نام کتاب: قلم، قرطاس اور قندیل (ناول)
مصنف: محمود ظفراقبال ہاشمی
صفحات: 288 (سفید)
قمیت: 700 روپے
ناشر: ماورا بُکس، 60 دی مال، لاہور۔ فون: 92-42-36303390 / 0300-4020955
ای امیل: [email protected] / [email protected]
مبصر: امین صدرالدین بھایانی، اٹلانٹا، امریکا (17 نومبر، 2017ء)۔
اس جدید ڈیجیٹل دور میں ہمارا دل و دماغ ہر نئے دن کی آمد کے ساتھ کسی ایسی نئی سہولت و ایجاد کا متمنی رہتا ہے جو ہماری زندگیوں کو آسان سے آسان تر بناتی چلی جائے۔ دور کیوں جائیں ابھی دو عشروں قبل ہی کی بات ہے کہ ہم کمپیوٹر کی کمپوزینگ سے یکسر نا آشنا تھے۔ بطورِ خاص اُردو اخبارات و رسائل میں ایک شبعہ ہوا کرتا تھا جسے شعبہِ خطاطی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جہاں ماہرِ فن خطاط حضرات اپنے ہاتھوں کا جادو صفحہ قرطاس پر بکھیرا کرتے تھے۔ مگر ڈیجیٹل اُردو کمپوزینگ نے اس شبعے کی بساط ہی اُلٹ کر رکھ دی ہے۔ ان اِداروں میں شبعہِ خطاطی کی جگہ کمپیوٹر کمپوینگ اور ڈایزائینگ نے لے لی ہے اور خطاطی اور ماہرِ فن خطاط ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔
آج ہم چاہے اُردو لکھیں یا انگریزی، ہر دو صورتوں میں قلم اور کاغذ کے بناء ہی یہ مرحلہ بخوبی سرانجام دے لیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم بہت کچھ لکھنے کے باوجود بھی قلم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ بہت سے دوست یہ خیال کریں کہ شاید میں نے غلطی سے خطاطی پر اپنے کسی مضمون کا آغاز اس کتاب کے تبصرے میں شامل کر دیا ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ محمود ظفر اقبال ہاشمی بھائی کے زیرِ نظر ناول کا پسِ منظر اور زمان و مکان کم و بیش دو دھائیوں قبل کا وہ لاہور ہے جہاں ابھی خطاطی کا فن ڈیجیٹل ایج کے زیرِ عتاب آنا شروع ہی ہوا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار "ریحان نورالدین رقم" جو کہ ایک ماہرِ فن خطاط ہے جس نے اپنے والدِ گرامی "نورالدین نفیس رقم" جیسے فنِ خطاطی کے اُستاد کے زیرِ نگرانی سیکھا اور یہ اُس کی اور اُس کے خانوادے کی روزی روٹی کا واحد زریعہ ہے۔
پرانے شہر لاہور کے پس ماندہ علاقے سلطان پورہ سے شروع ہونے والا یہ ناول جہاں "ریحان نورالدین رقم" کے غمِ روزگار کی داستان ہے وہیں اُس کے والد "نورالدین نفیس رقم" اور اُن کے بچپن کے یار بیلی "شہاب الدین" عرف "شہابے" کی آپسی دوستی جو کہ دراصل دوستی سے بھی کہیں زیادہ ایک دوسرے کے لیے کیے جانے والے ایثار اور قربانی کی داستان ہے۔
اس ناول میں جہاں "شہابا" دوستی، ایثار، قربانی اور بےلوث محبت کے عناصر سے گوندھا ایک یادگار کردار ہے جو کہ اس ناول کی سب سے مزیدار اور چُلبلی شخصیت اور لاہوریوں کے مخصوص انداز میں "آپڑیں" بولتا یہ کردار اس ناول کی جان ہے۔ وہیں "نوید بٹ" جیسا یاروں کا یار بھی ہے جو اپنے دوست کو محبت کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لیے وہ کر گزرتا ہے جو کہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔
گو کہ یہ کہانی سلطان پورہ کے اُس محلے سے شروع ہوتی ہے جس کے تمام بتیس کے بتیس مکینوں کو عدالت نے ایک مقررہ مدت کے اندر اپنے گھروں کو خالی کرنے کی ڈگری بحقِ مالک مکان جو کہ وہاں کثیر منزلہ پلازہ تعمیر کرنے کے درپے ہے جاری کر دی ہے۔ یہ تمام مکین بشمول "نورالدین نفیس رقم" اور اُس کے کے اہلِ خانہ حیران و پیریشان ہیں کہ اب سر چھپانے کی کیا تدبیر کی جائے۔
ایسے میں ایک "قندیل" روشن ہوتی ہے جو کہ "رقم" خاندان کی زندگی میں ایسی شمع کے طور پر داخل ہوتی ہے کہ جس کی آمد سے چہار سو نور ہی نور بکھر جاتا ہے۔ مگر پھر ایک ایسا مرحلہ بھی درپیش آتا ہے کہ نور سے بھری اُس شمع کی لو جس کا نام ہی قندیل ہے حالات کی تیز آندھیوں کے سامنے کچھ یوں ٹمٹمانے لگتی ہے کہ جیسے اب بجھی کہ اب بجھی۔
ناول شروع تا آخر دلچسپ موڑ اور مخلتف المزاج کرداروں سے بھرا پڑا ہے اور اپنے اندر قاری کے لیے ایک وسیع بلکہ اگر صحیح معنوں میں کہوں تو ایک جہانِ دیگر سموئے ہوئے ہے جو کہ محض پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
زیرِ نظر ناول محمود ظفر اقبال ہاشمی کا اشاعت کے لحاط سے تیسرا ناول ہے اور اتفاق سے میرے مطالعے میں آنے والا بھی تیسرا ناول ہے۔
ہاشمی صاحب کے یہ تین ناول اور بطورِ خآص دوسرا ناول " اندھیرے میں جگنو" اور زیرِ تبصرہ ناول پڑھ کر میں یہ بات نہایت ہی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اُن کے ناول نگاری کے انداز میں ڈرامہ نگاری کا وصف بدرجہ اُتم موجود ہے۔ اُن کا یہ ناول بھی ایک بنی بنائی ڈرامہ سیریل ہے۔ اگر کوئی اچھا ٹی وی چینل اور کوئی با صلاحیت ڈرامہ پروڈیوسر ان دنوں ناولوں پر طبع آزمائی کرے تو دیکھنے والوں کو ایسی دو شاندار ڈرامہ سیریل دیکھنے کو ملیں گی جو کہ تادیر یاد رکھی جائیں گی۔
علاوہ ازیں، اس ناول کی جو سب سے خاص بات ہے وہ یہ کہ ہاشمی صاحب نے اسے جس خوبصورتی کے ساتھ فنِ خطاطی کے پسِ منظر میں لکھا ہے اور اس شعبہ کے انحطاط اور اِس سے وابستہ ہنرمندوں کی زبوں حالی کا نقشہ پیش کیا ہے اُسے پڑھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا عرصہ سعودی عرب میں بیتانے والے اس ادیب کی نگاہیں اور سوچ زندگی اور فنِ خطاطی سے منسلک لوگوں کی حیات کے مخفی گوشوں تک جس خُوبی کے ساتھ پہنچی ہے بلاشبہ وہ قابلِ ستائش ہے۔
ایک اور بات جس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا وہ ناول میں موجود نیوریارک، امریکا میں موجود بین اقوامی شہرت یافتہ نیورلوجی ہسپتال کی اہمیت اور کوما کے مرض کے مراحل اور تفصیلات کی فراہمی جس بھرپور انداز میں کی گئی ہے وہ فاضل مصنف کی محنت اور تحقیق کا بین ثبوت ہے۔
مجھے ناول کے آخری مرحلے میں شامل دوسرے اہم ترین مرکزی کردار "قندیل" کے کوما میں چلے جانے کے حوالے سے پیش کردہ منظرنامے اور جملہ تفاصیل پڑھ کر بے ساختہ اپنا افسانہ "سانس کی ڈور" یاد آ گیا جس کی کہانی بھی کوما کے ایک مریض کے اِردگر گھومتی ہے۔
یہ ناول ختم کرتے وقت میرے دل و دماغ میں افسوس کی ایک لہر سی اُٹھی اور وہ اس لیے کہ اب میرے پاس فاضل مصنف کا کوئی ناول موجود نہیں جسے میں پڑھ سکوں اور پڑھ کر اپنے احباب کو اِس حوالے سے اپنے تاثرات میں شامل کر سکوں۔
ہاشمی بھائی کے یہ تین ناول پڑھ کر مجھے یہ اندازہ بھی ہوا کہ بطورِ ناول نگار وہ بہت ہی سوچ بچار کے ساتھ اپنے ناول کی کہانی، پلاٹ، کردار اور اُن کے کرداروں سے متعلق مکالمے اور دیگر متعلقہ عوامل کو پوری گہرائی کے ساتھ پلان کرنے کے بعد اُسے ناول کا روپ دیتے ہیں۔
اس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ اِن تین ناولوں کے بعد اُن کا تازہ ترین ناول بعنوان "میں جناح کا وارث ہوں" منصہ شہود پر آ چکا ہے اور انہوں نے مزید چار ناولوں کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کا بیٹرا بھی اُٹھا رکھا ہے جو کہ یقیناً یکے بعد دیگرے منظرَ عام پر آئیں گے۔
اُن کے آنے والے ناولوں میں "شاخسار"، زرد جھیل کا چاند"۔ "لمس" اور "ِاسی کائنات میں کسی جگہ" شامل ہیں۔
میری دعا ہے کہ اُن کے آنے والے ناول بھی اُن کے سابقہ ناولوں کی مانند اپنے پڑھنے والوں کو یونہی متاثر کریں اور ہاشمی بھائی سدا یونہی چمنستانِ ادب کو اپنی تحریروں سے سیراب کرتے رہیں۔ آمین۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔