دنیا سمجھتی ہے صحافی لوگ بہت امیر ہوتے ہیں، یہ لوگ صرف بڑے بڑے اینکرز کو صحافی سمجھتے ہیں۔۔ اور ظاہر ہے وہ سب کے سب پیٹ بھرے لوگ ہیں۔۔ گرم موسم میں بھی گرما گرم سوٹ پہن کر ایک صحافی کی خبر پر بیٹھ کر تجزیہ کرنے والے کو ہی سب اصلی صحافی سمجھتے ہیں۔۔ یہ دو یا تین گھنٹے میں جتنا کام کرتے ہیں اس کی تھکن دور کرنے کے لیے چائے خانہ یا پھر فائیو سٹار ہوٹل جاتے ہیں۔ ہم 24 گھنٹے کام کرنے والے بھی ڈیسک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اگر خبر بریک کرنے پر چند سیکنڈ کے لیے سکرین پر آ جائیں تو بس تسلی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ہمارے چند لمحوں کی سکرین یاترا کے بعد بڑے بڑے تجزیہ کاروں کے تجزیات چلنا ہوتے ہیں اور وہ تجزیات جس پر عام آدمی تبصرے کر رہے ہوتے ہیں۔۔
ٹی وی چینل ناظرین کو لگتا ہے ڈاکٹر شاہد مسعود اگر قیامت کا منظر بیان کر رہے ہیں تو واقعی قیامت آنے والی ہے۔حالانکہ وہ حضرت جب سے قیامت کا بتا رہے ہیں کئی قیامتیں ہمارے سر سے گزر چکی ہیں اور وہ بھی اے آر وائی سے جیو، جیو سے پی ٹی وی، پی ٹی وی سے رائل، پھر رائل سے نیوز ون کا چکر کاٹنے کے بعد واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکے ہیں بلکہ درمیان میں ایک ایسا ٹھکانہ بھی آیا جہاں وہ چینل شروع کرنے تشریف لے گئے ، چینل تو شروع نہ ہوا مگر موصوف نے اتنی رقم سرمایہ کار کی خرچ کروا دی کہ وہ چینل کھولنے کے ارادے سے ہی غالباً باز آ گئے۔
معذرت کے ساتھ مگر ٹی وی دیکھنے والے تو ڈاکٹر صاحب کی گفتگو دیکھ اور سن کر اتنے متاثر ہو جاتے ہیں کہ اکثر لوگ انہیں ولی اللہ کے درجہ پر فائز سمجھتے ہیں۔ یہ بات ایک پروفیشنل صحافی جانتا ہے کہ اللہ کا یہ ولی، پی ٹی وی سے ایڈوانس میں لی جانے والی تنخواہ بھی اب تک واپس نہیں کر سکا۔پی ٹی وی سے وہ چیئرمین اور ایم ڈی کی دہری تنخواہ لیتے رہے اس سے بھی مجھے کوئی سروکار نہیں لیکن کم از کم انسانوں اور وہ بھی ہر حکومت کے ساتھ اپنے خیالات تبدیل کرنے والے کمزور انسانوں کو ولی اللہ کے درجہ پر فائز کرنا تو چھوڑ دیں۔۔
اسی طرح لوگ اپنے مبشر لقمان ، ڈاکٹر دانش، جیسمین منظور جیسے لوگوں کو بھی صحافی بلکہ بہت بڑا صحافی سمجھتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ ان میں سے کوئی فیشن ڈیزائنر، کوئی دندان ساز، تو کوئی وکیل کے طور پر کام کرتا رہا، کوئی وکالت سے سیاست میں آیا اور سیاست کے بعد ٹی وی پر بیٹھنے کا شوق چرایا تو اینکر بن گیا۔ایک سیاستدان کو ٹی وی پر زیادہ سے زیادہ کچھ سیکنڈ یا کچھ منٹ میسر آتے ہیں لیکن اگر وہ اینکر بن جائے تو شہرت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس اینکرنگ سے پہلے کوئی سیاسی جماعت اسے ٹکٹ دینے پر آمادہ نہیں ہوتی مگر یہاں اینکربننے کے بعد کچھ ہی عرصہ میں سیاسی جماعت اس اینکر کو ضمنی انتخابات میں ٹکٹ بھی دیتی ہے، واہ رے واہ۔۔
اور اب میں لیے چلتا ہوں آپ کو ایک عام صحافی جسے لوگ چند بڑے بڑے نام والے صحافیوں کی وجہ سے لفافہ صحافی کہتے ہیں۔۔ چھوٹی چھوٹی گلیوں ، تاریک علاقوں میں کرایہ کے مکان میں رہنے والا یہ صحافی جب صبح صبح تیار ہو کر نکلتا ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس ہنستے مسکراتے صحافی کے گھر میں راشن ختم ہوئے ہفتہ دس دن ہو چکے ہیں، اس کے بچے کا نام تین ماہ کی سکول فیس نہ دینے پر کاٹ دیا جا چکا ہے۔۔ دو ماہ کی فیس نہ دینے پر کئی دن اسے کلاس سے باہر دھوپ میں کھڑا بھی کیا گیا۔۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس نے آخری بار گوشت کی شکل کب دیکھی تھی۔۔ نئے کپڑے اپنے لیے تو کیا اپنے بچوں کے لیے بھی لینے ہوں تو وہ کئی راتوں کے اس پہر میں گھر میں خاموشی سے داخل ہوا جب بچے سو چکے ہوتے تھے، گھر میں رات کاٹنے کے بعد بچوں کے اٹھنے سے پہلے وہ ایوان وزیر اعظم میں ہونے والے ایونٹ کی کوریج کے لیے روانہ ہو چکا تھا جہاں اس نے کافی عرصہ کے بعد تگڑا ناشتہ کیا۔۔ مگر اس کے بچے۔۔۔ کیا انہوں نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا؟ نہیں۔۔ان معصوموں نے تو یہ سن رکھا ہے کہ ان کا بابا۔۔ ایک بڑے نامی اخبار یا چینل میں رپورٹر، سب ایڈیٹر، کیمرہ مین یا فوٹوگرافر ہے لیکن اس کا فائدہ کیا ہے یہ نہیں معلوم۔
کیا کوئی اس معزز صحافی کی اذیت جان سکتا ہے جس کے بیوی بچوں کو گھر کے سامان سمیت مالک مکان نے رات ایک بجے باہر نکال دیا ہو کیونکہ وہ تین ماہ سے کرایہ نہیں دے سکا۔۔ کیسے دے اسے خود چار ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔۔ کیا کوئی اس تکلیف کو جان سکتا ہے جب ہمارا کوئی صحافی دوست بیماری کے باعث دم توڑ دے اور ہسپتال اس کی لاش ورثا کے حوالہ نہ کرے کہ ہسپتال کا بل پہلے ادا کرو پھر لاش ملے گی، وہ خاندان اپنا واحد کفیل بھی کھو چکا اب اس کی لاش بھی نہیں مل رہی۔
کیا کوئی جانتا ہے۔۔ بہت طاقتور دکھائی دینے والے یہ صحافی جو ملک بھر کے لوگوں کے مسائل پر روز خبریں دیتے ہیں ان کی آوازبلند کرتے ہیں، خود ان کی کوئی سننے والا نہیں، یہ لوگوں کی خبریں شائع کرتے ہیں ان کے مسائل حل کرواتے ہیں لیکن اگر خود ان کی تنخواہ نہ مل رہی ہو، انہیں بغیر نوٹس نوکری سے فارغ کر دیا جائے ، بیماری یا ایکسیڈنٹ کے باعث چھٹی مانگنے جائیں تو پکی چھٹی ہو جاتی ہے۔۔ اور اس کے خلاف اگر یہ مظاہرہ کرنے جائیں ، کوئی احتجاج کریں تو آپس میں پیسوں اور ریٹنگ کے معاملات پر ہر وقت ہی لڑتے رہنے والے تمام اخبار اور ٹی وی چینل مالکان ایک ہو جاتے ہیں، ان کی سنگل کالم خبر بھی نہیں لگ سکتی۔
یہاں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ مالکان کے مفاد کسی بیوروکریٹ کے ساتھ وابستہ ہوں اور ان کا کوئی رپورٹر اس بیوروکریٹ کے ساتھ غلطی کے ساتھ الجھ بیٹھے تو رپورٹر کو معافی مانگنے کا شاہی فرمان جاری ہوتا ہے ، معافی نہ مانگنے پر نوکری سے فراغت کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔ کوئی خاتون صحافی اگر زچگی کے لیے چھٹیاں مانگنے جائے تو اسے بھی مستقل بنیادوں پر گھر بھجوا دیا جاتا ہے۔ یہ ہوتا ہے انصاف۔۔۔ پھر ان مالکان کے بڑے سے بڑے کاموں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے سرکاری و غیر سرکاری کام بھی کروانا صحافیوں کا کام ہی رہ گیا ہے۔۔
ہماری طاقت اتنی ہے کہ پی ٹی سی ایل، موبی لنک، پیپسی سمیت کسی بھی اشتہاری پارٹی کے خلاف خبر نہیں دے سکتے کیونکہ یہ لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات دیتے ہیں اس لیے وہ کوئی بھی غلط کام کریں تو ہمیں کیا؟۔صحافت یہ نہیں کہ ان کے خلاف خبریں دی جائیں بس انتظامیہ کو بتا دیا جائے وہ خود معاملہ ہینڈل کر لیں گے۔
تنخواہیں بڑھانے کے معاملہ میں بھی تمام سیٹھ حضرات ایک ہیں ۔۔ تنخواہیں بڑھتی نہیں۔۔ پھر بھی اگر کسی دھماکہ یا فائرنگ کی جگہ پر ہمارے کیمرہ مین موجود ہوں تو انہیں سب سے بہترین شاٹس بنانے کا کہا جاتا ہے، اگر ایسے میں وہ کیمرہ مین بھی دہشت گردی کا نشانہ بن جائے تو بس دو چار روز تک چینل اس کی خبر بھی چلاتا ہے مگر اس کے بعد اس شہید کے بچے کس حال میں ہوتے ہیں اس کی خبر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ اگر کوئی زخمی ہونے کے باعث معذوری کی زندگی پر چلا جائے تو ہر سال مختلف ممالک کا دورہ کرنے والے مالکان اس غریب کارکن کا بیرون ملک علاج کا خرچ اٹھانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ یہ ہے ہماری زندگی ۔۔۔کیا یہ باعث شرم نہیں کہ مالکان کا خریدا ہوا کیمرہ تو انشورڈ ہوتا ہے مگر اسے استعمال کرنے والا کیمرہ مین نہیں۔۔
ایسے میں جب ہم اپنے بچوں کی طرف دیکھیں اور ان کی آنکھوں میں عام بچوں والی خواہشات دکھائی دیں تو شرمندہ ہو کر سر جھکا لیتے ہیں۔۔ کبھی کبھی کمزور لمحوں میں خیال آتا ہے کہ یہ قلم جس کی حرمت کا عہد نبھا رہا ہوں اگر اسے کبھی فروخت کر دوں تو شاید اپنے معصوم بچوں کی خواہشات پوری کر سکوں۔۔ کیا کوئی خریدار ہے۔۔ ہے کوئی جو میرا لکھنے کا فن خرید لے۔۔ یہ قلم برائے فروخت ہے۔۔ ہے کوئی خریدار؟
بشکریہ صحافی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...