::: قمر جلالوی: کلاسیکی اردو غزل کا تشکیکی حسیات کا شاعر:::
{ ۱۹ اگست کو استاد قمر جلالوی کا یوم پیداش ہے}
پیدائش : ۱۹ ، اگست ۱۸۸۷ – موت : ٤ اکتوبر ١٩٦٨ عمر 91 سال
جائے ولادت : قصبہ ‘جلالی‘ علی گڑھ، یوپی ، ہندرستان۔
١٩٤٧ میں نقل مکانی کرکے کراچی چلے آئے۔
استاد قمر جلالوی کا اصل نام محمد حسین عابدی تھا
میں نے استاد قمر جلالوی کو ان کی عمر کے آخری حصے میں متعدد بار دیکھا اور انکے اشعار ان کے زبان سے سنے۔ غالبا ١٩٦١-٦٢ کا زمانہ تھا جب میرا قیام کراچی میں نشتر روڈ (سابقہ لارنس روڈ) کے قریب تھا۔ وہاں پر پاکستان کواٹر میں مسجد فردوس کے قریب ایک غیر معروف شاعر قاضی نثار صاحب، مرحوم ( محکمہ امپورٹ ایکسپورٹ میں ملازم تھے۔ یہ رسا چختائی کے قریبی دوست تھے) کے گھر میں اتوار کے دن صبح دس بجے کے بعد تاش کھیلے جاتے تھے اور شعر و شاعری ھوتی تھی۔ اس محفل میں استاد قمر جلالوی عموما تشریف لایا کرتے تھے۔ استاد چائے بڑے شوق سے پیتے تھے اور اشعار سنانے سے پہلے ‘لونگ‘ منہ میں رکھ لیتے تھے۔شاعری کے اچھے تاریخ گو بھی تھے۔
قمرجلالوی کلاسیکی اردو غزل کے بہتریں کلاسیکل شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے. ان کی غزل شاعری اظہار اور حسیت کے منفرد شاعر ہیں ۔آٹھ سال کی عمر میں اشعار کہنا شروع کئے۔ بیس (٢٠) سال کی عمر میں ان کی شاعری کی دھوم مچ چکی تھی اور وہ ایک مقبول شاعر بن گے۔.۔ 24 سال کی عمر میں ہی انہوں نے بہت سے نوخیز شعرا کو اصلاح دینی شروع کر دی تھی۔ یہیں سے لفظ استاد ان کے نام کا سابقہ بن گیا اور کیا چھوٹے کیا بڑے‘ سبھی انہیں استاد کہنے لگے۔جلالی اور علی گڑھ کے اکثر نوجوان اور شعرا انہیں اپنا کلام دکھانے لگے تھے لیکن وہ خود تشنگی سی محسوس کرتے تھے اور اسی لگن نے انہیں اس وقت کے مشہور استاد اور پختہ کار شاعر امیر مینائی اور سیماب اکبر آبادی سے وابستہ کر دیا۔ قمر جلالوی کا نکاح ۱۹۲۹ء میں محترمہ کنیزہ سیدہ سے ہوا جنکے بطن سے ان کی صرف ایک بیٹی کنیز فاطمہ ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد آپ ۱۱، ستمبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان تشریف لے آئے۔بہت جلد ہر مشاعرے کا جزو لازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی، شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ غزلیات کے علاوہ وہ مرثیے، سلام، منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور ان میں بھی ان کے کلام کے سبھی خوبیاں موجود ہوتی تھیں۔استاد قمرؔ جلالوی اپنے وقت کی عہد آفرین شخصیت رہے… حبِ اہلِ بیت علیہما السلام میں ڈوبی آپ کی اردو شاعری رہتی دنیا تک آ پکا نام زندہ رکھے گی…
خطیبِ شامِ غریباں حضرتِ مفتی علامہ نصیر الاجتہادی نے قمر جلالوی کی شاعری پر کیا شاندار تبصرہ کیا کہ
استاد قمر جلالوی کی شاعری "مرگ پسر پر کس طرح صبر ہوتا ہے" اور "محراب خنجر کے نیچے کس طرح شکر ہوتا ہے" کی تفسیر ہے ۔
مرتضی' کو خانہ زاد رب اکبر دیکھ کر
بیاہ دی بیٹی پیمّبرۖ نے بڑا گھر دیکھ کر
جب بھی اٹھے گا نبی کی جانشینی کا سوال
فیصلہ ہوگا شب ہجرت کا بستر دیکھ کر
وہ تو یوں کہیے کہ آپہنچے مدینے سے علی
ورنہ لوٹ آۓ بہت سے باب خیبر دیکھ کر
ہوتے ہوں گے کنج مرقد میں فرشتوں کے سوال
ہم سے تو کچھ بھی نہ پوچھا شکل حیدر دیکھ کر
زوج زہرا کا پتا معلوم تھا ورنہ قمر
عرش سے آتا ستارہ سینکڑوں گھر دیکھ کر
قمر جلالوی تا حیات مالی مشکلات میں مبتلا رھے اور ایک عرصے تک کراچی میں زولوجیکل گارڈن (سابقہ گاندھی گارڈن) کے قریب سائیکلون کی مرمت اور پنچر زدہ پہیوں کو درست کرکے پیوند لگایا کرتے تھے۔ جب اس صورتحال کا پتہ رشید ترابی صاحب کو ھوا تو انھوں نے قمر جلالوی کا اپنے گھر واقع جمشید روڑ کراچی میں اپنے گھر میں رکھا۔ اور حکومت کی جانب سے ان کے لیے وظیفہ بھی جاری کروایا۔ استاد قمر جلالوی کو مرثیہ نگاری میں بھی کمال حاصل تھا انہوں نے خاصی تعداد میں نوحے اور مراثی لکھے ان کلام کو کئی گلوکاروں نے گایا۔ اور ان کا یہ کلام عوام میں مقبول بھی ھوا جیسے ۔۔۔
۔۔۔کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں ۔۔۔ حبیب ولی محمد، منی بیگم
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے ۔۔۔ منی بیگم
میرا خاموش رہ کر بھی انھیں سب کچھ سنا دینا ۔۔۔ عابدہ پروین
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو ۔۔۔ نورجہاں
آئے ہیں وہ مزار پہ ۔۔۔ صابری برادران
حفیظ ہوشیار پوری اور راغب مراد آبادی نے ان کی تاریخ وفات ’’استاد قمر جلالوی کا ماتم‘‘ سے نکالی‘ اس مصرعے کے اعداد کا مجموعہ 1388 بنتا ہے جو استاد قمر جلالوی کا ہجری سن وفات ہے۔
استاد قمر جلالوی‘ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے‘ بجلی گری تھی جب گلستاں پر
استاد قمر جلالوی کے چار (٤) شعری مجموعے ہیں :
١۔ رشک قمر
٢۔ اوج قمر
٣ِ۔ تجلیات قمر
٤۔ غم جاودان
ان کی ایک غزل ملاخطہ کریں:
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بجھ گیا جلتے جلتے
انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا "محبت نہ کرتے
تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے"
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے
وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈوبے ستارے
قمر اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے
استاد قمر جلالوی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔