قمر جلال آبادی کا اصل نام اوم پرکاش بھنڈاری تھا۔ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ 9، مارچ 1917 میں امرتسر کے ایک گاؤں " جلال آباد میں پیدا ہوئے۔ سات سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے تقریباً تمام فلمی گیت اردو میں لکھے جو ایک عرصے تک گونجتے رھے اور آج بھی ان کی تازگی میں کمی نہیں آئی۔ جب انھوں نے لکھنا شروع کیا تو "امر" نام کے ایک خانقاہی شاعر ان کو اردو شاعری توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ امر نے قمر جلال آبادی کی شاعری کو متاثر ہی نہیں کیا بلکہ امر نے ان کا تخلص "قمر" (چاند) بھی انھوں نے ہی دیا۔ قمر جلال آبادی نے امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ صحافت سے وابستہ ھوگئے اور اس وقت لاہور سے شائع ھونے والے اخبارات " ڈیلی ملاپ'۔۔ ڈیلی پرتاب"۔۔۔" نرالا" ۔۔۔ اور " ستار سہاکر"۔۔ میں کام کیا۔ بھر وہ چالیس کی دہائی میں فلموں میں قسمت آزمانے کے لیے پونا چلے گئے۔ اس زمانے میں فلم میں دلچسپی لینے والا شخص پونے کی راہ لیتا تھا۔ قمر جلال آبادی کو 1942 میں پنچولی پروڈکشن کے زیر تحت بنے والی فلم" زمیندار" میں پہلی بار گیت لکھنے کا کا موقعہ ملا۔ جیسے شمشاد بیگم نے گابیا تھا۔ اس گانے میں بہزاد لکھنوی کے دو/2 مصرعے بھی اس گانے میں اضافے کے طور پر شامل کئے گے۔۔۔۔۔ اس گانے کے بول یہ تھے ۔۔۔۔ " دینا میں غریبوں کو آرام نہیں ملتا ۔۔۔۔ روتے ہیں تو ہسنے کا پیغام نہیں ملتا "۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد وہ تقریباً چار/4 دہائیوں تک بمبئی کی فلمی دینا پر چھائیے رہے۔ 9 جنوری 2003 میں بمبئی میں اس دنیا کو خیر باد کہا۔
ایک خوب رو شاعر کے گیتوں میں دل لگی، غم و انبساط، رومان اور گہری معاشرتی معنویت ہوتی تھی1947 میں ان کی فلم " ملاقات" کا گانا ۔۔ " دل کس لیے روتا ہے، پیار کی دینا میں، ۔۔۔۔ 1953 مین محمد رفیع اور لتا منگیشکر کا گانا جو فلم " دو آنسو" کے لیے لکھاتھا۔ بہت مقبول ہوا۔۔۔۔ " دیکھو میرے سجنا دیکھو مجھے بھول نہ جانا"۔۔ فلم " ہارڈہ برج" کےگانے بھی انھوں نے ہی لکھے۔ اس فلم کا گانا ۔۔" میرا نام چن چن" ۔۔ آج بھی لوگوں کی زبان پر ازبر ہے۔ اس گانے کوگیتا دت نے گایا تھا۔آشا پوسلے کا گایا ہوا ان کا گانا ۔۔" آئیے مہربان بیٹھے جاں جان "۔۔۔ کو بھی بہت شہرت ملی۔ فلم " آگ" کا ان کا لکھا ہوا ایک گیت ۔۔" زندہ ہوں اس طرح کی غم زندگی نہیں"۔۔۔ کو کون بھول سکتا ہے!! قمر جلال آبادی کے گیتوں کو نورجہاں، جی۔ ایم درانی، زینت بیگم، منجو، امر بائی کرائستگی، محمد رفیع، گیتا رائے، طلعت محمود، ثریا، مکیش، شمشاد بیگم، منادے،آشا پوسلے، لتا منگیشکر اور کشور کمار نے اپنی آوازیں دیں۔ ان کے قریبی دوستوں میں کلیان جی آنند جی،او پی نیر، امین سایانی قتیل شفائی، بھارت بھوشن، دلیپ کمار، اجیت، راج کپور، محمد رفیع، نذیر حسین، ایس ڈی برمن، شیام سندر، پرتھوی راج، مدن موہن، بادرہ، اوشا منگیشکر، لتا منگیشکر، پردیپ کمار، امیتابچن، ناصر کان، دھرمیندر، پریم چوپڑہ، مکیش، مینا کماری، پردیپ کمار، مناڈے، مبارک بیگم ، شمی کپور اور شمشاد بیگم شمار کئے جاتے ہیں۔
قمر جلا آبادی مذھبی انسان تھے۔ انھوں نے مذہبی شاعری بھی کی۔ وہ ہر روز '"بھگوت گیتا" پڑھتے تھے۔ ان کے مطالعوں میں قرآن مجید اور انجیل بھی پڑھتے تھے۔ وہ اپنے والدیں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ انکی ایک بہن جس کے سسرال میں خانگی پریشانیاں اور مسئلے مسائل تھے۔ اپنی اس بہن کو قمر جلال آبادی نے اپنے " جوہو" والے گھر میں رکھا۔ قمرصاحب عموما گھر پر ھی رھتے تھے۔ اور دوستوں احباب کی محفلیں گھر پر ہی سجاتے تھے۔ ان کے گھر پر دوستوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، انکی بیوی کا نام " لیلا وتی" تھا۔ ان کی سات/7 اولادیں تھیں۔ قمر جلال آبادی کی صاحبزادی " شہبانی سوار"نے قمر صاحب کی ویب سائٹ بنائی ہے۔ اس پر انھوں نے لکھا ہے کی قمر جلا آبادی" ہندی" کے شاعر اور گیت نگار تھے۔ حالانکہ وہ تا حیات اردو میں شاعری اور گیت نگاری کرتے رھے۔ ان کی بیٹی 'شہبانی سوا ر' کواردو پڑھنا لکھنا نہیں آتی مگر ان کو اردو کے بے شمار اشعار ازبر ہیں۔
قمر جلال آبادی فلم رائٹر ایسوسی ایشن (آئی۔ پی۔ آر۔ ایس) ممبئی کے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں۔ ان کے چند مشہور فلمی گیت یہ ہیں:
" اے چاند بتا مجھ کو کیا اس کا نام ہے پیار" ( چاند۔ 1944)
"کیا یہی تیرا پیار ہے" ( مرزا صاحباں 1947)
" بدنام نہ ہوجائے محبت کا فسانہ" (شہید، 1948)
"وہ پاس رہیں یا دور رہیں "( بڑی بہن 1949)
" ایک پردیسی میرا دل لے گیا" (پھگن۔ 1958)
" ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا" ( چھلیا 1960)
"میں تو ایک خواب ہو، اس خواب سے تو پیار نہ کر" ( ہمالیہ کی گود میں)
قمر جلال آبادی کی دو/۲ غزلیں ملاخطہ ہو:
0
یہ دردِ ہجر اور اُس پر سحر نہیں ہوتی
کہیں اُدھر کی تو دنیا اِدھر نہیں ہوتی
نہ ہو رہائی قفس سے، اگر نہیں ہوتی
نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
ستائے جاؤ نہیں کوئی پوچھنے والا
مٹائے جاؤ کسی کو خبر نہیں ہوتی
نگاہِ برق عِلاوہ مِرے نشیمن کے
چمن کی اور کسی شاخ پر نہیں ہوتی
قفس میں، خوف ہے صیّاد کا نہ برق کا ڈر
کبھی یہ بات نصیب اپنے گھر نہیں ہوتی
منانے آئے ہو دنیا، میں جب سے رُوٹھ گیا
یہ ایسی بات ہے جو درگُزر نہیں ہوتی
پِھروں گا حشْر میں کِس کِس سے پُوچھتا تم کو
وہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی
کسی غریب کے نالے ہیں آپ کیوں چونْکے
حضُور شب کو اذانِ سحر نہیں ہوتی
یہ مانا آپ قسم کھا رہے ہیں وعدوں پر
دلِ حزیں کو تسلّی مگر نہیں ہوتی
تُمِھیں دُعائیں کرو کچھ مریضِ غم کے لئے
کہ اب کسی کی دعُا کارگر نہیں ہوتی
بس آج رات کو تیماردار سو جائیں
مریض اب نہ کہے گا، سحر نہیں ہوتی
قمر یہ شامِ فراق اوراضطرابِ سَحَر
ابھی تو چار پہر تک سحر نہیں ہوتی
۰۰۰۰۰
قمر جلال آبادی, غزل
کریں گے شکوۂ جور و جفا دل کھول کر اپنا
کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا
مکاں دیکھا کئے مڑ مڑ کے تا حد نظر اپنا
جو بس چلتا تو لے آتے قفس میں گھر کا گھر اپنا
بہے جب آنکھ سے آنسو بڑھا سوز جگر اپنا
ہمیشہ مینہ برستے میں جلا کرتا ہے گھر اپنا
پسینہ اشک حسرت بے قراری آخری ہچکی
اکٹھا کر رہا ہوں آج سامان سفر اپنا
یہ شب کا خواب یارب فصل گل میں سچ نہ ہو جائے
قفس کے سامنے جلتے ہوئے دیکھا ہے گھر اپنا
دم آخر علاج سوز غم کہنے کی باتیں ہیں
مرا رستہ نہ روکیں راستہ لیں چارہ گر اپنا
نشانات جبیں جوش عقیدت خود بتا دیں گے
نہ پوچھو مجھ سے سجدے جا کے دیکھو سنگ در اپنا
جواب خط کا ان کے سامنے کب ہوش رہتا ہے
بتاتے ہیں پتا میرے بجائے نامہ بر اپنا
مجھے اے قبر دنیا چین سے رہنے نہیں دیتی
چلا آیا ہوں اتنی بات پر گھر چھوڑ کر اپنا
شکن آلود بستر ہر شکن پر خون کے دھبے
یہ حال شام غم لکھا ہے ہم نے تا سحر اپنا
یہی تیر نظر تو ہیں مرے دل میں حسینوں کے
جو پہچانو تو لو پہچان لو تیر نظر اپنا
قمرؔ ان کو نہ آنا تھا نہ آئے صبح ہونے تک
شب وعدہ سجاتے ہی رہے گھر رات بھر اپنا
زمیں مجھ سے منور آسماں روشن مرے دم سے
خدا کے فضل سے دونوں جگہ قبضہ قمرؔ اپنا