قلندر
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملکوں سے زیادہ مشہور شہر ہوا کرتے تھے۔ اس وقت تو بہت سارے ملک وجود میں بھی نہیں آئے تھے۔ قومی ریاستوں کا وجود بہت دیر بعد ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ایشیا ایک بہت بڑے صحرا کی مانند تھا اور اس میں شہروں کی صورت بہت سارے نخلستان موجود ہوا کرتے تھے۔ وہ نخلستان جہاں علم کے مسافر اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں اتنا علم جمع کرتے تھے کہ ان خود کنویں بن جایا کرتے تھے اور صرف علم کے کنویں ہی بذات خود پیاسوں کے پاس آتے ہیں۔تاریخ میں صوفیاء کرام کا سفر اس پس منظر میں دیکھا جا سکتاہے۔
قلندر شہباز نے اپنے علم کا سفر کا آغاز کس شہر سے کیا؟ مورخین کے لیے اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے مگر ہم سب کو پتہ ہے کہ ان کے علمی مسافت کی آخری منزل سیوہن تھا۔ قلندرشہباز کی پوری زندگی علم کے لیے سفر تھی۔ اس لیے انہوں نے نہ شادی کی ؛ نہ گھر بسایا؛ نہ خاندان ؛ نہ اولاد! وہ ساری خوشیاں جو عام انسان کے لیے بہت اہم ہوتی ہیں۔ قلندر شہباز ان خوشیوں سے دور ہے۔ ان کی ساری مسرتوں کا محور علم تھا۔ انہوں نے پورے عالم میں علم کی تلاش کی۔
وہ قلندر شہباز جن کا جنم تو افغانستان کے تاریخی شہر مروند میں ہوا اور جنہوں نے وفات سیوہن میں پائی۔ مگر مروند اور سیوہن کے درمیاں علم کی ایک دنیا تھی؛ بغداد سے لیکر مشہد تک اور مشہد سے لیکر قونیا تک مسلم دنیا کے وہ سارے شہر وں کے درمیاں سارے راستے دریاؤں کی طرح تھے اور ان دریاؤں پر دل کی کشتی میں سفر کرنے والا علم کا ایک مسافر سید محمد عثمان مروندی بھی تھا۔ وہ سید محمد عثمان مروندی جسے اس کے پیروکار ان کے مخصوص مزاج اور انوکھے انداز کی وجہ سے قلندر کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ پھر سید محمد عثمان مروندی والا نام تاریخ کے کتابوں تک محدود رہ گیا اور عوامی زباں پر صرف قلندر کی پکار باقی بچی۔ وہ پکار آج بھی جب گونجتی ہے تب سیوہن شہر پورے پاکستان کے لوگوں سے بھر جاتا ہے۔گذشتہ روز ختم ہونے والی عرس کی تقریبات میں بیس لاکھ زائرین نے شرکت کی۔ حالانکہ عام خیال یہ تھا کہ سکیورٹی کے خدشات کے باعث اس بار زائررین کی آمد بہت کم ہوگی۔ مگر قلندر شہباز کے عقیدت مندوں نے اس خیال کو غلط ثابت کیا۔ وہ اس بار گذشتہ سال سے زیادہ آئے۔ یہ دنیا کو دکھانے کے لیے نہیں آئے۔ وہ میڈیا کوریج میں اپنی تصویر شامل کروانے نہیں آئے۔ وہ اس لیے بھی نہیں آئے کہ وہ ضدی تھے۔ وہ خطروں سے کھیلنے والے نہیں تھے۔ کوئی اپنے خاندان کو ساتھ لیکر خطرو ں سے نہیں کھیلتا۔ سیوہن میں قلندر شہباز کے مزار پر تو لوگ معصوم اور نوزائیدہ بچوں کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ جو قلندر شہباز کے مزار کے سائے کو دعا سمجھتے ہیں۔ وہ بہت سادہ سے لوگ ہیں۔ ان کی آمدکا سلسلہ نسل در نسل ہے۔وہ کچھ سوچ کر نہیں آتے۔وہ محبت کی تاریخی روایت نبھانے کے لیے آتے ہیں۔ ان کی راہ کو کوئی بھی خطرہ نہیں روک سکتا۔ اس لیے حالیہ دنوں میں جب قلندر شہباز کی مزار میں دھمال کے دوراں خودکش دھماکہ ہوا اور ایک سو کے قریب انساں اجل کا شکار ہوئے اور پورا مزار انسانی خون سے سرخ ہوگیا ۔ تب اس ماتمی رات گذرنے کے بعد اگلی صبح کو جب قلندر شہباز کے مزار کے گنبذ کو سورج کے کرنوں نے چھوا بھی نہیں تھا کہ ملنگوں کی بہت بڑی تعداد مزار کے مرکزی دروازے پر جمع ہوگئی۔ جب انتظامیہ والوں نے ان سے لوٹ جانے کو کہا تب انہوں نے واپس جانے سے صاف انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں دھمال ڈالنے آئے ہیں۔ ہم محبت کی رسم نبھانے آئے ہیں۔ حالانکہ اس وقت پورا سندھ سوگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ سیوہن تو سکتے میں تھا۔ قلندر شہباز کے مزار کی فضا میں بارود اور انسانی خون کی بو پھیلی ہوئی تھی ۔ مزار کے فرش کو ابھی صاف بھی نہیں کیا گیا تھا۔ ابھی تفتیشی اداروں کو وہاں سے شواہد اکھٹے کرنا تھے۔ اس لیے وہاں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر قلندر شہباز کے ملنگ رات کے پچھلے پہر شور مچاتے رہے کہ انہیں اپنے لال سائیں کے مزار پر آنے دیا جائے۔ کیوں کہ ان کے دل میں بھی بہت دکھ تھا۔ ان کے سینے میں بھی سوگ کی آگ جل رہی تھی۔ وہ بھی اس آگ کو اپنے پسینے کے بوندوں سے بجھانا چاہتے تھے۔ وہ اندر آنا چاہتے تھے۔ وہ اس خون آلودہ فرش پرقلندری ررقص کرنا چاہتے تھے۔ وہ مزار جو مقتل بن گیا تھا وہ ہاں رقص کرنے آئے تھے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس انگریزی گانوں کے البم کے بارے میں سنا بھی نہیں جس کا نام ہے Blood on Dance floor یعنی رقص گاہ پر خون۔ اس اسٹیج پر خون جہاں رقص کیا جاتا ہے۔ جس طرح حسن نے لکھا تھا کہ:
’’شہر جاناں میں اب
پھول کھلتے نہیں
دوست ملتے نہیں
کوچہ دلبراں
اب چتائیں لگیں
رقص گاہوں میں اب
پاؤں زخمی ہوئے
پھر تم کو صنم ڈھونڈنے کے لیے
ہم کہاں تک گئے؟
بس عدم تک گئے!‘‘
ابد اور عدم کے درمیاں بہت ساری منزلیں اور بہت سارے موڑ ہیں۔
ایک موڑ کا نام سیوہن ہے۔ وہ سیوہن جو کچھ عرصہ قبل اپنے عاشقوں کے خون میں سرخ ہوا۔ اس سرخی پر اس رات کے پچھلے پہر قلندر کے ملنگ دھمال ڈالنے آئے۔
وہ سیوہن جہاں آج بھی لاکھوں لوگ صرف اس لیے جمع ہوتے ہیں کیوں کہ وہاں جمع ہونا ایک روایت ہے۔ وہ روایت کی راہ پر سفر کرکے دور دور سے آتے ہیں۔ قلندر شہباز کا عرس مئی یا جون کے ان مہینوں میں ہوتا ہے جب سیہون کے ایک طرف کھیرتھر پہاڑوں کا سلسلہ سورج کی گرمی سے اتنا تپ جاتا ہے کہ اس فضا میں عقابوں کے علاوہ کوئی اور پرندہ شام تک اڑنے کی جرئت نہیں کرسکتا۔ جس طرح کاچھو کی فضاؤں میں صرف باز اڑتے ہیں۔ اسی طرح شدید ترین گرمی میں شہباز قلندر کے مزار پر صرف اس کے دیوانے اور پروانے آتے ہیں۔ وہ جو ہوش گنوانے آتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کی طرح کچھ سوچ کر نہیں آتے۔ وہ مفاد پرست مسافر نہیں۔ وہ محبت کے راہی ہیں۔ وہ جو کوچز اور ٹرین اور اپنی ذاتی سواریوں میں سیوہن پہنچ کر ناچنے لگتے ہیں؛ ان کو اتنا ہوش کہاں کہ وہ وہاں حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیں۔ یہ دیکھیں کہ حکومت نے سکیورٹی کا بندوبست ٹھیک طرح سے کیا ہے یا نہیں؟اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت نے مزار پر پولیس کی نفری بڑھانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا۔ وہاں اب تک کوئی ایمرجنسی سینٹر نہیں ہے۔ وہاں پر ایمبولنسوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے انتظامات بھی نہیں ہیں۔ مگر پھر بھی قلندر کے مستانے سراپا رقص بن کر مزار میں داخل ہوتے ہیں۔
قلندر اور ان کے چاہنے والوں کے درمیاں دوکھوں سے بھری ہوئی پوری دنیا موجود ہیں۔ اگر حکومت سندھ کو اپنے فرائض کا احساس ہوتا تو وہ عرس کے موقعے پر آنے والے زائرین کے سہولیات کے سلسلے میں بندوبست کرتی۔ مگر وہاں پانی کے گلاس سے لیکر چائے کے کپ تک زائرین کو لوٹا جاتا ہے۔ عرس کے موقعے پر ہوٹلوں کے کھانوں کی کوائلٹی اور قیمت پر کوئی چییک نہیں ہوتا۔ غیرمعیاری کھانا مہنگے داموں میں فروخت ہوتا ہے۔ حکومت زائرین کے لیے صاف پانی کا بندوبست بھی نہیں کرتی۔ مگر پھر بھی قلندر شہباز کے چاہنے والے کسی سے شکایت نہیں کرتے۔ وہ مزار کے گرد موجود ساری مشکلوں کو اس عشق کی آزمائش سمجھ کو خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو نسل در نسل قلندر شہباز کی مزار پر آتے ہیں۔ وہ جو اس طرح حاظری دیتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے بزرگوں کو حاظری دیتے دیکھا۔ان کو آج تک قلندر شہباز کے بارے میں معلومات مہیا کرنے کے سلسلے میں کسی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اوقاف کے محکمے کی آنکھ صرف نذرانے پر ہوتی ہے۔ کسی حکومت نے اس عظیم صوفی بزرگ کے بارے میں تحقیقی کام نہیں کروایا جو آج تک ایک پہیلی ہے۔ وہ عظیم صوفی بزرگ جو اپنے دور کا بہت بڑا عالم تھا۔ جس کے پاس ہر سوال کا جواب تھا۔ آج وہ بذات خود ایک سوال ہیں۔
قلندر شہباز کے بارے میں ابھی تک بنیادی باتیں طعہ نہیں ہوئی ہیں۔ اب تک ان کی مزار پر ان کا نام ’’قلندر لعل شہباز‘‘ لکھا ہوا ہے۔ جب کہ بہت سارے مورخین اور محققین کا موقف ہے یہ لفظ ’’لعل‘‘ نہیں بلکہ ’’لال‘‘ ہے۔ قلندر شہباز کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کا رنگ سرخ اور سفید تھا۔ اس لیے ان کے پیروکار پیارسے انہیں ’’قلندر لال‘‘ کہا کرتے تھے۔جب یہ دنیا قلندر لال شہباز کے نام کے بارے میں انجان ہیں تو پھر ان کے کام کے بارے میں اسے کیا پتہ ہوگا؟ قلندر شہباز کے مزار پر عالم قسم کے لوگ بہت کم جاتے ہیں۔ کبھی کسی عالم کو عرس کے موقعے پر سرکاری دعوت ملتی ہے وہ اس طرف نکل جاتا ہے۔ ورنہ وہ وادی عالموں کی نہیں عاشقوں کی ہے۔ جب کہ قلندر خود ایک عالم بھی تھے اور عاشق بھی تھے۔
یہ ساری دنیا کہتی ہے کہ علم اور عشق دو متضاد چیزیں ہیں۔عام خیال یہ ہے کہ علم اور عشق کے درمیاں کبھی قربت پیدا نہیں ہوسکتی۔ علم اور عشق ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے کے لیے کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس لیے دنیا میں کہیں بھی علم اور عشق ایک دوسرے کے قریب نہیں آیا۔اس لیے حسن درس نے بھی لکھا تھا کہ:
’’عالموں کو عشق کا ہے کیا پتہ؟
ظالموں نے دل لگی کی ہی نہیں‘‘
علم اور عشق متضاد رہتے آئے ہیں۔ مگر جب بھی یہ تضادات آپس میں مل جاتے ہیں۔ جب بھی یہ دو دنیائیں مل کرایک ہوجاتی ہیں۔ تب وہ انقلاب آتا ہے؛ جس انقلاب کا نام قلندر ہے۔قلندر علم اور عشق کا سنگم ہے!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔