۱۲ ۔ انار ( Zakuro , 1943 )
( The Pomegranate )
کاواباتا یاسوناری ، اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
اس رات تیز ہوا نے انار کے درخت کو تمام پتوں سے محروم کر دیا تھا ۔
یہ پتے اب اس کے تنے کے گرداگرد دائرہ بنائے پڑے تھے ۔
کمیکو اگلی صبح اسے ننگا دیکھ کرچونک گئی اور دائرے کی کامل گولائی دیکھ کرحیران ہوئی ۔ اسے توقع تھی کہ ہوا نے اسے بھی بگاڑ دیا ہو گا ۔
درخت پر صرف ایک انار ، جو بہت ہی عمدہ تھا ، باقی بچا تھا ۔
” ذرا یہاں آئیے اور اسے دیکھیں “ ، اس نے اپنی ماں کو بلایا ۔
” میں بھول گئی تھی “ ، اس کی ماں نے درخت پر ایک نظر ڈالی اور باورچی خانے میں واپس چلی گئی ۔
اس پر کمیکو کو اپنی تنہایوں کا احساس ہوا ۔ انار بھی براآمدے میں تنہا تھا اور بُھلا دیا گیا تھا ۔
دو ہفتے یا شاید اس سے کچھ پہلے کی بات تھی کہ اس کا سات سالہ بھتیجا ملنے آیا تھا ۔ اس نے جب اناروں کو دیکھا تو وہ بندروں کی طرح درخت پر چڑھ گیا تھا ۔ کمیکو نے اس سمے محسوس کیا تھا کہ زندگی کی موجودگی میں وہاں کھڑی تھی ۔
” اوپر ایک بڑا انار ہے ۔ “ ، اس نے برآمدہ سے پکارا تھا ۔
” لیکن اگر میں نے اسے توڑ لیا تو میں نیچے نہیں آ پاﺅں گا ۔ “
یہ درست تھا ۔ دونوں ہاتھوں میں انار پکڑے ہوئے نیچے اترنا آسان نہ تھا ۔ کمیکو مسکرائی ، وہ اسے بہت پیارا تھا ۔
جب تک وہ گھر نہیں آیا تھا انار کے درخت کا کسی کو خیال ہی نہ تھا اور وہ ایک بار پھر اسے بھول چکے تھے ۔
تب اس کا پھل پتوں میں چھپا ہوا تھا لیکن اب وہ آسمان میں درخت پر واضع طور پرٹنگا نظر آرہا تھا ۔
پھل اور نیچے پتوں کے دائرے میں جان تھی ۔ کمیکو گئی اور اس نے ایک بانس کے ذریعے انار کو نیچے گرا دیا ۔
یہ اتنا پکا ہوا تھا کہ اس کے دانے اس سے باہر ابلنے کو تھے ۔جب کمیکو نے اسے برآمدے میں رکھا تو یہ سورج کی روشنی میں چمکنے لگے ۔ لگتا تھا جیسے سورج ان میں گھس گیا ہے ۔
اسے افسوس کا احساس ہوا ۔
دس بجے کے قریب جب وہ اوپرسلائی میں مصروف تھی کہ اس نے کئیکیچی کی آواز سنی ۔ گو ردوازہ بند نہیں تھا لیکن لگتا تھا کہ وہ باغ کی طرف سے آیا تھا ۔ اس کی آواز میں عجلت تھی ۔
” کمیکو ، کمیکو ! “ ، اس کی ماں نے پکارا ، ” کئیکیچی آیا ہے ۔“
کمیکو نے سوئی کو دھاگے سے الگ کیا اور اسے واپس ’ پِن کشن‘ میں گاڑ دیا ۔
” کمیکو کہہ رہی تھی کہ اس کا کتنا جی چاہ رہا تھا کہ تمہیں جانے سے پہلے ایک بار مل لیتی ۔“ ، کئیکیچی لام پر جا رہا تھا ، لیکن ہم بن بلائے تمہیں دیکھنے کیسے جا سکتے تھے اور تم بھی تو نہیں آئے ۔ آج تم نے اچھا کیا کہ ملنے چلے آئے ۔ “
اس نے اسے دوپہر کے کھانے کے لئے روکنا چاہا لیکن وہ جلدی میں تھا ۔
” چلو خیر ، کم از کم ایک انار تو کھاتے جاﺅ ۔ یہ ہمارا اپنا گایا ہوا ہے ۔ “ ، اس نے کمیکو کو ایک بار پھر پکارا ۔
اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں تشکر کا اظہار کیا کہ وہ نیچے اتر آئی تھی ، وہ زیادہ دیر نہ رک سکتا تھا ۔ وہ سیڑھوں پر ہی رک گئی ۔
اس کی آنکھوں میں محبت کی گرمی جھلکی اور انار اس کے ہاتھ سے گر گیا ۔ انہوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
جب اسے احساس ہوا کہ وہ مسکرا رہی تھی تو وہ شرما گئی ۔ کئیکیچی برآمدے سے اٹھ گیا ۔
”کمیکو ، اپنا خیال رکھنا “
” اور تم بھی ۔“
وہ اس کے کہنے سے پہلے ہی مڑ چکا تھا اور اسے خدا حافظ کہہ رہا تھا ۔
اس کے جانے کے بعد کمیکو نے باغ کے دروازے کی طرف دیکھا ۔
”وہ بہت ہی جلدی میں تھا “ ، اس کی ماں نے کہا ، ” اور یہ انار کتنا عمدہ ہے ۔“
اس کی آنکھوں میں جب محبت کی گرمائش ابھری تھی توشاید اس نے انار کو چھوڑ دیا تھا ۔ وہ اسے چھیلنے ہی والا تھا ، لیکن اس نے اسے ابھی دو ٹکڑے نہیں کیا تھا ۔ یہ دانوں سے بھرا تھا ۔
اس کی ماں اسے باورچی خانے میں لے گئی ، اسے دھویا اور لا کر کمیکو کو پکڑا دیا ۔
کمیکو کے ماتھے پر بل پڑے اور وہ پیچھے کو ہٹی ، پھر وہ ایک بار پھر شرم سے لال ہو گئی اور اس نے انار کو تذبذب کے عالم میں ہاتھ میں پکڑ لیا ۔
لگتا تھا جیسے کئیکیچی نے ایک طرف سے انار کے کچھ دانے کھائے تھے ۔
اس کی ماں اسے دیکھ رہی تھی ، ایسے میں کمیکو کو عجیب لگ رہا تھا کہ وہ اسے نہ کھاتی ۔ اس نے سرسری طور پر اسے دانتوں سے کاٹا ۔ اس کا منہ کھٹاس سے بھر گیا ۔ اسے اک اداس سی خوشی محسوس ہوئی اور اس کے اندر دور تک گھستی چلی گئی ۔
اس کی ماں کچھ خیال کئے بنا وہیں کھڑی تھی ۔
وہ آئینے کے پاس گئی اور وہاں بیٹھ گئی ۔ ” اپنے بالوں کو دیکھو، میں انہی جنگلی بالوں کے ساتھ کئیکیچی کو خدا حافظ کہہ رہی تھی ۔ “
کمیکونے بال سنوار نے کی آواز سنی ۔
” جب تمہارے باپ کا انتقال ہوا تھا “ ، اس کی ماں نرمی سے کہہ رہی تھی ، ” میں بال بنانے سے ڈرا کرتی تھی ۔ میں جب بھی ایسا کرتی ، میں بھول جاتی کہ میں کیا کر رہی ہوں ۔ اور جب مجھے ہوش آتا تو مجھے لگتا جیسے تمہارا باپ منتظر ہو کہ میں بال سنوارکے کب فارغ ہوتی ہوں ۔“
کمیکوکو یاد تھا کہ اس کی ماں کی عادت تھی کہ وہ اس کے والد کے کی پلیٹ میں بچا ہوا کھانا کھا لیا کرتی تھی ۔
اسے اپنی ماں کی طرف کشش کا احساس ہوا ، ایک خوش کن کشش جس نے رونے کی خواہش کو جنم دیا ۔
اس کی ماں نے شاید اسے انار اس لئے دے دیا تھا کہ وہ اسے پھینکنا نہیں چاہتی تھی ۔ کیا یہی وجہ تھی کہ وہ چیزوں کو ضائع کرنے کی عادی نہ تھی ؟
اپنے اندر کی نجی خوشی کے ساتھ تنہا ، کمیکو کو ماں کے سامنے شرم آ رہی تھی ۔
اس نے سوچا کہ یہ ایک اچھی الوداع تھی جس کا کئیکیچی کو پتہ ہی نہ تھا اور وہ تو اب ، وقت کی طوالت کا خیال کئے بنا اس کا انتظار کر سکتی تھی ۔
اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا ۔ سورج ان کاغذی دروازوں پر پڑ رہا تھا جن کے پیچھے وہ آئینے کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی ۔
کچھ ایسا تھا کہ وہ انار کھانے سے خوف کھا رہی تھی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔