ڈاکٹرمحمد چوہدری تنویرسرورکی کتاب پر تبصرہ
صحافت ریاست کا بنیادی ستون ہے ،عموماً تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے والے دینی و عصری اداروں کے طلباءاس فیلڈ میں آنے سے ڈرتے ہیں مگر صحافت کو اس سے وابستہ اساتذہ کرام نے اور سینئر حضرات نے اتنا آسان بنا دیا ہے کہ اب صحافت مشکل مرحلہ نہیں رہا، بلکہ صحافت سے دلچسپی رکھنے والے احباب کے لیے بہت سے افراد نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت کچھ کتابی شکل میں مہیا کر دیا ہے ۔ جس سے دینی و عصری اداروں کے طلباءکرام آسانی سے صحافت سیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔
انسان کی زندگی میں سب سے اہم چیز ابلاغ ہے ۔ ابلاغ کی مدد سے انسان کی وحشت اور تہذیب کے درمیان جو فاصلہ تھا وہ کم ہوچکا اور وہ زمین کی تسخیر کے بعد خدا کی طرف روانہ ہوا اور مظاہر قدرت سے پردہ اٹھانے لگا۔ ابلاغ کی اہمیت سے انکار ہرگز ممکن نہیں کیوں کہ ہم آج جو زندگی آسائش اور آرام سے گزار رہے ہیں یہ سب ابلاغ ہی کی بدولت ہے انسان اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے قابل اگر ہوا ہے تو اس میں بھی ابلاغ ہی کا کردار ہے۔ اپنے خیالات و نظریات کو دوسروں تک پہنچانا اور خیالات و نظریات کی ترسیل کی بدولت ہم موجودہ ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں۔ کائنات رنگ و نسل اور کئی رنگوں کے انسان اس کے مکین ہیں۔ مذاہب کے معاشی و معاشرتی مسائل اور ماحول یکسر مختلف ہیں۔ لیکن ابلاغ کی ایک قسم ابلاغ عام نے انسانوں کی اس دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے اور انسان باہم رابطے کے ذریعے مختلف ثقافتوں کو ختم کرکے ایک عالمگیر معاشرے کے قیام کے سفر پر گامزن ہے۔
کتب کا حصول علم کا اہم ترین ذریعہ اور معاشرتی علوم کی ترسیل کا موجب بنتی ہیں ۔انسان کے ذہن میں جب مختلف خیالات نے جنم لیا تو انسان نے سوچا کہ کیوں نہ ان خیالات کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا جائے ،اس انسان نے اپنے خیالات کو محفوظ کرنے اور اپنے تجربات سے دوسرے لوگوں کے اشتراک کی خاطر اپنے خیالات و تجربات کو تو کھا لوں یا ہڈیوں پر لکھا پھر اپنی ضرورت کے لئے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان نے کاغذ تیار کیا اور لکھنے کے عمل کو مزید محفوظ بنانے کے لیے چھاپے خانے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کتاب کے ذریعے ہم کسی مخصوص علم میں تخصیص حاصل کرنے کے لئے مواد حاصل کر سکتے ہیں۔ کتاب اگرچہ صحافت میں شامل نہیں تھی مگر ابلاغ عام کاایک اہم ذریعہ ضرورت تھی ۔اس کے ذریعے ہم آنے والی نسلوں تک اپنے نظریات و احساسات پہنچا سکتے ہیں اور ماضی کے متعلق آج زیادہ تر علم ماضی کی حاصل شدہ کتب سے حاصل ہوا ہے۔
اس لئے کتاب بھی ابلاغ عام کا ایک موثر ذریعہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتا گیا اور اس نے ریڈیو ،ٹی وی، ویڈیو ،ٹیپ ریکارڈ، فلم پروجیکٹر اور دیگر ایسی چیزیں ایجاد کیں جن کے ذریعے مختصر وقت میں زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔
مطبوعہ صحافت کی قوت و اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اخبارات و رسائل کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ تاریک دور کو اپنے خون جگر سے روشن کریں اور انسانی بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے عملی محاذ پر جہاد بالقلم کریں۔ جہاں آزادی انسان کا مقدر ہو وہاں چند ذمہ داریاں بھی اس کے حصے میں آتی ہیں۔ مطبوعہ صحافت جو کہ ایک نہایت موثر اور طاقتور ہتھیار ہے لہٰذا اسے چلانے والوں کے کندھوں پر ملکی اور قومی استحکام و سالمیت کے نقطہ نظر سے اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
صحافی چھوٹا ہو یا بڑا اس کے خیالات کسی سے ملتے ہوں یا نہ ملتے ہوں لیکن اسے یہ خبر ضرور ہوتی ہے کہ میں عوام کا ترجمان ہو اور ان کے احساسات کو سمجھ کر ان کی نمائندگی کرنا صحافی اپنا اولین فرض سمجھتا ہے اگر وہ صحافی رپورٹر ہے تو خبر کے ذریعے عوام کے احساسات کو اور جذبات کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر وہ کالم نگار ہے یا ا ینکر پرسن ہے تو وہ حکمرانوں کے آگے عوامی مسائل کو حل کرنے کی تجاویز پیش کرتا ہے اور حکومت وقت کو یہ بتلاتا ہے کہ فلاں فلاں علاقے کے یہ مسائل ہیں جن پر حکومتی مشینری کی خاموشی پر لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں
اس لئے اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اتریں اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنے وسائل کا استعمال کریں۔
اب آتے ہیں نامور صحافی و کالم نگار محترم جناب ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور کی کتاب قلم اور کالم کی طرف۔
کالم لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے کالم لکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ پڑھنا پڑتا ہے پھر جاکر انسان کچھ لکھنے کے قابل ہوتا ہے قلم اور کالم کے مصنف ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور لکھتے ہیں کالم لکھنا اتنا آسان بھی نہیں اس کے لیے کالم نگار کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ ایک کالم نویس عام تعلیم یافتہ انسان سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ اس میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک اچھا کالم نویس کہلاتا ہے اور وہ اپنے تجربہ اور اوصاف کی وجہ سے قارئین کے لئے معیاری اور مقبول کالم لکھتا ہے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کالم نگاروں کی کمی ہرگز نہیں ہے اخبارات کم ہیں ایڈوٹیریل پیج کیلئے لکھنے والے بہت زیادہ ہیں۔
کالم لکھنے والوں کی تعداد آئے دن بڑھتی جا رہی ہے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ افراد لکھتے ہیں اور مسلسل لکھتے ہیں یہاں لکھنے کے حوالے سے اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے سرپرست اعلی علامہ زاہد الراشدی کا ایک لطیفہ قارئین کے لئے خصوصی طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
مولانا علامہ زاہد الراشدی تقریبا 1965 سے مسلسل لکھتے چلے آ رہے ہیں دنیا بھر میں ان کے کالم پڑھے جاتے ہیں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی اخبارات میں ان کے تراجم شائع کئے جاتے ہیں ان سے ایک موقع پر کسی نے سوال کیا کہ
حضرت ہم تحریر لکھتے ہیں اور پھاڑ دیتے ہیں۔پھر دوبارہ لکھتے ہیں پھر پھاڑ دیتے ہیں۔تیسری یا چوتھی مرتبہ کوشش کرنے کے بعد تحریر مکمل ہوتی ہے۔
مگر جب ہم آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ ایک ہی مرتبہ کاغذ قلم تھامتے ہیں اور لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
اور تحریر لکھنے کے بعد کبھی دوبارہ اپنی تحریر کو پڑھا نہیں اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔؟؟؟
حضرت استاد محترم علامہ راشدی صاحب نے فرمایا
بیٹا!میں سوچ سمجھ کر لکھتا ہوں اس لئے ایک مرتبہ لکھتا ہوں اور لکھتا چلا جاتا ہوں،جب کہ آپ لوگ تحریر لکھنے کے بعد سوچتے ہیں کہ ہمیں کیا لکھنا تھا۔اس لئے بار بار آپ کو ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹرچوہدری تنویر سرور سے میری پہلی ملاقات خانیوال میں ایک ادبی نشست کے دوران ہوئی ،اگر چہ سوشل میڈیا پر تعلق ایک عرصہ سے قائم تھا ۔باقاعدہ پہلی ملاقات میں ہی انہوں نے اپنا گرویدہ کرلیا ۔اس کے بعد مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔
ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور کی کتاب قلم اور کالم پر میں کیا لکھوں میرے پاس الفاظ نہیں کیونکہ صحافت کے امام بلکہ صحافیوں کی چلتی پھرتی یونیورسٹی میری مراد محترم جناب مجیب الرحمن شامی ہیں جن کا نام دینی ،فکری، مذہبی اور صحافتی حلقوں میں نہایت احترام سے لیا جاتا ہے آپ روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر ہیں اور صحافت میں آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ محترم شامی صاحب کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور کا شوق انہیں مسلمہ کالم نگار بنا سکتا ہے ،میری دعا ہے کہ وہ اس میدان میں اپنا سفر جاری رکھیں اور اس کے لوازمات کو کبھی نظر انداز نہ ہونے دیں ،میں امید کرتا ہوں ڈاکٹر چوہدری تنویر سرور جس لگن، جستجو، محنت، مشقت اور جدوجہد کے بعد اپنی چھٹی کتاب پاکستانی عوام کو پڑھنے کے لئے مہیا کی ہے آئندہ بھی اسی طرح لکھیں گے اورمسلسل لکھیں گے۔
صحافت کے حوالے سے بہت سے دوستوں کی کتب دیکھیں، بہت سے نام دیکھے مگر قلم اور کالم یہ ایسا نام ہے جس کی محبت چاشنی اور پیار قلم قبیلہ کے رفقاءہی سمجھ سکتے ہیں۔
”قلم اور کالم “اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان اور دیگر برادر صحافی تنظیموں سے وابستہ ممبران کے لئے ایک اچھا پیغام ہے ۔تمام ممبران کو چاہیے کہ وہ قلم اور کالم کو سبقاً سبقاً پڑھیں ،پھر انہیں معلوم ہو گا کہ ہمارا کالم اخبارات میں شائع کیوں نہیں ہوتا اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بھی علم ہوگا کہ کالم کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ،کالم نگار کی خوبیاں کیا ہوتی ہیں، کالم نگار کو کن خامیوں سے بچنا چاہیے ،کالم نگار عوام کے لیے ایک آئیڈیل ہوتا ہے، کالم نگار کی باتیں پڑھ کر انسان اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لئے کالم نگاروں کو چاہیے ایسی چیز لکھیں جس سے عوام الناس کو فائدہ ہو۔
بہت سے کالم نگار ایسے ہوتے ہیں جو اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے سیاسی چالبازیوں پر اپنے قلم کا سارا جوش نکال دیتے ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کا کالم پہلے مرحلے میں ہیں ردی کی ٹوکری میں جا پہنچتا ہے ۔اس لئے ایسے موضوعات کا انتخاب کریں جن سے عوامی مسائل اجاگر ہوں اور آپ کو عوامی نمائندہ کے طور پر لوگ جان سکیں بعض لوگ صحافت کا پیشہ اختیار ہی اس لئے کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بلیک میل کریں گے مگر حقیقی صحافی کی یہ پہچان نہیں ہے۔
میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹرچوہدری تنویر سرور کی طرح ان کی کتاب ”قلم اورکالم “کو بھی ادبی حلقوں میں نمایاں مقام عطا فرمائے ۔