کبھی میرے پورے گھر میں قالین نما چیزیں بچھی ہوتی تھیں ۔ ویکیوم کلینر استعمال ہوتا ۔ تمام کھڑکیاں بہت عالیشان اور بھاری پردوں سے مزین تھیں۔ میری کام والی روزانہ کلو ڈیڑھ کلو سرف سے پورا گھر دھویا کرتی تھی۔ تیزابی پانی سے روز کے روز واش رومز اور بیسن صاف ہوتے۔ جب یہ کام ہو رہا ہوتا تو کیمیکلز کی اتنی تیز بُو ہوتی کہ گھر میں سانس لینا مُشکل ہو جاتا۔
سارے کمرے بند اور دن رات اے سی چلا کرتے تھے۔ وہی گندی ہوا چار پانچ بندوں کے پھیپھڑوں سے نکل کر ساری رات دوبارہ اُن ہی پھیپھڑوں میں آتی جاتی رہتی۔
پھر میرے چھوٹے بیٹے کو ہلکی ہلکی کھانسی شروع ہوئی۔ ساتھ میں بخار ہونا شروع ہو گیا۔ کھانسی اور بُخار کی کوئی وجہ سمجھ نا آئے۔ تین ، ساڑھے تین سال کا بچہ تھا۔ باوجود علاج بُخار بڑھتا چلا گیا ۔ تقریباً دو سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ کبھی بخار اُتر جائے، کبھی چڑھ جائے ۔ کبھی کم ہو جائے اور کبھی زیادہ۔ لیکن اتنے تیز بخار کی کوئی وجہ سمجھ نا آئے۔ میرے دل میں ہول اُٹھتے۔ بہت بار میں اپنی طرف سے بیٹے کے لئے رو دھو کر بیٹھ گیا۔
نااُمید ہو کر پاگلوں کی طرح اپنے بیٹے کو ہاتھوں پر اُٹھا کر پورا پنجاب پھرتا رہا۔ کوئی ڈاکٹر، کوئی ہسپتال نا چھوڑا۔ ایک دن 105 ڈگری بخار سے عزیز فاطمہ ہسپتال فیصل آباد لے کر گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بچے اور میرے گھر کی پوری تفصیل دیکھ سُن کر پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ بچے کے حقیقی باپ ہو یا سوتیلے۔ آپ اپنے غلط طرزِ زندگی سے بچے کی جان کیوں لے رہے ہو۔ آپ اپنا بیٹا کیوں مارنا چاہتے ہو ۔ ؟
ہسپتال میں اُن نیک ڈاکٹرز نے بچے کا دلجمعی سے علاج کیا۔ گیارہویں دن بیٹے کا بخار ختم ہوا اور بارہویں دن میں بچے کو واپس گھر لایا۔
بیٹے کو باہر حویلی میں لِٹا کر میں نے گھر سے سبھی قالین ، فوم ، پردے، کیمیکل نُما چیزیں، واش رومز دھونے والا تیزابی پانی، بلیچ، پلاسٹک کے برتن وغیرہ، ہر چیز باہر نکال کر چھت پر پھینک دی۔ یوں میں فِطری زندگی کے قریب ترین آ گیا۔
گھر کیمیکلز، قالینوں اور بھاری پردوں سے پاک ہوا تو وہ دن اور آج کا دن، میرا بیٹا بالکل ٹھیک ٹھاک ہے، میں صحت مند ہوں ، میرا پورا گھرانہ صحت مند ہے۔
اللّہ پاک سے اپنے گھر کے لیئے، کُل جہان کے لئیے صحت، رحم و کرم اور خیر و برکت مانگتا ہوں۔