شہر کے ایک محلے میں مخلوط آبادی کے درمیان ایک مسجد میں امام صاحب اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہتے ہیں ۔گزشتہ آٹھ روز سے بال بچوں سمیت محصور ،پابندی کے ساتھ اذان اور نماز کی ادائیگی ان کا معمول ہے ۔مسجد کا صدر دروازہ مقفل ۔۔۔کبھی کوئی مصلی۔۔فون پر رابطہ کر کچھ عنایت کرنے کی ضد کرتا ۔۔وہ رب کا شکر ادا کر دعائیں دے کر انکار کردیتے ۔
امام صاحب کو توکل اور خودداری کی وجہ سے علاقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ۔ہم وطن بھی ان کا احترام کرتے ۔نویں روز امام صاحب صبح سویرے صدر دروازہ کھول باہر آئے کہ یہی مارکیٹ کے لیے اوقات مقرر کیے گئے تھے ۔بازار جاتے ہوئے راستے میں ایک کرانہ دکاندار بھگوان داس نے انھیں آواز دی ۔
امام صاحب !۔۔کچھ ضرورت ہو تو بولیے ،آپ کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔۔۔حساب بعد میں چکتا کردینا ،،۔
امام صاحب نے اسے مسکراکر دیکھا ،،نہیں جی! ابھی نہیں ۔۔ضرورت رہی تو کہہ دوں گا۔ ،،۔۔یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے ۔۔بھگوان داس سوچنے لگا ۔۔میں اس بستی میں پندرہ برس سے ہوں ۔۔جو رائی کا پہاڑ بناکر پیش کیا جا رہا ہے وہ تو مجھے اب تک نظر نہیں آئی ۔۔۔کم از کم امام صاحب میں تو نہیں ۔۔ان کی بیوی کو کسی نے بازار میں یا بے پردہ نہیں دیکھا ۔۔امام صاحب کو نیم عریاں تو کجا کبھی انہیں بنیان میں بھی کسی نے نہیں دیکھا ۔۔۔!!!
اگلے روز امام صاحب صبح سویرے بھگوان داس کی دکان کے سامنے کھڑے تھے ۔
امام صاحب ۔۔۔جو چاہے لے لیجئے !۔۔بے فکر ہوکر ۔۔پیسوں کی چنتا نہ کریں !!
جب چاہیں دیں !،،
میں مقروض مرنا نہیں چاہتا ،،۔۔امام صاحب نے مختصر سا جواب دیا ۔
بھگوان داس پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔ایسے حالات میں بھی !!۔
چند ضروری اشیاء خرید کر امام صاحب نے ایک نوٹ آگے بڑھائی ۔
بھگوان داس نے نوٹ تجوری میں رکھ چند نوٹ ان کے حوالے کیں۔
،،یہ تو زیادہ ہے ۔۔۔تقریباً پندرہ سو روپے ،،
،،آپ نے دو ہزار کی نوٹ دی تھی نا ؟،،
،،نہیں پانچ سو کی !،،۔۔امام صاحب پندرہ سو کاؤنٹر پر رکھ کر آگے بڑھ گئے ۔
بھگوان داس۔۔۔بڑبڑانے لگا ۔۔میڈیا جھوٹ بولتا ہے ۔۔سفید جھوٹ !!،،
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...