جو لوگ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا 2004ء سے شروع ہوئی تھی، یہی فیس بُک اور ٹویٹر وغیرہ سے، شاید وہ جانتے نہیں کہ اس سے پہلے بھی سوشل نیٹ ورکس موجود تھے جو 1995ء میں انٹرنیٹ کے وسیع استعمال کے ہمراہ شروع ہوئے تھے۔ آپ کو ایم-ایس-این میسنجر، یاہو چیٹ گروپس، آئی-آر-سی-کیو، اورکٹ وغیرہ یاد ہوں گے۔
مگر انٹرنیٹ اور کمپیوٹرز سے بھی پہلے ایک اور طرز کے سوشل میڈیا نے دنیا میں 70 سے زیادہ برس گزارے ہیں.. بلکہ ہم میں سے بھی اکثر خواٹِین و احباب اُس سوشل میڈیا سے بخوبی واقف ہیں.. وہ ہے ”قلمی دوستی“ یا Pen Pals یا Penfriendship۔ فیس بک کی طرح اِس قلمی دوستی نے بھی بہت شادیاں کروائیں اور فیس بک کی طرح ہی یہاں بھی فیک آئیڈیز کا کافی رجحان تھا۔ اس مسئلہ پر تو کئی ناولز بھی موجود ہیں جن میں دوسری جانب لڑکا نکل آیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ہم قلمی دوستی کو ”اندھی محبت 1.0“ کہہ سکتے ہیں۔ قلمی دوستی کے موضوع پر دو بھارتی فلمیں موجود ہیں: رومانس؛ صرف تُم۔ ہالی وُڈ کی فلم “یو ہیو گاٹ میل” میں بھی یہی موضوع ہے۔
قلمی دوستی کا آغاز 1936ء میں تب ہوا جب امریکا کے سکول میں ایک ٹیچر کو خیال آیا کہ کیوں نہ دنیا بھر کے طلباء کو خط و خطابت کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک کیا جائے۔ ٹیچر نے ”سٹوڈینٹ لیٹر ایکسچینج“ کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ گروپ میں طلباء اپنے آپ کو رجسٹر کرواتے تھے اور کچھ ذاتی معلومات دے دیتے تھے۔ جن طلباء کی معلومات آپس میں میچ ہو جاتی تھی، انہیں رابطہ کروا دیا جاتا تھا۔ طلباء آپس میں خیالات کا اظہار کرنے کے علاوہ پوسٹل سٹیمپس، پوسٹ کارڈز، ذاتی تصاویر، اور اکثر تحائف بھی شیئر کرتے تھے۔ یوں رفتہ رفتہ نئے سے نئے گروپس بنتے چلے گئے۔ ویسے پوسٹل سروسز دنیا میں 17 ویں صدی سے شروع ہو چکی تھیں مگر قلمی دوستی کا نظریہ بہت دیر بعد آیا۔ اور جب آیا تو اتنی جلدی مشہور ہوا کہ ایک دو برس کے اندر ہی اوکسفرڈ ڈکشنری نے Penpal لفظ شامل کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد باقاعدہ طور پر یکم جُون کو پین پال ڈے کو شروع کیا گیا جو آجکل بھی منایا جاتا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، پین سے مراد پین دی سری والی پین نہیں بلکہ انگریزی کا لفظ پین ہے جس کا مطلب قلم ہوتا ہے۔
حیرت کی بات یہ کہ قلمی دوستی آج بھی دنیا میں موجود ہے۔ کچھ لوگ ابھی بھی قلم کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اگرچہ فیس بُک اِسی سلسلہ کی جدید شکل ہے مگر قلمی دوستوں کے گروپس آجکل فیس بک کو استعمال کر کے قلمی دوست بنا رہے ہیں۔ اول گروپ ”سٹوڈینٹ لیٹر ایکسچینج“ کا فیس گروپ بھی موجود ہے۔ مزید گروپس کے نام ہیں: پین پال ورلڈ، واٹ پیڈ، انٹرنیشنل پین فرینڈز، پین پالز ناؤ، انٹرپالز، پوسٹ کراسنگ وغیرہ وغیرہ۔
ظاہر ہے مذکورہ بالا سب گروپس انگریز ہیں، اردو کے قلمی دوستی گروپس شدید تلاش کے باوجود نہیں مل سکے۔ مگر ماضی قریب میں اردو کے اخبارات اور رسائل میں قلمی دوستیوں کے اشتہا انگیز سیکشنز ہوتے تھے ضرورتِ رشتہ قسم کے۔ بعض قلمی دوستی کی کمپنیاں بھی وجود میں آ چکی تھیں جو فِیس لے کر آپ کو دنیا بھر کے لڑکے لڑکیوں سے رابطہ کروا دیتی تھیں۔ ایک تو یہ مرکب یعنی ”لڑکے لڑکیوں“ بڑا دلفریب ہے۔ اِنہی کمپنیز کی ایک مثال اٹیچڈ فوٹو ہے۔ اِسے دیکھ کر ہم میں موجود انکلز اینڈ آنٹیز کو اپنا زمانہ یاد آ گیا ہو گا۔ جو شرارتیں اور فڈے آج کے لڑکے لڑکیاں فیس بک پر کرتے ہیں، ہمارے والدین بھی اپنے بچپن میں کر چکے ہیں مگر ظاہر ہے انہوں نے آپ کو بتایا نہیں ہو گا۔ اگر آپ والدین ہیں تو بتائیے مَیں غلط تو نہیں کہہ رہا؟
ایک کالم میں مستنصر حسین تارڑ نے ذکر کیا ہے کہ وہ بھی قلمی دوستی میں بہت انوالو رہے ہیں اور مختلف ممالک کے سفروں کے دوران اپنے قلمی دوستوں سے ملتے بھی رہے ہیں۔
عالمی جنگ دوم میں قلمی دوستی ایک اور جانب رُخ اختیار کر گئی تھی۔ مختلف اقوام کی لڑکیاں اپنے ملک کے اُن فوجیوں کو خطوط لکھنا شروع ہو گئی تھیں جو فوجی کسی نہ کسی محاذ پر لڑ رہے تھے۔ جو فوجی ”غازی“ بن کر واپس آئے انہوں نے اپنی سہیلیوں سے شادیاں کر لِیں۔
حرفِ آخر کے طور پر ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس کا قلمی دوستی سے تو تعلق نہیں مگر جدید سوشل میڈیا کی روایات سے تعلق ہے۔
ایک دن اشرف کو کیا سُوجھی، اُس نے منصوبہ بنایا کہ آج کے دن وہ بغیر فیس بُک کے، فیس بُک والے سارے کام کرے گا۔
چناچہ وہ گھر سے باہر نکلا اور ہر گزرتے خواتین و حضرات کو روک روک کر بتانے لگا کہ
1) آج مَیں نے صبح پُوڑیاں چنے کھائے ہیں۔
2) ابھی میرا دِل کر رہا ہے کہ سو جاؤں۔
3) گزشتہ رات مَیں اپنی پھوپھی کے گھر تھا۔
4) رات دو بجے کچن میں جا کر جُوس پیا۔
5) میری دو فیمیل فرینڈز اصل میں لڑکے ہیں۔
6) حکومتِ وقت کو حکومت کرنا نہیں آتی۔
7) ایک عالم اونلائن نے تیسری شادی کھڑکا دی ہے۔
😎 پیج نمبر 274۔
9) اُف پوٹی نہیں آ رہی۔
10) نکتہ نمبر 9 کی وجہ سے مَیں نے انہیں جدید شعراء کرام کے اشعار سنائے۔
تب مَیں نے انہیں اپنے فون پر کچھ فوٹوز بھی دکھائیں..
1) مَیں.. پودوں کو پانی دیتے ہوئے۔
2) میرے دوست سردار کی مچھی کھاتے ہوئے۔
3) یہ میری بہن، بیوی/منگیتر اور ساس کی فوٹو ہے۔
4) یہ میرے کزن بشیر کی فوٹو ہے جو آج صبح فجر سے ذرا پہلے پیدا ہوا ہے۔
5) یہ مَیں مینارِ پاکستان کے اوپر چڑھا ہوا ہوں۔ اُس کے بعد میری طبیعت بہت خراب ہوئی تھی۔ ٹانکے لگے۔
6) یہ مَیں اپنی گاڑی میں دہی لینے جا رہا ہوں۔
7) یہ مَیں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر آ نہیں رہی تھی۔ چناچہ وقت گزارنے کے لیے سیلفی بنا لی۔ چہرا سارے غم بتا رہا ہے۔
مزے کی بات یہ کہ کچھ لوگوں نے مجھے بھی اپنی باتیں بتائیں بلکہ ہماری دوستی بھی ہو گئی۔ مَیں نے اُن کی بھی کچھ فوٹوز دیکھ لِیں۔
یہ طریقہ بالکل فیس بُک کی طرح کامیاب رہا۔ شام تک بہت سے لوگ مجھے فالو کر چکے تھے جن میں دو پولیس والے، تین خفیہ ادارے کے اہلکار، ایک ماہرِ دماغی امراض، اور کچھ خواتین کے بھائی وغیرہ تھے۔ فی الحال مَیں دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا ہوں۔ گھر جانے کی ہمت نہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...