قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 11
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیاوی عذاب کی دو صورتیں:
اس دنیاوی عذاب کی دو صورتین مقرر کی گئیں:
i. استیصال
iii. محکومی
استیصال یعنی بالکلیہ خاتمہ، یہ سزا، اتمام حجت کے بعد مشرکین کے لیے مقرر کی گئی:
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورہ توبہ، 9:5)
(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
اور محکومی کی سزا اتمام حجت کے بعد اہل کتاب کے لیے مقرر کی گئی:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ(سورہ توبہ، 9:29)
(اِن مشرکوں کے علاوہ) اُن اہل کتاب سے بھی لڑو جو نہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں، (اُن سے لڑو)، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنا قانون بتا دیا ہے کہ وہ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا (سورہ النساٰء، 4:48)
(اِن کا خیال ہے کہ اِن کے عقائد واعمال خواہ کچھ ہوں، یہ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔ اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ) جو اللہ کا شریک ٹھیراتا ہے، وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے۔
دنیا میں قیامت صغری برپا کرنے کا مقصد ہی آخرت میں برپا ہونے والی قیامت کا منظر قائم کرنا ہے۔ قیامت میں بھی مشرکین کے لیے چونکہ معافی کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے دنیا میں برپا کی جانے والی قیامت صغری میں بھی انہیں کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اہل کتاب کو اگر استیصال کی سزا نہیں دی گئی، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ویسا مشرک نہیں مانا گیا۔ ان میں سے یہود تو خالص توحید پر قائم تھے، اور اب بھی ہیں، تاہم مسیحیوں کے تثلیث کے عقیدے کو بھی اس خالص شرک میں شامل نہیں سمجھا گیا جس پر کسی رعایت کی گنجائش نہیں ملتی۔ ناقابل معافی شرک وہ ہے جو بلا تاویل، شرک کا قائل ہو، جیسا کہ مشرکین عرب کہتے تھے کہ ہاں خدا نے اپنے شریک بنا رکھے ہیں، جس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی، جب کہ مسیحی، ایک تو عقیدہ تثلیث کی تاویل کرتے تھے، دوسرا یہ کہ وہ اس پر اپنی کتب سے استدلال بھی کرتے تھے۔ کوئی کسی درجے میں دلیل بھی رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں رسول کے اتمام حجت کے بعد سزا صرف محکومی کی ملی۔
جاری۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“