تحریر: سپیدہ ابرآویز (ایران)
مترجم: احمد شہریار (کوئٹہ ، پاکستان)
میں باورچی خانے کی کھڑکی کے پاس نیلوفر کے انتظار میں کھڑی ہوں۔ آٹے اور زعفران کی خوشبو چاروں طرف بکھری ہوئی ہے. آج صبح جاگتے وقت میں نے امی سے کہا: “رات مجھے بے شمار مردوں کا خواب آیا تھا۔ سب ایک جگہ جمع تھے۔”
امی نے مجھے غصے سے دیکھا اور بولیں: “انشاءاللہ سب خیریت ہے۔ جاؤ جاکر خواب پانی سے بیان کرو۔ میں حلوا پکاتی ہوں۔”
میں نے ڈسپوزبل پلیٹوں میں بھرے حلوے پر ایک نظر ڈالی۔ امی نے ان کے کناروں کو اپنی انگلیوں سے محرابی شکل میں سجایا اور ان پر کانٹے کی نوک سے مختلف مخروطی ڈیزائن بنائے۔ مجھے پیسے درکار تھے۔ اس ماہ یہ تیسری بار ہے جب میں نیلوفر کے ساتھ فال دیکھنے والے کے پاس جارہی ہوں۔ مجھے معلوم کرنا تھا کہ قباد کا کام بنے گا کہ نہیں؟ میں نیلوفر سے کہتی ہوں: “مجھے جواب صرف ہاں یا نہیں میں چاہیئے۔”
فال نکالنے والا بھی ٹھیک اور صاف جواب نہ دیتا۔ باورچی خانے میں امی کے پاس بیٹھ کر اداکاری کرنے لگتی ہوں: “ارے واہ امی! میں واری جاؤں ان ہاتھوں پہ۔ آہا! کیا رنگ ہے کسی خوشبو ہے!”
ایک پلیٹ کے اندر انگلی مارتی ہوں۔ گرما گرم حلوے سے میرا ہاتھ جل جاتا ہے۔ فوراً انگلی منہ کے پاس لے جاکر اسے پھونکیں مارنے لگتی ہوں۔ دوسرے ہاتھ سے امی کا ہاتھ بٹانے کی اداری کرتی ہوں اور ناامیدی سے حلوے کی پلیٹوں پر ڈزاننگ کرنے لگتی ہوں۔ میں نے سچ مچ سب بگاڑ دیا۔ امی نے جو کچھ تیار کیا تھا۔ سب بگاڑ دیا۔ امی پلیٹ پر سے میرے ہاتھ کھینچ کر کہتی ہیں:
“کیا کررہی ہو! مجھے دو! سب بگاڑ دیا!”
میں مظلومیت بھری نظروں سے انہیں دیکھتی ہوں۔ وہ ابھی تک غصے میں ہیں۔ پلیٹ میں پھر حلوا ڈال کر آرام سے چمچ سے اس پر ڈیزائن بنانے لگتی ہیں اور منہ میں ٹرٹراتی ہیں: “اس نالائق سے کام کی امید ہی نہیں رکھنا چاہیے۔ ہاں بتاؤ کیا چاہیے؟”
امی کو ہمیشہ سب کچھ معلوم ہوتا۔ کبھی کبھی تو مجھے غصہ آجاتا کہ وہ مجھ سے کہیں پہلے بات کی تہہ تک پہنچ جاتیں۔ مجھے غصہ آتا کہ میں کیوں ان کے پاس آئی ہوں۔ بچپن میں بھی انہیں میرے ہر کام کی خبر رہتی تھی۔ جب میں مکر جاتی تو گردن سے ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتیں:
“میں نے تمہیں بتایا تو ہے کہ ماؤں کے سر کے پیچھے بھی دو آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ سب کچھ دیکھتی ہیں۔ تم پھر بھول گئیں۔”
کئی بار سوتے میں میں نے امی کے سر کے پیچھے کی آنکھیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے ہاں اس قدر گھنے تھے کہ مجھے کامیابی نہ ہوتی۔ پیسے لینے کے لیے پہلے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنا ضروری تھا۔ اگلے دو ہفتوں تک قباد کا ویزہ آجاتا۔ مہرزاد اور سیروس ہمارے پرانے محلے میں ایک بڑی دکان پر کام کرتا تھا۔ مہرزاد ہمارے گھر کے سامنے رہنے والے پڑوسی کا پوتا لگتا تھا جو صرف گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے تبریز سے تہران آیا کرتا تھا ۔ مہرزاد کے خراب لہجے کی وجہ سے میری سہلیاں مجھے تنگ کرتیں ۔ میں تو من ہی من میں مہرزاد پر لٹو تھی۔ اب اس کا لہجہ اچھا ہو یا برا اس سے کیا فرق پڑتا تھا؟ نیلو فر کہتی:
“کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم کبھی اپنے من ہی من سے باہر بھی کسی پر مر مٹو؟ قباد کے ساتھ بھی تمہارا عشق یکطرفہ ہی ہے!”
یہ یکطرفہ محبت نہیں تھی۔ اس سال خزاں کے موسم میں میں نے قباد کو یونیورسٹی کی دعوت پر مدعو کیا تھا اور اس نے آنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ وہ آیا بھی تھا، اپنے والدین کے بغیر، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ نوجوانوں کی دعوت ہے۔ اس کی ساری توجہ مجھ پر مرکوز رہی۔ ایک بڑا سا گلدستہ اور اور بڑا مہنگا والا سینٹ بھی خرید کر لایا تھا میرے لیے۔”
“سچی محبت کرنے والے مرد کو پیسوں کی فکر نہیں ہوتی۔”
قباد نے دو تین لاکھ تومان تو خرچ کیے ہوں گے ۔ دعوت سے قبل ہم نے ہمشہ ایک دوسرے کو اپنے گھر والوں کے ساتھ دیکھا تھا۔ میں نے امی سے پوچھا:
“قباد وغیرہ ہمارے کیا لگتے ہیں؟”
امی بولیں: “دور کے رشتہ دار ہیں۔ تم زیادہ مت سوچو اس بارے میں۔”
پھر انہوں نے اپنے سر کے پیچھے کی دو آنکھوں سے میری طرف دیکھ کر کہا:
“تمہارے کام کا نہیں۔ اکلوتا ہے۔ امیر گھرانے کا ہے۔ اور اس کے گھر والے اسے ملک سے باہر بھیج رہے ہیں۔”
پچھلی بار فال دیکھنے والے نے کہا تھا کہ قباد کا کام بگڑ جائے گا اور وہ یہیں رہے گا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر میں اس سے کوئی تعویذ لے لوں تو اس کے دل میں میرے لیے محبت جاگ اٹھے گی اور وہ مجھ سے ضرور شادی کرے گا۔ نیلوفر کو اس فال نکالنے والے پر بہت بھروسہ تھا۔ وہاں تک کافی راستہ تھا۔ صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی ہم نکل پڑیں۔ پانچ چھ بار لائن کی بسوں اور ٹیکسیوں میں بیٹھیں اور گیارہ بجے کے قریب جاکر وہاں پہنچیں۔ نیلوفر نے کہا: “یہ جن ہے۔ زہریلا ہے۔ اسی لیے باہر نہیں جاتا ورنہ ہم کچھ دوست آپس میں مل کر اسے گھر ہی بلالیتیں۔ زیادہ سے زیادہ ٹیکسی کا کرایہ بھی ہمیں بھرنا پڑتا۔”
نیلوفر کے لیے پیسوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کے ابو مارکیٹ میں کام کرتے تھے۔ ان کے ہر ہفتے کا جیب خرچ میرے مہینے بھر کے جیب خرچ سے زیادہ تھا وہ تہران کے تقریباً آدھے سے زیادہ فال دیکھنے والوں کے پاس جاچکی تھی۔ میرے ساتھ، یا اپنی خالہ زاد بہنوں کے ساتھ، یہاں تک کہ منصور کی بہن کے ساتھ بھی ۔ کہتی تھی:
“وہ بھی تو دیکھیں کہ میں منصور کو کتنا چاہتی ہوں۔”
جس دن سے منصور کا نکاح ہوا تھا۔ وہ نہ یونیورسٹی میں ٹھیک سے پڑھائی کررہی تھی۔ نہ گھر کے کام کاج پر دھیان دیتی اور نہ باہر کام پر جانے کا سوچتی۔ صبح سے شام تک منصور کے پیچھے پڑی رہتی۔ ہر دس منٹ بعد اسے فون کرکے اس سے پوچھتی۔
“کہاں ہو؟ کیا کررہے ہو؟”
نیلوفر بہت اچھی لڑکی تھی لیکن امی کے بقول زیادہ خوبصورت نہیں تھی۔ اس کا قد پستہ اور رنگ سانولا تھا۔ ناک کے بیچ میں ایک بڑا سا ابھار تھا۔ منصور کے برعکس جو کسی چرچ کی پینٹنگ کی طرح خوبصورت تھا۔ گویا خدا نے منصور کو بڑی فرصت سے بنایا تھا۔ فال نکلانے والوں نے نیلوفر سے کہا تھا کہ منصور اسے پسند کرتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور لڑکی کے بارے میں نہیں سوچتا، لیکن نیلوفر کو ان کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ اس نے کئی بار منصور کو تعویذ گنڈے گھول کر پلائے تھے۔ آخرکار جب اسپتال میں منصور کے معدے کی صفائی کی جارہی تھی تو اس نے منصور کے سرہانے جاکر اعترافِ جرم کیا تھا اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا!
میں اپنے اور نیلوفر کے لیے تھوڑا سا حلوا روٹی میں رکھ کر لے جانا چاہتی تھی۔ سارا راستہ تو بھوکے پیٹ نہیں رہا جاسکتا تھا نا! نیلوفر کے سارے فال نکالنے والے ہمارے گھر سے کئی کئی کلومیٹر دور رہتے تھے۔ واش بیسن کے اوپر نصب کیبنیٹ میں اسی طرح طرح کی چیزیں رکھتی تھیں۔ املی، چپس وغیرہ سے لے کر آخروٹ، خشک میوے اور آئسکریم بریڈ تک سب کچھ! میں نے کیبنٹ کھولا کہ آئسکریم بریڈ نکالوں۔ امی نے برتن دھو کر انہیں واش بیسن پر ایک طرف تولیے پر رکھ دیے تھے۔ زعفران اور چینی کو وہ ہمیشہ ایک بڑے اٹالین پتیلے میں ابالتی تھیں۔ روٹی پر تھوڑا حلوا رکھا اور کیبنٹ بند کردیا۔ کیبنٹ دوبارہ کھل گیا اور اس سے مصری کی ڈلی کا بڑا پلاسٹک نکل کر واش بیسن پر رکھے برتن پر دھڑام سے آگرا۔ امی میرے لیے پیسے لانے گئی تھیں۔ برتن گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ڈر کے مارے میں نے فوراً روٹی اور حلوا اپنے بیگ میں ٹھونسا اور باہر گلی کی طرف دوڑ لگائی اور بجلی کی سی تیزی سے نیلوفر کی گاڑی میں جابیٹھی۔ “یہاں سے چلو! ابھی!”
نیلوفر کے لیے میرا خوفزدہ چہرہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اس نے سلام کیا۔ نہ میرا حال پوچھا: “بس روتے ہوئے ٹشو پیر سے ناک صاف کرتے ہوئے بولی:
“میں نے کل ٹیلیفون پر موم بتی فال نکلوائی۔ بتایا گیا کہ مریم نامی کسی لڑکی سے اس کے مراسم ہیں۔ لڑکی بے حد خوبصورت ہے۔ فال نکالنے والی عورت بتارہی تھی کہ موم بتیوں نے پگھل کر سنڈریلا کی شکل اختیار کرلی ہے۔
میں نے اسے غصے سے دیکھ کر کہا : “چھوڑو! تم پاگل ہوگئی ہو نیلو!”
وہ اتنا روئی اور منصور کی یقینی بے وفائی کے بارے میں اتنی باتئیں کہیں کہ پتا ہی نہیں چلا ہم کب اور کون سی سڑکوں سے ہوکر فال نکالنے والے کے گھر پہنچ گئے۔ ایک پرانی سی حویلی تھی۔ نیلوفر نے گھنٹی بجائی۔ اوپر والی منزل کی کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشے سے ایک گندے اور آشفتہ حال شخص نے اپنا سر نکال کر دو تین بار پوچھا: “کون ہے؟ کون ہے؟”
مرد کی آواز اور لہجہ بالکل فلمی افیونیوں کی طرح لگ رہا تھا۔ ناک بند تھی اور آواز کمزور۔ میں نے نیلوفر کی طرف دیکھ کر کہا: “یہ مریل فال نکالے گا!”
نیلو فر ادھ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ اپنا گاؤن اتارا اور کہا: “بکواس مت کرو۔ اندر آجاؤ۔”
ہم ٹیڑھی میڑھی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچیں۔ نم زدہ پھولی ہوئی دیواروں والے کوریڈور اور ہر مزل پچھلی منزل سے زیادہ خوفناک تھی۔ ایک مریل آدمی زنگ خوردہ سیڑھیوں کے بیچ میں سے سب سے اوپر والی سیڑھیوں سے ہمیں گھور رہا تھا۔ اپنا دبلا پتلا ہاتھ وہیں سے ہلا کر کہا: “آجاؤ! اوپر آجاؤ بی بی! وہ تھیلا بھی لیتے آنا۔”
کالے رنگ کا ایک بڑا سا تھیلا سیڑھیوں کے پاس پڑا ہوا تھا۔ میں نے تذبذب اور تردد کے عالم میں پہلے اس شخص کو اور پھر تھیلے کو دیکھا جس میں بھنڈی یا مٹر جیسا کچھ بھرا تھا۔ اس شخص نے دوبارہ اسے اوپر لانے کا اشارہ کیا۔ بولا: “دیکھ کیا رہی ہو؟ بھاری ہے ورنہ میں خود لے آتا۔”
نیلوفر نے کوئی ردِعمل ظاہر نہ کیا۔ میں نے تھیلا اٹھایا اور چار پانچ منزل اوپر چڑھ گئی۔ عرصہ دراز سے میں اتنی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اور مسلسل رورہی تھی۔ گھر میں صرف ایک ہال تھا جہاں گھر کا کوئی سامان دکھائی نہیں دیا۔ بالکل خالی ہال۔ میں نے تھیلا دروازے کے باہر رکھ دیا۔ ایک نحیف اور قد خمیدہ عورت چولہے کے پاس بیٹھی تھی اور ایک پتیلے میں قہوہ ابال رہی تھی۔ مرد اور عورت نے ہمیں دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ مرد نے تھیلا اٹھایا اور باورچی خانے کے ایک کونے کی طرف چلا گیا جسے انہوں نے ایک کیبنٹ ایک چولھے اور ایک فرج کی مدد سے بنایا تھا۔ امی ہمیشہ کہتی تھیں:
“ایک دن تم دونوں ان فال نکالنے والوں کے چکر میں کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ گی۔”
میں لاکھ جھوٹ کہتی کہ ہم شاپنگ کرنے یا ڈاکٹر کے پاس جارہی ہیں۔ امی کو اپنے سر کے پیچھے کی آنکھوں سے سب صاف دکھائی دیتا تھا۔ وہ کہتی تھیں:
“اگر یہ فال نکالنے والے اتنے ہی فال نکالنے والے ہوتے تو پہلے اپنی فال نہ نکال لیتے!”
نیلوفر جھٹ بول پڑتی: “اپنی فال نکالی تو ہے خالہ جان! تبھی تو ہر دن اتنا کماتے ہیں۔”
امی غصے سے اپنے پرس سے پیسے نکالتیں اور میری ہتھیلی پر رکھ دیتیں۔ پھر افسوس سے سرہلاکر کہتیں:
“بیوقوفوں کے ہوتے مفلسوں کو موت نہیں آسکتی۔”
عورت نے ایک چھوٹی سی پیالی میں تھوڑا سا قہوہ ڈالا اور مرد کی طرح ناک سے بات کرتے ہوئے پوچھا: “تم دونوں فال نکالو گی؟”
نیلوفر نے رومال سے اپنی ناک پونچھ کر سر کے اشارے سے کہا: “ہاں۔” وہ جاکر عورت کے پاس بیٹھ گئی۔ نیلوفر ہر کام میں اول تھی۔ کہتی تھی:
“”منصور کا موضوع زیادہ اہم ہے کیونکہ منصور میرا شوہر ہے جبکہ قباد صرف تمہارا وہم ہے۔”
ہم نے قہوہ آدھا پیا، آدھا نہیں اور پیالیاں عورت کے سامنے رکھ دیں۔ اس نے اپنا سر اٹھائے بغیر پوچھا: “انہیں اپنے دل کی سمت میں پلٹا دیا نا؟”
ہم کیا جواب دیتے، اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ عورت نے پیالی کے اندر چھانک کر دیکھا۔ صاف دکھائی دے رہا تھا وہ افیونی ہے۔ مرد کمرے کے انتہائی سرے پر نصب کیبنٹ میں کچھ ڈھونڈرہا تھا۔ نیلوفر نے ہمیشہ کی طرح اپنا سارا سونا پہن رکھا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں دس سے زیادہ خالص سونے اور تانبے کی سفید اور پیلی چوڑیاں تھیں۔ جب بھی اس کے پیسے بڑھتے وہ اس سے سونا خریدتی تھی۔ ان کے سارے گھر والے اسی طرح پیسے جمع کرتے تھے۔ امی کہتی تھیں:
“بازار میں کام کرنے والے سارے لوگ سونے کے شیدائی ہوتے ہیں۔ کچھ سیکھو ان سے۔ ایک تم ہوکہ ہمیشہ جوتے، کپڑے، بھول اور کلپیں وغیرہ خریدتی رہتی ہو۔”
امی کو پتا تھا کہ نیلوفر کے پاس سونا خریدنے کے لیے بہت سے پیسہ ہے۔ اس کے باوجود معلوم نہیں اسے میری دو عدد ٹی شرٹ یا پھیری والے سے خریدا ہوا ایک شال ایک آنکھ کیوں نہیں بھاتا تھا۔ پیسوں کے معاملے میں میرا ہمیشہ امی سے جھگڑا رہتا۔
عورت نے قہوے کی پیالی گھمائی۔ نیلوفر پر ایک شک بھری نگاہ ڈالی اور کہا: “شاید کوئی تمھارے خلاف منصوبہ بنا رہا ہے۔ اجنبی لوگوں کے پاس زیادہ جاتی ہو؟”
نیلوفر سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ عورت نے نیلوفر کی چوڑیوں کی طرف دیکھا اور فرج کے پاس کھڑے مرد کی طرف اشارہ کیا۔ ہمیں اشارہ سمجھ نہیں آیا۔ اس نے پیالی اٹھا کر کہا:
“دھیان رکھنا۔ تمہیں بہت خطرہ ہے۔ جان کا خطرہ!”
مرد کمرے کے دوسرے کونے سے ہمارے پاس آیا۔ کچھ اور نزدیک۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تیز چاقو تھا۔ نیلوفر اپنی پیالی دیکھنے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آدمی عورت کی طرف دیکھ رہا تھا اور آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ عورت نے اپنا ہاتھ نیلوفر کی چوڑیوں پر پھیرا: “سونے کی ہیں؟”
نیلوفر ابھی جواب دینے والی تھی کہ میں نے اسے کہنی ماری۔ وہ میرا مطلب نہیں سمجھی۔ میں نے فوراً اپنے پرس سے حلوا نکال کر کہا:
“یہ حلوا کھاؤ”
اس نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے آنکھ کے اشارے سے اسے وہ آدمی دکھایا۔ اس مرد نے چاقو کا سرا ٹھیک ہماری طرف پکڑا تھا اور اس کا دستہ اپنے ہاتھ میں گھمارہا تھا۔ عورت نے مرد کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی تک نیلوفر کی چوڑیاں چھورہی تھی۔ مرد ٹھیک ہمارے سروں کے اوپر پہنچ گیا۔ نیلوفر نے چند بار اپنا منہ کھولا اور بند کیا کہ کچھ کہے لیکن اس کے حلق سے ایک لفظ نہ نکلا۔ میں بھی اپنی جگہ بت بنی بیٹھی رہی۔ امی سچ کہتی تھیں۔ ہم مصیبت میں گرفتار ہوچکی تھیں، وہ بھی خرافات کی وجہ سے۔ اب مرد اور ہمارے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ تھا۔ عورت نے نیلوفر کا ہاتھ ابھی چھوڑا نہیں تھا۔ اس نے چوڑیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے کہا:
“تمہارے ہاتھ اتنے ٹھنڈے کیوں ہیں؟”
مرد کا چاقو کے سر کے اہپر پہنچ چکا تھا۔ اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ نیلوفر کی ہلکی سی چیخ نکلی۔ میری مٹھیاں زمین پر جم چکی تھیں۔ مرد نے جیب سے ایک بھنڈی نکالی اور اسی نحیف آواز سے پوچھ:
“عورت اوپر سے کاٹوں یا نیچے سے؟”
نیلوفر بے ہوش ہوچکی تھی۔ میرے منہ سے بھی جھاگ نکل رہی تھی۔ عورت بولی
“ارے تمھاری دوست کو کیا ہوگیا؟”
میں نے کنویں کی تہہ سے نکلتی ہوئی آواز کے ساتھ کہا:
“کچھ نہیں ایک گلاس پانی ملے گا!”
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...