(Last Updated On: )
’’شعوروادراک‘‘ شمارہ نمبر( ۳،۲) میں شامل ’’خصوصی گوشہ قیس فریدی ‘‘ سے ایک مضمون
اللہ تعالیٰ نے قلبِ انساں کو مختلف آرزئوں اور خواہشات کا مرکز و منبع بنایا ہے ۔ یہی آرزوئیں اور خواہشات انسان کو زندگی بھر مائل بہ عمل رکھتی ہیں ۔ سرزمینِ بہاول پور ہمیشہ سے مردم خیز خطہ رہا ہے جس نے سینکڑوں عظیم شخصیات کو جنم دیا ہے ، جنہوں نے عزم و ہمت اور جہدِ مسلسل کے میدان میں اعلیٰ منا صب حاصل کیے اور تاریخ کے اَوراق پر گہر ے اَن مٹ نقوش چھوڑے ۔یہ زرخیر خطہ ابتدا ہی سے علمی ، اَدبی ، ثقافتی ، سماجی ، اقتصادی اور تہذیبی مرکز رہا ہے ۔ اسی دھرتی پر دریائے سرسوتی ، گھاگرا ، اور ہاکڑہ سینکڑوں سال بہتے رہے اور زندگی کے گیت گنگناتے رہے ۔ تاریخی عظمت و صداقت ، تہذیب و ثقافت اور علم وعرفان کے ساتھ شعر و اَدب میں بھی یہ علاقہ اپنی ایک مخصوص پہچان رکھتا ہے ۔ اسی دھرتی نے خواجہ غلام فریدؒ ، حافظ نصیر الدین خرمؒ ، خواجہ محمد یار فریدیؒ ، حکیم عبد الحق شوقؒ ، محسن خان پور یؒ ،عبد الرحمن آزادؒ ، ظہور نظرؒ ، شہاب ؒدہلوی ، حیاتؒ میرٹھی ، سید آلِ احمدؒ ، نقویؒ احمد پوری ، حفیظ شاہدؒ ، قاصر جمالیؒ ،ایم عبد الواحد افغان، امان اللہ ارشد او ر دیگرسینکڑوں اُدبا و شعراء کو پہچان بخشی ۔
اِسی سلسلے کی اہم کڑی ۶۰ کی دہائی سے شعرو اَدب کے سمندر میں غوطہ زن معروف شاعر قیس فریدی بھی اِسی روایت کے امین تھے ۔ قیس فریدی کا سلسلہ ٔ نسب سندھ میں آباد ہونے والی قدیم ترین قوم سو مرو سے تھا ، یہ نسلاً عرب تھے ۔قیس فریدی کے آبائو و اَجداد نے قصائی کا پیشہ اَپنایا ۔ قیس ؔ فریدی کے آبائو اَجداد ضلع رحیم یار خان کے اہم اور تاریخی مقام پتن منارا میں آبادہوئے ۔ یہ ضلع رحیم یار خان سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر جنوب مشرق میں خشک دریائے ہاکڑا کے کنارے پر ہے ۔ بعد ازاں قیس فریدی کے خاندان نے ہجرت کرکے بستی سوائے آہنہ کو اپنا مستقل مسکن بنایا ۔ بقول قیسؔ فریدی :
’ ’ میرا خاندان پتن منارا سے ہجرت کرکے مختلف علاقوں میں تھوڑا تھوڑا عرصہ مقیم رہا ۔ بستی سوائے آہنہ ( کھائی خیر شاہ ) میں آکر مستقل سکونت اختیار کر لی ۔ یہاں انہوں نے لگ بھگ پانچ ایکڑ زمین حاصل کی اور کاشت کاری سے منسلک ہوگئے ۔ ‘‘
عظیم سرائیکی شاعرقیس فرید ی کے جدِ اَمجد کا نام باغ علی تھا ۔ قیس فریدی اپنے نانا فقیر بخش کے گھر قصبہ مئو مبارک میں پیدا ہوئے ۔ قیس فریدی کا اصل نام مرید حسین اور والد کا نام حاجی قطب الدین ؒتھا۔ قصبہ مئو مبارک اگرچہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے جہاں نامور بزرگانِ دین شیخ حمید الدین حاکم ؒ، عماد الدینؒ ، مخدوم روشن چراغؒ جیسے اولیا ء اور صوفیا ء اور سرائیکی زبان کے دو معروف شاعر مولوی لطف علیؒ اور مخدوم محمد بخشؒ بھی دفن ہیں ۔کبھی یہ قصبہ علمی و اَدبی اَعتبارسے بہت اہمیت کا حامل تھا لیکن یہ ایک پس ماندہ اور وسائل سے محروم دُور اُفتادہ علاقہ ہے ۔
قیس فریدی کی میڑک کی سند پر تاریخِ پیدائش کے خانے میں ۱۹۵۰ء کا سن درج ہے ۔ ان کی والدہ گانمن مائی اپنے بیٹے قیس ؔ فریدی کی تاریخ پیدائش کے متعلق بتاتی ہیں : ’’میرا بیٹا مرید حسین قیس ؔ فریدی ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ پیدا ہوا ‘ ‘۔
قیس ؔ فریدی کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ گائوں کی مسجد سے شروع ہوا ۔ مولوی عبد الحق نے قیس ؔ فریدی کو قرآن مجید کی تعلیم دی ۔ بقول قیسؔ فریدی :
’’ میں دَس سال کا ہوا تو مجھے والد صاحب اپنے پاس سوائے آہنہ لے آئے اور مجھے مقامی پرائمری سکول میں داخل کروادیا ‘‘۔
پرائمری کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ مڈل سکول ( موجودہ ہائی سکول ) ججہ عباسیاں میں داخلہ لیا ۔ ۷۱۔۱۹۷۰ء میں میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ اُمیدوار پاس کیا ۔ اس کے بعد دورانِ ملازمت فاضل اُردو کا امتحان پاس کیا ۔
میٹرک کے بعد ۱۹۷۲ء میں محکمہ تعلیم میں بطور پرائمری سکول ٹیچر عملی زندگی کا آغاز کیا ۔ ۱۹۸۹ء میں ان کا تبادلہ گور نمنٹ لوانکم سکیم پرائمری سکول خان پور میںہوا اور بعد ازاں اسی ادارے سے ۱۹۹۲ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے ۔
قیس فریدی خان پور سے جس قصبے میں منتقل ہوئے اس کا نام مئومبارک ہے ۔ قیس فریدی انتہائی حَساس انسان تھے ۔قیس فریدی کا ذہن شکست و ریخت کے کئی مراحل سے گزرا ۔ قیس ؔ فریدی نے اپنی ملازمت کے دوران میں ہی معمولی سے مشاہرہ کے باوجودخان پور شہر میں ایک چھوٹا سا گھر بنوایا ۔
قیس ؔ فریدی ایک غیر متعصب ذہن کے حامل شخص تھے ۔ قیسؔ نے ہمیشہ اپنے فن اور عمل سے پیار ، محبت اور اخلاق کا درس دیا ۔ لتا منگیشکر اور حکیم کنفیوشس پر اُن کی نظمیں قیسؔ کے غیر متعصب ، انسان دوست اور انسانیت سے محبت کرنے والے ذہن کی عمدہ دلیل ہیں ۔قیس فریدی کے فن و شخصیت کے حوالے سے مختلف علمی ، ادبی شخصیات کے تاثرات ملاحظہ فرمائیں :
محکمہ تعلیم میں ۵۰ سالہ خدمات ، ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر، نامور ادیب و شاعر اور قیس فریدی کے نہایت قریبی دوست ایم عبد الواحد افغان کہتے ہیں :
’’ قیس فریدی ‘فکر و فن کے لحاظ سے بلند ترین مقام پر فائز تھے ۔ مگر اس برتری اور قابلیت کے ساتھ ساتھ وہ ایک نیک سیرت ، انسان دوست اور پاکیزہ دل و دماغ کے حامل شخصیت تھے ۔ قیس دلوں پر محبت کی بدولت حاکمیت کے قائل تھے ۔ہم بلاشبہ عجز و انکساری اور خلوص و محبت کی عمدہ دلیل کے لیے قیس فریدی بطور حوالہ پیش کرسکتے ہیں ‘‘۔
معروف سیاسی ، سماجی دانشور ، رہنما سرائیکی تحریک ، ایڈیٹر ظہور دھریجہ کہتے ہیں :
’’قیس ؔ فریدی ایک بہت اچھے شاعر تھے لیکن اس سے بڑھ کر ایک اچھا انسان اور اس سے بڑھ کر ایک اچھا دوست تھا ۔ اخلاص قیس ؔ فریدی کی شخصیت کا بہت بڑا وصف تھا ‘‘۔
سابق وائس پرنسپل،صدر شعبہ اُردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج خان پور جاوید اقبال اظہر کہتے ہیں :
’ ’ قیس ؔ فریدی کی شخصیت میں سب سے نمایاں خوبی جو میں نے محسوس کی ہے وہ ان کا اخلاص ہے ۔ دوستوں سے بلا کے مخلص تھے ۔ نہایت شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ ان کا یہ عمل بناوٹی یا کھوکھلا نہیں بلکہ خالص اور تہہ دل سے ہوتا تھا ‘‘۔
قیس ؔ غربت اور تنگ دستی کے باوجود ایک سیر چشم اور بے نیاز قسم کے انسان تھے ۔ کسی قسم کا طمع ، لالچ اُنہیں چھو کر نہیں گزرا تھا ۔ قیس ؔ فریدی کو موسیقی سے بھی ایک خاص رغبت رہی ۔ خاص دوستوں کی محفل میں گاتے بھی تھے اور صرف گاتے نہیں بلکہ بہت اچھا گاتے تھے ۔
قیس ؔ فریدی کی شخصیت کا ایک اہم اور نمایاں عنصر ان کی عاجزی اور سادگی تھی ۔ مجموعی طورپر قیس ؔ فریدی خلوص و وفا سے بھر پور ساد ہ اور پروقار شخصیت کے مالک تھے ۔ انسان دوستی اور انسانیت سے محبت قیس ؔ فریدی کا ہمیشہ منشور رہا ۔ انہیں تہذیب و ثقافت اور ماں بولی سے فطری عشق تھا ۔
فن کسی خطے کا محتاج نہیں ہوتا لیکن اَدبی فضا ، ماحول اور ثقافت فرد کی ذات میں چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز ضرور عطا کرتے ہیں ۔ قیسؔ فریدی بھی ان خو ش نصیب انسانوں میں سے ایک تھے جنہیں فطرت نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا فن عطا کیا تھا ۔ قیسؔ فریدی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بچپن سے شروع کر دیا تھا جب وہ سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ا پنی شاعری کے آغاز سے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں : ’ میں ۱۹۶۰ء سے شاعری کر رہا ہوں ۔ میں نے اُردو غزل سے ابتدا کی تھی ‘ ۔
قیسؔ فریدی کی خوش نصیبی تھی کہ اُنہیں انعام اَسعدی جیسے اہلِ زبان اُستاد سے اصلاح کا شرف حاصل رہا ۔ ایسے صاحبانِ علم کی صحبت نے قیسؔ فریدی کے فنِ شعر گوئی کو عروج بخشا۔ ابتدائی اَدوار میں قیسؔ فریدی نے مختلف اَدبی و شعر کی محافل میں شریک ہو کر اپنا کلام سنانا شروع کر دیا ۔ قیسؔ فریدی کا کلام مقامی اخبارات و رَسائل میں بھی شائع ہونے لگا ۔ اُن کی پہلی دستیاب اُردو غزل ۲۹ ستمبر ۱۹۶۴ ء میں ہفت روزہ ’ انصاف ‘ بہاول پور میں شایع ہوئی جس کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں :
مجھ کو وہ بندگی کاجنوں کر عطا کہ آج
نہ میرا سر رہے نہ تیرا آستاں رہے
اس کے بعد قیسؔ فریدی نے اُردو غزل اور نظم کے ساتھ سرائیکی زبان میں بھی شاعری شروع کر دی ۔ قیس ؔ فریدی نے سرائیکی زبان میں اتنا لکھا اور اتنا اچھا لکھا کہ سرائیکی شاعری ہی ان کی پہچان بن گئی ۔
سرائیکی میں غزل کے ساتھ نظم ،دوہے ، گیت ، ماہیے ، آزاد نظم ، کافی اور بحر میں طبع آزمائی کی ۔ ان کا کلام روزنامہ ’ رہبر، کائنات ، انصاف‘ بہاول پور ، ’شہادت ‘ رحیم یار خان ، ماہنامہ اَدبی رپورٹ ‘ خان پور ، ماہنامہ ’ سچار‘ کراچی ، ہفت روزہ ’ الاستاد ‘ خان پور ، روزنامہ ’ جھوک‘ ، ہفت روزہ ’ کوک ‘ کراچی ،’ ایکسپریس ‘ رحیم یار خان ،’ نوائے وقت ‘لاہور اور ماہنامہ ’ عصائے کلیم‘ کوٹ مٹھن کے صفحات کی زینت بنتا رہا ۔
قیس ؔ فریدی کے اَدبی سرمائے میں چھ سرائیکی شعری مجموعے ، اُردو غزلیں ، نظمیں ، ترتیب دیوان غلام فرید،خواجہ غلام فرید کی چند کافیوں کا ہندی ترجمہ ، گاگھر ( کلیاتِ قیس) ،نثر میں چند مضامین ، خطوط اور سرائیکی اصطلاحات و مترادفات پر ایک کتابچہ شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ11جون 1990ء کو پہلا سرائیکی اخبار ’’جھوک‘‘ شائع ہوا تو اس میںقیس صاحب مضامین بھی لکھتے اور روزانہ ان کا قطعہ شائع ہوتا رہا۔قیس فریدی کی بہت سے کتابیں ابھی غیر مطبوعہ ہیں ان کی ایک کتاب ’’گھاگھر‘‘ کے نام سے بزم ادراک خان پور نے شائع کی ہے۔
کتابوں کا تعارف :
(۱)ارداس :
’ ارداس‘ قیس ؔ فریدی کا اوّلین شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۸۰ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ۔ یہ تخلیقی شعری اظہار ممتاز اکیڈمی بھٹہ واہن ضلع رحیم یار خان کے پلیٹ فارم سے شایع ہوا ۔ سرائیکی غزلیات پر مشتمل اس مجموعے میں ابتدائی دور ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۸ء تک کا کلام شامل ہے ۔ ۸۸صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں کل ۶۸ غزلیں شامل ہیں ۔
(۲) نمرو :
’ نمرو‘ قیس ؔ فریدی کا وہ شعری مجموعہ ہے جو ۱۹۹۲ء میں منظر ِ عام پر آیا ۔ اس میں ان کے ابتدائی عہد کا کلام شامل ہے ۔ جس کا دورانیہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ء تک ہے ۔ یہ مجموعہ جھوک پبلشرز خان پور سے شائع ہوا ۔ اس کا انتساب شاعر نے اپنے بھائی محمد حسین رشدی کے نام کیا ہے ۔ باقی مجموعوں کی نسبت ’ نمرو‘ کی ایک امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ اس میں قیس ؔ فریدی نے مختلف شعری اَصناف میں طبع آزمائی کی ۔ اس مجموعے میں حمد و نعت کے علاوہ ۱۳کافیاں سرائیکی ، ایک سندھی زبان میں ، ۶۳ڈوہڑے ،۲ گیت ، ایک قصیدہ ، ۸بحریے شامل ہیں ۔
(۳) آمشام :
’ آمشام‘ قیس ؔ فریدی کے تیسرے شعری مجموعے کا نام ہے جو ۱۹۹۳ء میں جھوک پبلشرز خان پور سے شایع ہوا ۔ اس کا انتساب ڈاکٹر خورشید ملک اور غلام حسین کیفی کے نام کیا ہے ۔ اس مجموعے میں کل ۳۷ غزلیں شامل ہیں ۔ اس مجموعے میں قیسؔ کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے ۔
(۴) پرکھرا :
’ پرکھرا‘ قیسؔ فریدی کے تخلیقی سفر کے چوتھے پڑائو کا نام ہے ۔ ۵۴ سرائیکی آزاد منظومات اور ۲۲ قطعات پر مشتمل یہ مجموعہ ۱۹۹۵ء میں سرائیکی اَدبی مجلس بہاول پور کے پلیٹ فارم سے شایع ہو ا۔ اس کا انتساب منیر احمد دھریجہ ، ظہور احمددھریجہ اور حاجی سعید الرحمن مغل کے نام کیا گیا ہے ۔ قیس ؔ فریدی کی آزاد نظمیں عصرِ حاضر کے انسان کے کرب اور اَلمیے کا فن کارانہ اظہار ہیں ۔
(۵) وَوڑ :
قیس ؔ فریدی کے تخلیقی سفر کا مجموعی طور پر پانچواںمجموعہ ’ وَوڑ‘ ۲۰۰۲ء میں سندھا کڑہ اَدبی سنگت خان پور کے پلیٹ فارم سے شایع ہوا ۔ اس کا انتساب علامہ رفیق احمد اور ڈاکٹر محمد شکیل پتافی کے نام ہے ۔ اس مجموعے میں کل ۱۹ غزلیں شامل ہیں ۔ ’ آمشام ‘ اور ’ اَرداس‘ کے بعد یہ تیسرا غزلیہ مجموعہ ہے ۔ ’ وَوڑ ‘ کی غزلیں سلاست اور فراوانی کی بہترین مثالیں ہیں ۔
(۶) چترانگ:
قیس ؔ فریدی کا چھٹا اور آخری شعری مجموعہ ’ چترانگ‘ ۲۰۰۴ء میں نتارا گروپ آف پبلی کیشنز کراچی شایع ہوا ۔ اس کا انتساب میاں سجاد احمد ، اَختر عارف اور جام منیر اختر شاہین کے نام کیا گیا ہے ۔ کل ۱۷ نظمیں ، ۹ غزلیں اور ۲ قطعات شامل ہیں ۔ اس مجموعے میں زیادہ تر غزلیں اور نظمیں ۱۹۹۰ء کے بعد ۱۹۹۷ء تک لکھی ہوئی ہیں ۔ اس مجموعے میں قیس ؔ فریدی کی ایک اور صلاحیت کا اظہار بھی ملتا ہے وہ ہے منظوم ترجمہ نگاری ۔ انہوں نے مشہور ایرانی ترقی پسند شاعر کی فارسی کی ایک آزاد نظم کو سرائیکی میں منتقل کیا ہے ۔
قیس ؔ فریدی کی اُردو شاعری:
قیس ؔ فریدی بنیادی طور پر سرائیکی زبان کے شاعر تھے اور ان کے چھ شعری مجموعے بھی سرائیکی میں منظرِ عام پر آچکے ہیں ۔ قیس ؔ فریدی کا اُردو شاعری سے متاثر ہونا اور اُردو میں شاعری کرنا فطری سی بات تھی ۔ ان کا اُردو کلام ان کی ابتدائی شاعری سے تعلق رکھتا ہے ۔اُردو زبان میں ان کا جو شعری سرمایہ محفوظ ہے اس میں ۲۲ اُردو غزلیں ، پابند نظمیں ، ۴ قطعات اور ایک نعت شامل ہے ۔ یہ سب اگرچہ کسی شعری مجموعے میں شامل نہیں لیکن مختلف اخبارات میں شایع ہوچکا ہے ۔
اس کے علاوہ ایک غیر مطبوعہ نعت بھی موجود ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے :
از ازل تا بہ ابد نور ہے سارا تیراؐ
چشمِ جبریل میں ہے قطبی ستارا تیراؐ
قیس ؔ فریدی کی پہلی دستیاب غزل ہفت روزہ ’ انصاف ‘ بہاول پور میں ۲۹ ستمبر ۱۹۶۴ء میں شایع ہوئی ۔ غزل کا دوسرا شعر ان کی صلاحیتوں کا اظہار کر رہا ہے:
مجھ کو وہ بندگی کا جنوں کر عطا کہ آج
نہ میرا سر رہے نہ تیرا آستاں رہے
ان کی پابند نظموں میں ’ آرزو طوفان ‘ ہے ، ’ اے مجاہد ‘ ، ’خطاب بہ مردِ مومن‘ خواجہ غلام فرید کے حضور میں ’ اے وطن‘ ، ’ اے نوجواں‘ ، ’ جنت کشمیر‘ اور’ علی گڑھ کے ہندو مسلم فسادات‘ شامل ہیں ۔ ان کی تمام کے موضوعات قومی اور اجتماعی فکر و اَحساس سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کسی حد تک اِقبالؔ سے متاثر ہونے کا اَحساس ملتا ہے ۔ قیس ؔ فریدی کے شعری سرمائے میں ایک نعت بھی شامل ہے جو ۳ جنوری ۱۹۶۸ء کو ہفت روزہ ’ انصاف‘ بہاول پور میں شایع ہوئی ۔ قیس ؔ فریدی کے چار اُردوقطعات بھی ہفت روزہ ’ انصاف ‘ بہاول پور میں شایع ہوچکے ہیں ۔ قیس ؔ فریدی نے اگرچہ اُردو غزل کو بہت کم وقت دیا اور صرف ابتدائی عہد لکھا لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری میں وہ تمام عناصر موجود ہیں جو اچھی شاعری اور اچھے شاعر میں ہونے چاہئیں ۔ اگروہ سلسلہ جاری رکھتے تو اُردو شاعری میں بھی ان کی ایک پہچان بننا یقینی اَمر تھا ۔
قیس فریدی کی اُردو نعت کے چند اشعار :
عجب دل کشا ہے ترا آستانہ
درِ کبریا ہے ترا آستانہ
ادھر ہم تڑپتے ہیں جوشِ جنوں سے
اُدھر جھومتا ہے ترا آستانہ
پئے سجدہ سر کو جھکاتے ہیں جب ہم
جبیں چومتا ہے ترا آستانہ
محبت میں اے قیسؔ کیوں نہ میں کہہ دوں
کہ کعبہ مرا ہے ترا آستانہ
( ہفت روزہ’ انصاف ‘ ، بہاول پور ، ۳ جنوری ۱۹۶۸ء )
قیس فریدی کی اُردو غزل کے چند اشعار :
یوں شہر کے لوگوں کو سزادیں گی ہوائیں
اِک ایک کے چہرے جو بجھا دیں گی ہوائیں
کھولو نہ فضائوں میں یہ چنگاریاں ورنہ
تم کو بھی مرے ساتھ جلا دیں گی ہوائیں
تم جس میں چھپے بیٹھے ہو اے پردہ نشینو
کاغذ کی یہ دیوار گرادیں گی ہوائیں
جب شہر میں ہی شہر کے باسی رہیں گے
پھر قیسؔ ، کسے جا کے صدادیں گی ہوائیں
( روزنامہ ’ نوائے وقت‘ لاہور ، ۱۲ دسمبر ۱۹۷۶ء )
قیس فریدی کی طویل سرائیکی غزل کا نمونہ :
اپنْا پیار جتانواں کیویں؟
کوڑیاں قسماں چانواں کیویں؟
سارا شہر تاں شیشے دا ھے
پتھر اِتھ برسانواں کیویں؟
میں ہاں کالی رات ڈُٖکھاں دی
سجھ کوں منہ ڈٖکھلانواں کیویں؟
میں ایہ کندھاں بھن سگٖداں پر
خود کوں چور بنْانواں کیویں؟
کالی رات دے وسدے مینہ وچ
چِٹے کپڑے پانواں کیویں؟
جھاگٖ تے دریا مجبوری دا
کول تُہاڈٖے آنواں کیویں؟
اپنْے آپ کوں وسعت ڈٖے تے
اپنْے آپ اچ مانواں کیویں؟
توں خود ڈٖس چا رُسنْا ماہی
تیکوں آن منانواں کیویں؟
پلکاں چُبھسن پیر تیڈٖے وچ
دگٖ تے نین وِچھانواں کیویں؟
سورج دے اندھیر نگر وچ
مَن دی جوت جگانواں کیویں؟
تیڈٖا بارا تاں میں چاتے
اپنْا بارا چانواں کیویں؟
پتھریں دے ماحول اچ خود کوں
میں انسان سڈٖانواں کیویں؟
کن وچ اُنگلی پا بہہ جیڑھا
اونکوں درد سُنْانواں کیویں؟
گونگئیں بٖوڑیں دی نگری وِچ
کہیں دے نال اَلانواں کیویں؟
میں تاں خود اُروار کھڑاں ہاں
تیکوں پار پُچانواں کیویں؟
قیسؔ محبت جُرم ہے جیکر
کرتے ہُنْ پچھتانواں کیویں؟
قیس ؔ فریدی کی نثری تخلیقات:
قیس ؔ فریدی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے لیکن انہوں نے سرائیکی اور اُردو نثر میں بھی اپنے جوہر دکھائے ۔ مطبوعہ نثری تخلیقات میں ایک کتابچہ’ چند سرائیکی اصطلاحات و مترادفات‘ کے نام سے ہے اور دوسرا اَہم کام ’ دیوانِ فرید‘ کی ترتیب ہے ۔ اس کے علاوہ اُردو اور سرائیکی میں کچھ مضامین بھی تحریرکیے جو کہ تنقید و تحقیق سے متعلق ہیں ۔
(۱) چند سرائیکی اصطلاحات و مترادفات :
’چند سرائیکی اصطلاحات و مترادفات ‘ایک ایسا چھوٹا سا کتابچہ ہے جس میں قیس ؔ فریدی نے مختلف اصطلاحات و الفاظ کے مترادفات وضع کیے ہیں ۔ ۲۷۹الفاظ و اصطلاحات کے مترادفات سے مزین اس کتابچے کو۱۹۹۵ء میں دھریجہ اَدبی اکیڈمی خان پور نے شایع کیا ۔ قیس ؔ فریدی نے اپنی محنت اورتحقیق سے الفاظ کے پانچ پانچ مترادفات دیئے ہیں ۔ یہ ایک مختصر اور ابتدائی نوعیت کا کام ہے۔ یہ کتابچہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا ۔ اس کے بعد دیگر محققین نے بھی اصطلاحات و مترادفات پر خاصا وقیع کام کیا ہے ۔
(۲) دیوانِ فرید ( مرتبہ: قیس ؔ فریدی) :
قیس ؔ فریدی نہ صرف سرائیکی زبا ن کے اچھے شاعر ہیں بلکہ وہ زبان کے لسانی اور تاریخی اُمور سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں ۔ مختلف دوستوں کی تحریک پر انہوں نے ’ دیوانِ فرید‘ کی تدوین کا کام شروع کیا ۔ دیوانِ فرید پہلی دفعہ ۱۹۹۲ء میں منظرِ عام پر آیا جس کے اب تک ۱۰ ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں ۔ دیوان کی ترتیب و تدوین کے ساتھ مختلف زبانوں میں دیوانِ فرید کے تراجم کی فہرست مرتب کی اور بڑی محنت و عرق ریزی کے ساتھ مذکورات کے عنوان سے دیوانِ فرید میں آنے والے مقامات ، پارچہ جات ، نباتات وجمادات ، تلمیحات ، ظروف و زیورات ، اَوزار و آلات ، حیوانات ، پھل اور پھولوں کے موضوع وار فہرست مرتب کی ہے جو کہ انتہائی دلچسپ ہے ۔
تحقیقی اور تنقیدی مضامین :
ان مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نثری کتب کے علاو ہ قیس ؔ فریدی نے کچھ مضامین بھی تخلیق کیے ہیں ۔ یہ مضامین اپنے موضوعات کے اعتبار سے بہت متنوع ہیں ۔ان میں اکثر غیر مطبوعہ ہیں ۔ ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
(۱) سرائیکی زبان دا وِروَرا ( سرائیکی )
(۲) ہاکڑہ واس ( سرائیکی )
(۳) سرائیکی مصادر ( اُردو)
(۴) روشنی کا سفیر ۔۔حفیظ شاہد ( اُردو)
(۵) ’ سلگتے ساحل ‘ کا منظر ( اُردو)
(۶) جِنین دا مِلیت ( سرائیکی )
(۷) پنّدھیڑو دا پنّدھ ( سرائیکی )
(۸) کوکدے پنّدھ کر لاندے پاندھی ( سرائیکی )
(۹) خواجہ فرید کی دو کافیاں ( سرائیکی )
(۱۰) سنگیت بُھوم ( سرائیکی )
(۱۱) ڈاروِن دا بانّدر مانھوں ( سرائیکی )
(۱۲) نانگ ( سرائیکی )
قیس فریدی کئی سالوں سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلاتھے۔سرائیکی شعر و اَدب کی پہچان ، اُستاد الشعراء قیس فریدی طویل عرصہ بیمار رَ ہ کر ۳، اگست ۲۰۱۸ء بروز جمعتہ المبارک صبح ۴ بجے قصبہ مئو مبارک میں انتقال فرماگئے اور احاطہ مولوی لطف علی ، مئو مبارک ، تحصیل و ضلع رحیم یار خان میں دفن ہوئے ۔
قیس فریدی نے جوکچھ کیا سرائیکی کی محبت میں کیا آج ان کا نام ہے۔بڑے شہروں کی نسبت سے لوگ بڑے شاعر اور بڑے لکھاری بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ دیہات کی گودڑیوں میں لعل موجود ہیں۔ شاعر ہفت زبان، سب کو کہلوانے کا شوق ہے۔ قیس صاحب اپنی زندگی میں ایسا کہنے سے منع کرتے تھے، معروف رائٹر جناب نذیر لغاری نے ان کو سرائیکی کا غالب لکھا تو اس پر قیس صاحب نے کہا کہ غالب بہت بڑے شاعر ہیں مگر کسی بھی شخص کی پہچان اپنی ہوتی ہے۔ شاعر ہفت زبان نہ سہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ قیس صاحب نے سرائیکی‘ اردو‘ سندھی‘ ماراڑی اور دوسری زبانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کے علاوہ وہ نثر کے بھی بادشاہ تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے لسانیات پر بھی کام کیا اور گو کہ انہوں نے حکمت کو کبھی پیشہ نہ بنایا مگر وہ بہت بڑے حکیم تھے اور ہومیو ڈاکٹر خورشید محمد ملک سے ان کی بہت دوستی تھی۔ ان کے ہزاروں دوست اور عقیدت مند تھے مگرایم عبد الواحد افغان، غلام حسین کیفی اور مرحوم ڈاکٹر خورشید محمد ملک ،مرحوم منیر احمد دھریجہ سے ان کی دوستی مثالی تھی۔ وہ بہت عظیم تھے، یہی وجہ ہے کہ قیس فریدی کا نام پورے وسیب میں احترام سے لیا جاتا ہے اور وہ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے کہ بڑے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اپنی سوچ،اپنے فن اور اپنی شاعری کے حوالے سے۔
قیسؔ فریدی کی کتابیں
مطبوعہ:
اِرداس غزلاں
آمشا م غزلاں
نمرو ڈٖوہڑے ، کافیاں
توں سورج میں سورج مُکھی غزلاں ، نظماں
پَرکھرا نظماں
چند سرائیکی اصطلاحات لسانیات
گھاگھر کلیاتِ قیس
غیر مطبوعہ :
سرائیکی اَکھانْ لسانیات
سرائیکی مصادر لسانیات
سومرو خاندان تاریخ
چولستان تاریخ و آثار
چترانگ شاعری
ووڑ شاعری
چنتا شاعری
مینہ شاعری
اردو دیوان شاعری
دھریجہ نگر دے دھریجے تاریخ
٭
حوالہ جات :
۱۔ ’ آمشام ‘ قیس ؔ فریدی ، جھوک پبلشرز ، خان پور ، ۱۹۹۳، ص: ۲۵۴
۲۔ ’ا َرداس‘ ، قیس فریدی ، ممتاز اکیڈمی ، بھٹہ واہن ، ۱۹۸۰ء ، ص: ۶۴
۳۔ ’بہاول پور کا شعری اَدب ‘۔ حواشی مقالہ ایم فِل اُردو ،ا سلامیہ یونیورسٹی ، بہاو ل پور۲۰۰۵ ء ،۳۵۸
۴۔ ’ پَرکھرا‘ ، قیس ؔ فریدی ، سرائیکی اَدبی مجلس بہاول پور ، ۱۹۹۵ء ، ص: ۳۱۸
۵۔ جاوید اِقبال اَظہر ،غیر مطبوعہ مضمون:’ قیس فریدی سے میرا تعلق ‘ مملوکہ مضمون نگار
۶۔ چند سرائیکی اصطلاحات و مترادفات ، قیس ؔ فریدی ، دھریجہ اَدبی اکیڈمی ، خان پور ، ۱۹۹۵ء ، ص: ۳
۷۔ سرائیکی مصادر ، قیس ؔ فریدی ، ماہنامہ ’عصائے کلیم‘ کوٹ مٹھن ، اکتوبر ۱۹۹۵ء ، ص : ۱۲۸
۸۔ ’’ شعوروادراک ‘‘ سہ ماہی مجلہ ، مدیر : محمد یوسف وحید ، ’’خصوصی گوشہ قیس فریدی ‘‘ شمارہ نمبر ۳-۲ ۔ اپریل تا ستمبر ۲۰۲۰ء
۹۔ ظہور دھریجہ ، روزنامہ 92نیوز ،۴اگست ۲۰۱۸ء
۱۰۔ ’ عصائے کلیم ‘ماہنامہ، کوٹ مٹھن ، اکتو بر ۱۹۹۵ء ص: ۴۰
۱۱۔ ’ عصائے کلیم ‘ماہنامہ، کوٹ مٹھن ، اکتو بر ۱۹۹۵ء ص: ۴۴
۱۲۔ ’ عصائے کلیم ‘ماہنامہ، کوٹ مٹھن ، اکتو بر ۱۹۹۵ء ص: ۴۵
۱۳۔ قیس فریدی، شخصیت اور فن ، مقالہ برائے ایم فل ، مقالہ نگار : امان اللہ ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ، سال ۲۰۱۰ء
۱۴۔ قیس فریدی: فن ، شخصیت اَتے شاعری ، مرتب : مہر حامد علی شاکر ، جھوک پبلشرز ،ملتان ، ۲۰۱۹ء
۱۵۔ قیس فریدی : فن و شخصیت ، محمد یوسف وحید ، الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ،۲۰۲۰ء
۱۶۔ ماہنامہ ’ سچار ‘ خان پور /کراچی ، مدیر : غلام یسیٰن فخری مر حوم ، شمارہ :
۱۷۔ ’ نمرو‘ ، قیس ؔ فریدی ، جھوک پبلشرز، خان پور ، ۱۹۹۲ء ، ص: ۴۸۱
۱۸۔ والدہ قیس فریدی ، استفسار ، قصبہ مئو مبارک ،خان پور ، ضلع رحیم یار خان بتاریخ ۱۵فروری ۲۰۰۹ء
۱۹۔ ’وَوڑ‘ ، قیس ؔ فریدی ، ہند ھاکڑہ اَدبی سنگت خان پور ، ۲۰۰۲، ص: ۵۶۵
۲۰۔ ہفت روزہ ’ انصاف‘ بہاول پور ، ۲۹ ستمبر ۱۹۶۴ء
(بشکریہ : سہ ماہی شعوروادراک خان پور ، مدیر: محمد یوسف وحید ، شمارہ نمبر ۳-۲، اپریل تا ستمبر ۲۰۲۱ء ۔خصوصی گوشہ قیس فریدی )
٭٭٭