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر سب کا ڈھیر بنائے،پھر اِس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) یہی لوگ نامراد ہونے والے ہیں۔
بالکل یہی اصول دیناوی عذاب میں بھی اپنایا گیا، کیونکہ یہ دنیاوی عذاب ہے ہی قیامت صغری جو قیامت کبری کے ایک نمونے کے طور پر دنیا میں برپا کیا جاتا ہے۔
عذاب آنے سے پہلے مومنین اور کافرین کی علیحدگی کے لیے دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اور اس کے ساتھیوں کو دنیاوی عذاب سے پہلے حکم دیا جاتا ہے کہ اپنی بستی سے نکل جائیں، دوسرا یہ کہ کفار میں کوئی ایسا نہ رہے جس کے ایمان لانے کی امید باقی ہو۔
یہ اصول نوحؑ کے معاملے میں دیکھیے:
وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (سورہ ھود، 11:36)
(پھر) نوح کو وحی کی گئی کہ تمھاری قوم کے لوگوں میں سے جو ایمان لا چکے، اب اُن کے سوا کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے۔ سو اِن کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو۔
جاری۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“