قانونِ اتمامِ حجت اور اس کے اطلاقات
چند نمایاں اعتراضات کا جائزہ
قسط 10
۔۔۔۔
عذاب نافذ کرنے کے دو طریقے:
اس دنیاوی عذاب کے لیے دو مختلف صورتیں اختیار کی گئیں: ایک قدرتی طاقتوں کے ذریعے اور دوسرے انسانی ہاتھوں کے ذریعے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کی وجوہات درج ذیل معلوم ہوتی ہیں:
i. پہلی وجہ یہ ہے کہ جن رسولوں کو اتنی افرادی قوت میسر نہ آ سکی کہ وہ اپنی قوم کا استیصال افراد کے ذریعے کر سکتے، جیسے نوح، صالح، شعیب علیھم السلام، ان کی قوموں پر یہ عذاب قدرتی طاقتوں: آندھی، طوفان سیلاب، زلزلہ وغیرہ کی صورت میں آیا۔ لوط علیہ السلام نے تو بے ساختہ تمنا کی تھی کہ اگر ان کے پاس افرادی قوت ہوتی تو اپنے گھر پر حملہ آور قوم کا مقابلہ کر گزرتے:
قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ (سورہ ھود، 11:80)
لوط نے کہا: اے کاش، میرے پاس تم سے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔
چونکہ انہیں یہ افرادی قوت میسر نہیں تھی، اس لیے عذاب کے لیے قدرتی آفت، کا ذریعہ ہی استعمال میں لا کر منکرین کا استیصال کیا گیا۔
iii. یا اگر رسول کو افرادی قوت میسر تو آ گئی لیکن کوئی دار الہجرت میسر نہ آ سکا جہاں وہ اپنا آزاد نظم قائم کر پاتا جو موثر جنگی اقدامات کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جیسا کہ حضرت موسیؑ، جنھوں نے بنی اسرائیل کی وافر افرادی قوت ہونے کے باوجود فرعون کے خلاف مسلح کارروائی نہیں کی، نہ اس کی کوئی جدوجہد ہی شروع کی۔ چنانچہ فرعون اور اس کی قوم بھی قدرتی طاقتوں کی مدد سے ہی تباہ کیے گئے۔ البتہ جب صحرائے سینا میں ان کا آزاد نظم قائم ہوا تو بنی اسرائیل کے نہ چاہنے کے باوجود، ان کو منکر قوموں کے خلاف مسلح جہاد کا حکم دیا گیا اور اس حکم کی خلاف ورزی پر ان کے لیے 40 سال کی ذلت اور صحرا گردی کی سزا مقدر کر دی گئی۔ (دیکھیے، سورہ المائدہ، آیت 20 تا 26)
iiii. لیکن جب رسول کو مناسب افرادی قوت حاصل ہو جائے، اور اسے دار الہجرت بھی میسر آ جائے، جہاں ان کا نظمِ اجتماعی قائم ہو جائے، تو منکرین پر اتمام حجت کے بعد عذاب نازل کرنے کی ذمہ داری رسول کے ساتھیوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یہی صورت پیش ائی۔ اس کے لیے قرآن کی درج ذیل آیات ملاحظہ کیجیئے:
هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (سورہ انفال، 8:62)
تو اللہ تمھارے لیے کافی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی.
قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (سورہ التوبہ آیت 14)
ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا اور اُنھیں ذلیل و خوار کرے گا اور تمھیں اُن پر غلبہ عطا فرمائے گا اور مومنوں کے ایک گروہ کے کلیجے (اِس سے) ٹھنڈے کرے گا۔
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّـهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ۔ (سورہ التوبہ، 9: 52)
ان سے کہہ دو کہ تم ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو، وہ اِس کے سوا کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ لیکن ہم تمھارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ تم پر اپنے ہاں سے عذاب بھیجے گا یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو انتظار کرو، ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہیں۔
یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جب محمد رسول اللہ کے ساتھی بھی افرادی اور عسکری لحاظ سے کمزور پڑے تو فرشتوں اور قدرتی طاقت جیسے آندھی کی صورت میں ان کی غیبی مدد کی گئی جیسا کہ جنگ بدر، اور جنگ احزاب میں یہی صورتیں پیش آئیں، لیکن جب مسلمان افرادی اور عسکری لحاظ سے طاقت ور ہوگئے تو پھر غیبی مدد اس طرح نازل نہیں ہوئی۔ سارا کام مسلمانوں کے زور بازو سے لیا گیا۔
یہ بات طے ہو جانی چاہیے کہ بنیادی مسئلے میں اختلاف نہیں ہے۔ رسولوں کی دعوت کے بعد ان کی قوم کے منکرین پر ایک خاص وقت گزر جانے کے بعد آخری سزا کے طور عذاب آیا ہے۔ جس کی دو صورتیں ہیں: ایک قدرتی آفات کے ذریعے اور دوسرے رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے؛ نیز، یہ کہ اب اس طرح یہ عذاب نہیں آیا کرتا۔
جاری۔۔۔۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“