یک سِنگھے
دوسرا افسانہ ؛ ننھی سبز عفریت
( The Little Green Monster , 1981 )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
اقتباس
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ کافی دیر تک اپنی آنکھوں کو بنٹوں کی طرح گھماتی رہی ۔
” اوہو ، نہیں “ ، میں نے سوچا ، ” کیا یہ لوگوں کے دماغ پڑھ سکتی ہے؟ میں کبھی نہ چاہوں گی کہ کوئی میری سوچ کو یوں جان سکے ۔ ۔ ۔ خاص طور پر جب یہ ’ کوئی‘ خوفناک اور پراسرار مخلوق ہو جیسی کہ یہ ہے ۔“ ، میں سر سے پاﺅں تک ٹھنڈے پسینے میں نہا گئی ۔ یہ میرے ساتھ کیا کرنے والی تھی ؟ مجھے کھا لے گی؟ مجھے اپنے ساتھ زمین تلے لے جائے گی؟ خیر یہ اتنی بھی خوفناک نہیں ہے کہ میں اسے جان بھی نہ سکوں ۔ یہ سوچ بہتر تھی ۔ اس کے بازو اور ٹانگیں نازک اور گلابی رنگ کی تھیں جو اس کے سبز چانوں والے جسم سے باہر نکلی ہوئی تھیں اس کے ہاتھوں اور پیروں کے سروں پر لمبے پنجے تھے ۔ بار بار دیکھنے پر مجھے یہ اچھے لگنے لگے ۔ مجھے یہ بھی احساس ہوگیا تھا کہ یہ مخلوق مجھے نقصان نہیں پہنچانا چاہتی تھی ۔
” بالکل بھی نہیں “ ، اس نے مجھ سے کہا ۔ جب وہ حرکت کرتی تو اس کی چانے ایک دوسرے سے ٹکراکر جھنکار پیدا کرتے جیسے میز پر ساتھ ساتھ رکھے کافی کے کپ آپ کی کہنی لگنے سے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھڑکھڑاہٹ پیدا کرتے ہیں ۔” کتنی بھیانک سوچ ہے مادام : میں یقیناً آپ کو نہیں کھاﺅں گی ۔ نہیں ، نہیں ، نہیں ۔ میں آپ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی ، کوئی نقصان نہیں ، کوئی نقصان نہیں “ ، تو یہ بات ٹھیک تھی : وہ مکمل طور پر میری سوچ کو پڑھ رہی تھی ۔
”مادام ، مادام ، مادام کیا آپ دیکھ نہیں رہیں ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہیں ؟ میں یہاں آپ سے نسبت جوڑنے کے لئے آئی ہوں۔ گہرائی ، گہرائی ، گہرائی ، بہت گہرائی ، بہت ہی گہرائی سے نکل کر یہاں آئی ہوں ۔ مجھے یہاں اوپر، یہاں اوپر آنے کے لئے سارا راستہ رینگنا پڑا ہے ۔ ناگوار ، بہت ہی ناخوشگوار تھا ، مجھے کھودنا ، اور کھودنا اور مزید کھودنا پڑا تھا ۔ دیکھیں اس سے میرے پنجے کتنے برباد ہو گئے ہیں ! میں ایسا کبھی نہ کرتی اگر میں نے آپ کو کوئی نقصان ، تکلیف یا ایذا پہنچانی ہوتی ۔ میں آپ سے محبت کرتی ہوں ، میں آپ کو اتنا پیار کرتی ہوں کہ مجھ سے گہرائی ، اتھاہ گہرائی میں مزید رہنا ناممکن ہو گیا تھا ۔ میں رینگتی ہوئی یہاں اوپر آپ کے پاس آئی ہوں ، مجھے آنا ہی تھا ، مجھے آنا ہی تھا ۔ ان سب نے مجھے روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن میں مزید برداشت نہ کر پائی ۔ اور سوچیں، اس ہمت کے بارے میں، جو مجھ میں عود کر آئی تھی ۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ آپ اس کا کتنا برا منائیں گیں ، اسے گستاخی سمجھیں گیں ، دیدہ دلیری گردانیں گیں کہ میرے جیسی مخلوق کو جرات کیسے ہوئی کہ آپ کو خود سے نسبت جوڑنے کی درخواست کروں ۔“
”لیکن یہ گستاخی اور دیدہ دلیری ہی تو ہے “ ، میں نے دل میں سوچا ، ۔ ۔ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔