(Last Updated On: )
28اکتوبر 1964کوایران کے سیکولربادشاہ نے ایک شاہی حکم نامے کے ذریعے امریکی فوجیوں کو مملکت ایران میں وہ حقوق عطاکر دیے جو ویانا کنونشن میں سفارتکاروں کے لیے مخصوص کئے گئے تھے اور امریکی فوجی مشن کو اپنی فوجی عدالتیں بنانے کی آزادی بھی دے دی،گویا امریکی فوجی پوری ریاست میں وردی پہن کرغیرملکی سفارتکارکی حیثیت سے بدمعاشی کرتے پھریں گے اور قانون و عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔سیکولرشاہ ایران کی اس ناعاقبت اندیش ملک و ملت دشمن فیصلے کے نتیجے میں ایک دبنگ آوازابھری اور اگلے ہی دن امام خمینی نے ایک زوردار تقریر کی جس میں شاہ کے اس فیصلے پر زبردست تنقیدکی اور قوم کی طرف سے اس حکم نامے کی تنسیخ کامطالبہ کردیا۔شاہی مملکت میں ایک جابرحکمران کے سامنے کلمہ حق کی یہ صداآنے والے دنوں میں ایک بہت بڑے انقلاب کا مقدمہ بنی جس نے دنیاکی تاریخ میں عمومی طور پر اور مشرق وسطی کی تاریخ یں خاص طور پر ایک اہم ترین سیاسی و مذہبی کرداراداکیا۔آمر حکمرانوں کے پاؤں ہوامیں ہوا کرتے ہیں کیونکہ ان کی جڑیں عوام میں ہونے کی بجائے خفیہ اداروں اور طاقت کے خارجی ایوانوں میں ہوتی ہیں جہاں سے انہیں اکھیڑ پھینکنا کچھ بھی دشوارنہیں ہوتا۔چنانچہ حبس کے عالم میں ہوا کے اس ٹھنڈے جھونکے نے جہاں عوام الناس کوسیاسی شعور سے ہم آہنگ کر دیاوہاں شاہی محلات کے درودیوار ہلامارے گئے اور شاہی طاغوت نے امام خمینی کو ملک بدر کر دیا۔
امام خمینی 17مئی 1900کو ”خمین“نامی شہر میں پیداہوئے جو تہران سے کم و بیش تین سو کلومیٹردورہے۔آپ کے اآباؤ اجداد لکھنوکی ریاست”اودھ“سے 1830ء میں ہجرت کر کے تو ایرانی قصبے ”خمین“میں آباد ہوئے تھے،امام خمینی کے والد تک بزرگوں کے ناموں کے ساتھ ”ہندی“کا سابقہ لگتارہا چنانچہ آپ کے والدکانام ”مصطفی ہندی“کے نام سے تاریخ نے محفوظ کیاہے۔ہندوستان سے ہجرت کی متعددوجوہات میں سے ایک وجہ دورغلامی بھی تھا جس کو کہ آپ کے آپ کے آباء نے قبول نہ کیاااورہجرت کر لی۔ امام خمینی نے چھ سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیااورپھرایران اور عراق کے متعدد شہروں سے دینی علوم کی تکمیل کی اور پھر تدریس دین سے ہی وابسطہ رہے۔اس دوران ”قم“آپ کا علمی و تحقیقی مرکز رہاجہاں سے آپ نے فقہ وفلسفہ میں فن کمال حاصل کیا۔اس زمانے میں شاعری بھی کرتے رہے لیکن وفات تک وہ شاعری منظر عام پر نہ آسکی اور امام خمینی کی علمی شخصیت ان کے سیاسی کارناموں کے پیچھے ہی چھپی رہی،تاہم وفات کے بعد ان کی شاعری کی کتب شائع ہوئیں،آپ کی شاعری محبت اور فلسفہ سے بھری ہے۔حق و باطل کی جنگ میں آپ نے ایک قلم کار سپاہی کی حیثیت سے جہادکاآغازکیااورسیکولرازم کے خلاف آپ نے کتابیں بھی لکھیں،1942میں آپ کی پہلی کتاب منظر عام پر آئی جس کے بعدمتعدد موضوعات پر چالیس سے زائد کتب آپ کی طرف سے ایک قیمتی تحفے کے طورپرایرانی قوم کو میسر آئیں۔1970کے آغاز میں امام خمینی نے نجف میں اپنے سلسلہ وارخطبات میں اسلامی حکومت کے بارے میں تفصیلی خدوخال پیش کیے جو بعد میں شائع بھی ہوتے رہے،انہیں خطبات میں آپ نے ”ولایت فقیہ“کا نظریہ بھی پیش کیا جس سے ملت فارس کی صدیوں کی تھکاوٹ اتری۔آپ کی کتب نے کلام اقبال کے ساتھ مل کر ایرانی قوم میں شعورکوبیدارکیا،آپ نے متعدد بار یہ حقیقت باور کرائی کہ آج کے مسلمانوں نے اجتماعی طورپراسلام کو بطوراحکام کے تو لیالیکن بطور نظام کے قبول نہیں کیا۔قلمی جہادکاابھی یہ سلسلہ چل ہی رہاتھاکہ 1977ء میں ایران کے مایہ نازبطل حریت ڈاکٹر علی شریعتی انتقال فرما گئے،ملک میں رضاشاہ پہلوی کے سامنے اور پوری دنیامیں سیکولرازم کی جہالت کے سامنے یہ ایک بہت بڑی آہنی دیوار تھی۔اس خلاکو پر کرنے کے لیے اگلانام امام خمینی کاتھاپس میدان عمل نے آپ کو پکارااورکازارسیاست میں کود پڑے۔تاہم آپ کے تلامذہ نے اس سلسلے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور قلمی میدان میں سیکولرازم کے ابطال میں ایران نے باقی دنیاکو پیچھے چھوڑ دیا۔
1953میں جب شاہ ایران کے حامی جرنیلوں نے محب وطن اور دیندار لوگوں کا قتل عام کیاتو امام خمینی نے دیگر علمائے دین کو اکٹھاکر کے درپردہ شاہ کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا۔ ایک مدت تک پانی کا بہاؤ گھاس کے اندر ہی رہااور بہت سست روی لیکن چابکدستی وخامشی سے آگے ہی آگے بڑھتارہا۔اس دوران علماء کی ایک بہت بڑی تعدادامام خمینی کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی اور جبروتشدداور استبدادکے مرقع شاہی سیکولرخاندانی حکومت کے خلاف یہ سیسہ پلائی دیوار مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ممکن ہے خروج کے وقت کو آگے لے جایا جاتا لیکن شاہ کے امریکہ نوازاقدام سے آتش فشاں پھٹ پڑااورگھاس میں سست روی سے قطرہ قطرہ جمع ہونے والا دریااب آبشار بن کر بہہ نکلااور اس زوروشور سے بڑھتاچلا گیاکہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ خش و خاشاک کی طرح بہہ گئی اوربڑے بڑے برج ریت کی دیوارہی ثابت ہو سکے۔امام خمینی ایک سالہ جلاوطنی کے بعد 4اکتوبر1965کوفرانس سے نجف اشرف،عراق چلے گئے۔عراق کی سرزمین بھی اس انقلابی راہنماکے لیے تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ دربدر مہاجرت کے بعد6اکتوبر1978ء کوآپ مستقل طورپر فرانس میں پیرس کے نواحی قصبے ”نوفل لوش“میں سکونت اختیارکرلی اور اپنی سرزمین ایران میں انقلاب کی قیادت کرتے رہے۔تحریک کے آغاز سے ہی امام خمینی نے پنگھوڑے میں پلنے والے بچوں پر اپنی عقابی نگاہ رکھی اور پلنے بڑھنے والی نوجوان نسل جب میدان میں اتری تو حب الوطنی اور دینی حمیت سے سرشار اس نسل نے پورے انقلاب میں ایک ہی نعرہ”اللہ اکبر“بلند کیااورتاریخ کے دھارے کا رخ موڑ کررکھ دیا۔
گزشتہ نصف صدی سے زیرزمین پکنے والا لاوہ اکتوبر1977میں سڑکوں پر آن نکلا اور ایرانی نوجوانوں کے گروہ کے گروہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانندامریکہ و برطانیہ کے پروردہ سیکولراستعماری بادشاہی نظام کے طاغوت،شاہ ایران رضاشاہ پہلوی کی سیکولرفوجوں سے ٹکرانے لگے۔ماضی و حال کی تاریخ گواہ ہے کہ ایران سمیت کل اسلامی ممالک میں استبدادکی آخری پناہ گاہ افواج ہی ہوتی ہیں جودشمن اوردشمن کے کارندوں کو اپنا خون جگردے کر پرورش کرتی ہیں اور جب کبھی بھی عوام الناس ان بدمست حکمرانوں سے ان کے ظلم وستم کا حساب چکانے نکلتے ہیں تو یہی افواج عوام دشمن بن کر ان حکمرانوں کو آہنی تحفظ فراہم کرتی ہیں اور فرسودہ اور بدبودار نظام کے تسلسل کا باعث بن کر ملک و ملت اور آنے والی نسلوں سے بدترین غداری کی مرتکب ہوتی ہیں۔زندہ قومیں ایسی فوجوں کے جرنیلوں سے ویسا ہی انتقام لیتی ہیں جیسے انقلاب کے بعد تہران کی سڑکوں پر شاہ ایران کے حامی جرنیلوں کی لاشوں کو رسیوں سے باندھ کر نوجوان اسی طرح لیے پھرتے رہے جیسے پاگل کتوں کی لاشوں کو کھینچ کر گڑھوں میں دبا دیاجاتاہے۔ان جرنیلوں نے انقلاب کے لیے نکلنے والے نوجوانوں پر اپنی بندوقوں کے دہانے بے دریغ کھول دیے تھے اور بلامبالغہ ایک ایک دن میں ہزارہانوجوان کے جسد خاکی اٹھائے گئے کہ قبرستانوں میں دفنانے کی جگہ کم پڑنے لگی لیکن جہاں اپنی ہی قوم کے قاتل ان ملعون جرنیلوں کی بندوقیں آگ اگلنے میں تھکتی نظر نہ آئیں وہاں آفرین ہے اس قوم کو جس نے قربانیوں کے تسلسل کا سرخ ترین باب رقم کیااور ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے پر تیارنہ ہوئی۔یہاں تک کہ 1978کے اختتام تک جلسے،جلوس،احتجاج اورسول نافرمانی کے باعث ملکی نظام بری طرح مفلوج ہو چکاتھا اورسیکولرانتظامیہ انقلابیوں کو قابو کرنے میں مکمل ناکام و نامراد ہو چکی تھی جبکہ پوراملک انقلاب کی دہلیزپر نئی قیادت کا منتظر تھا۔بلآخرخفیہ اداروں اور قوت کے مراکزکی بنیاد پر ظلم و ستم کے سہارے حکومت کرنے والے شاہ ایران پرزمین تنگ کردی گئی اور16جنوری1979کو وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ایک خرقہ پوش،بادیہ نشین اور بے وطن مہاجرنے قوت و طاقت و خزانوں سمیت کل وسائل مملکت پرمتصرف اور عالمی سامراج کے پناہی بدترین آمر کو شکست فاش دے دی۔
حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے صبح کو سورج مشرق میں ہوتاہے تو دن ڈھلے مغرب میں ڈوب رہا ہوتاہے،ایک عالم دین کو ملک بدر کرنے والا خود ملک سے فرار ہوااوردفن ہونے کے لیے دوگززمین بھی نہ ملی کوئے یارمیں جبکہ امام خمینی یکم فروری 1979کو کم و بیش سولہ سالہ جلاوطنی کے بعد اس شان سے لوٹے کہ پوری قوم ان کی دست بوسی کے لیے بے چین تھی۔فرانس سے ایک طیارے کے ذریعے مہرآبادکے ہوائی اڈے پرسرزمین ایران میں اترے اور زمین پر قدم دھرتے ہی رب ذولجلال کے حضورسجدہ شکرانہ ادکیا۔اس زمانے کے اخباروں نے لکھا کہ ہوائی اڈے سے بہشت زہراکے قبرستان شہداتک ایک کروڑ انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے جو اپنے ”دیندار،جرات منداور محب وطن“راہنماکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔امام خمینی نے کچھ وقت قم میں گزارااورپھر ایران کے سپریم مذہبی راہنما ہوتے ہوئے بھی تہران میں 650روپے ماہانہ کرائے کے چھوٹے سے کوارٹرنماگھرکے حجرے اندر زندگی کے بقیہ ایام فقرودرویشی کے عالم میں گزارے اور انقلاب کے نومولود کونپل کو خون جگرسے سینچتے رہے یہاں تک کہ 3جون 1989کو یہ آفتاب انقلاب بھی داعی اجل کو لبیک کہ گیا،اناللہ واناالیہ راجعون۔