::: قمر جمیل: شاعرانہ نفی دانش، ہیت گریزی،صوفیانہ وجدان،فنا کی دہشت کا شاعر
===============================================
{ آج قمر جمیل کی سترھویں برسی ہے}
***تحریر: احمد سھیل ***
قلمی نام:قمر جمیل
اصل نام:قمر احمد جمیل
آبائی وطن: سکندر پور، ضلع بلیا، یوپی، بھارت
پیدائش: 10 مئی 1931 ،غازی پور، یوپی، بھارت
تعلیم:بی۔اے، جامعہ عثمانیہ، حیدرآبار، آندھرہ پردیش، بھارت
ملازمت: ریڈیو پاکستان،زیادہ تر ڈھاکہ، کراچی اور حیدرآبار (سندہ) میں متعین رھے۔
کچھ دن کاروبار کیا۔ مگر کامیاب نہ ھوسکے۔
سانس کے مرض میں مبتلا رھے۔ کثرت سگریٹ نوشی کا بھی شکار تھے ۔
وفات: 28۔اگست 2002 ، کراچی، پاکستان، ۔وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں پیوند خاک ہیں۔
تصانیف:
"خواب نما"۔۔۔۔،"چہار خواب" ( شعری مجموعے)
" جدید ادب کی سرحدیں" (سن فروری 2000 ، دو/2 جلدیں ،تنقید)
قمر جمیل نے ریڈیو کے لیے ولیم شیکسپیر کے ڈرامے "میکبتھ" اور "ہملیٹ" کو اردو میں ترجم کرکے نشر کیا۔
کچھ عرصہ روزنامہ " نوائے وقت" کراچی میں ادبی حاشیہ نویسی بھی کی۔ قمر جمیل کو مصوری سے بھی دلچسپی تھی ۔ وہ مصوری میں تجریدیت، سوریلزم، ڈاڈا ازم، سے متاثر تھے۔ گلارج کی تکنیک بھی اپنی مصوری میں استعمال کرتے تھے۔ ان کی مصوری بنیادی طور پر "فن شکن" (ANTI-.ART) تھی۔ جس کے اثرات ان کی شاعری پر بھی بہت گہرےتھے۔
ادبی رشتے داریان : آسی غازی پوری(دادا، نعتیہ شاعر)، محب عارفی (بہنوئی، شاعر) ،احمد ہمیش ( رشتے میں داماد، افسانہ نگار، شاعر، مدیر) اقبال فریدی( برادر نسبتی، شاعر) ان کے صاحبزادے آصف جمیل مصور ہیں۔
قریبی ادبی دوست: سلیم احمد، ضمیر علی بدایونی، رئیس فروغ،رسا چختائی،عبید اللہ علیم، احمد ہمدانی، افتخار جالب ، احمد ہمش ، مشفق خواجہ۔ سارہ شگفتہ اور اسد محمد خان تھے۔
انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور1976 میں نثری نظم کو تحریک کی شکل دینے کے لیے " پروز پوِٹیٹری سرکل" کی بنیاد رکھی۔ جس کا پہلا اجلاس ان کے عزہز آباد ولے گھر میں ہوا تھا۔ انھون نے ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیتے ہوئے ۔ جدید شعری حسیات اور اس کے اظہار اور ابلاغ کے لیے تخلیقی ہنر مندی کی ضرورت پر زور دیا۔ جس میں اسلوب وجدان ، کشف ، لسانی تشکیلات وغیرہ سب ھی شامل تھا ۔ قمر جمیل کی اردو ادب کے علاوہ انگریزی اور عالمی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔
وہ اردو کے نثری نظم کے اھم شاعر ہیں۔ ان کی شاعری خود کلامیہ لگتی ہیں۔ ان کی نظمون میں مخصوص قسم کی مغائریاتی جمالیات بکھری ھوئی ھے۔60 اور 70 کی دھائی میں کراچی کی نئی نسل ان کی شاعری سے بہت متاثر رھی۔ محافل میں بات کرنے کا بہت اچھا سلیقہ تھا۔ ایک زمانے میں کراچی کی ادبی محفلوں کی جان ھوا کرتے تھے۔خاص کر کراچی میں سابقہ عرشی سینما ( عائشہ منزل) پرشام ڈھلے سے رات گئے تک ان کے گھر پر ادبا اور شعرا کا جھمگٹا لگا رھتا تھا۔ لوگوں کو ان کی 1960 اور 1970 کے عشروں کی حلقہ ارباب ذوق کی ادبی اور و علمی مباحث یاد ھوں گی۔انکی نثری نظموں میں داخلی آہنگ بڑا کمال کا ھوتا تھا۔عمر کے آخری برسوں میں قمر جمیل نے جدید تنقیدی ادبی اور لسانی نظریات میں بھی دلچسپی لینا شروع کی۔ اور مابعد جدیدیت اور ساختیاتی موضوعات پر قلم اٹھایا تھا۔
ان کی ایک نثری نظم " امکان" کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں۔
ابد ھمارا گھر ھے
جس کی دیواریں خوابوں سے بنی ہیں
اور جس کی کھڑکیاں
ھماری آنکھوں کے چراغ ہیں ۔۔۔ ( قمر جمیل)
————-
آج ستارے آنگن میں ہیں ان کو رخصت مت کرنا
ایک عجب شہزادہ میرے باغوں کا
شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا
شہر کی گلیاں گھوم رہی ہیں میرے قدم کے ساتھ (ردیف .. ت)
سایہ نہیں ہے دور تک سائے میں آئیں کس طرح
اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
دست_جنوں میں دامن_گل کو لانے کی تدبیر کریں
شیخ کے گھر کے سامنے آب_حرام ڈال دوں
جانے دو ان نغموں کو آہنگ_شکست_ساز نہ سمجھو
آسماں پر اک ستارہ شام سے بیتاب ہے
ایک پتھر کہ دست_یار میں ہے
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
غم_جاناں کی خبر لاتی ہے
میں جنہیں فریب سمجھوں تری یاد_مہرباں کے (قمر جمیل)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل { قمر جمیل}
ہم سے بھی ایک شکوہء پیہم کرے گی رات – ہم سے بھی ایک شکوہء پیہم کرے گی رات
تجھ سے بچھڑ کے آگ پہ ماتم کرے گی رات
جب داستان الم کی سنائیں گے قصہ گو
کچھ اہلِ دل ہیں جن کا بہت غم کرے گی رات
اس دامنِ بہار کا پرچم بنائے گی
اور خود ہی تار تار یہ پرچم کرے گی رات
جب اس جنوں کے داغ سے شمعیں جلائے گی
اک رقص اور بھی تہہِ شبنم کرے گی رات
قمر جمیل کی جدید حسیت کی نژی نظمیں کراچی کے ادبی جریدے " سیپ" ( مدیر: انعام درانی) میں پچھلی صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں چھپیں۔"جن میں ان کی لکھی ھوئی نظمین۔۔۔ "دو لڑکیاں اور سمندر"۔۔۔۔"کپاس کا پھول"۔۔۔۔"جسپی گرل"۔۔ " پرندے اور رات"۔۔ اور "تذکرہ گلشن جدید"۔۔۔۔ اور "صریر" کے مئی 1993 کے شمارے میں ان کی ایک بہترین نظم ۔۔"امکان " ادبی حلقوں میں خاصی ہنگامہ خیزی کا سبب بنی تھی ۔
تصانیف
خواب نما (شاعری)
چہار خواب (شاعری)
جدید ادب کی سرحدیں (تنقیدی مضامین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔