30مئ 1431 کوفرانس میں ایک لڑکی کو زندہ جلایا جاتا ہے۔اس پرمذھبی راہنماؤں نے الزام لگایا وہ لوگوں کو لادینیت کی طرف مائل کر رہی ہے۔یعنی معاشرے کی عام سوچ سےہٹ کرسوچ رہی ہے۔یہ سوچ جرم بنی۔اسکو نذرآتش کردیا گیا۔پھروقت آیا چرچ نے اپنی غلطی تسلیم کی۔کیا قندیل بلوچ کےضمن میں ایسا ہوگا؟
1899 میں لکھنؤ کرسچن کالج کاایک معلم ایک ناول لکھتا ہے۔جوایک طوائف امراؤ جان کی زندگی پرہے۔امراؤجان اپنی کہانی خود بیان کرتی ہے۔عام طوائفوں کےبرعکس وہ نہ توحسین تھی نہ ہی ناز و ادا سے واقف۔طوائفوں کی عام سوچ سے ہٹ کر سوچتی ہے۔پھروہاں سےبھاگ نکلتی ہے۔یہ کچھ قندیل بلوچ کیساتھ ہوا۔
قندیل بلوچ کبھی نمایاں فنکار نہیں رہی۔اسکا تعلق کراچی،لاھور جیسے شہروں سےنہیں تھا۔مظفرگڑھ جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نےمعاشرے کی عام سوچ سےہٹ کر سوچا۔غلط کا صحیح۔اسکافیصلہ وقت کرے گا۔مگرسوچا۔میڈیاکی توجہ نہ ملنے پرسوشل میڈیا کا استعمال کیا۔اسکوراغب کرنے کا ہنرجان گئ۔
نومبر 2017 کو مفتی قوی کو گرفتار کریے چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔مفتی قوی نے بتایا کہ قندیل کے قتل میں جو کار استعمال ہوئی۔وہ انکی تھی۔جس پر قندیل کے بھائیوں وسیم اور عبدالحق کو ڈیرہ غازی خان سے ملتان لایا گیا۔واردات کے بعد انکے کزن عبدالباسط کے پاس چھوڑا گیا۔
قندیل بلوچ کے قتل میں اہم کردار محمد نواز کا ہے۔جس کے گھر قندیل بلوچ رھتی تھیں۔محمد نواز مفتی قوی کا قریبی ساتھی ہے۔مگر حیرت یہ ہے کہ محمد نواز کو پولیس نے گرفتار نہیں کیا۔قاتلوں کی اعانت کرنے والے عبدالباسط اور مفتی قوی دونوں ضمانت پر رہا ہوگئے۔ایسا کیوں ہوا۔؟
قندیل بلوچ معاشرےکا باغی کردارتھی۔اس میں شک نہیں۔مگراسکی کامیابی کا ایک ثبوت یہ ہےعام زندگی میں جو فنکاراسےملنے سے کتراتے تھے۔مرنےکےبعداس پر بننےوالےڈرامےمیں کام کرنے کیلئےبےچین رھے۔یہی حال اداکاراؤں کاتھا۔قندیل اورامراؤ جان کی مشترک خوبی یہ ہے دونوں حقیقی زندگی میں ناکام رھیں۔
مجھےنہیں معلوم کہ قندیل بلوچ پڑھی لکھی تھی۔یا نہیں۔مگرسوشل میڈیا پر اس کے سوال اورگفتگو دیکھ کریہ اندازہ ضرورہوتا تھا۔اسکا ایک خاص مقصد ہے۔وہ بہت سی لبرل نماخواتین راہنماؤں سے بہتر لبرل ازم کی پروموٹر تھی۔اگر وہ زندہ رھتی تو شاید ہم بہت کچھ الگ دیکھتے اورسنتے۔۔مگر یہ نہ ہوسکا۔۔