قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت۔
پاکستانی اشرافیہ کی احتساب کہ نام سے ہی جان کیوں نکلتی دکھائ دیتی ہے ؟ اس کی بہت آسان وجہ ہے ، ۷۰ سال کا کھایا ہوا مال اُگلنا اور اس کی سزا بُگھتنا اب ان کہ بس کی بات نہیں ۔ ان کہ دفاع میں Gucci کہ پرس اور جوتوں پر بکنے والی عورتیں نصرت جاوید کہ جُھرمٹ میں مزید ڈانس نہیں کر سکیں گی ۔ نہ صرف ان کا رقص بند ہو گا بلکہ ان کو ایک ایک پائ کا حساب دنیا ہو گا ۔ یہ قدرت کا نظام ہے ، صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ کل نصرت جاوید نے میری جان سے پیاری شخصیت ، حضرت محمد صل و علیہ وصلم سے گستاخی کی ۔ ایک نعوز باللہ ان کا عمران سے موازنہ کرنے کی کوشش کی گئ ، دوسرا ان کہ ایمان اور core belief کی دھجیاں بکھیرنے کی ناپاک کوشش کی ۔ نصرت کو پاکستانی عوام سے معافی مانگنی ہو گی ۔ سارے پاکستانی مسلمان نصرت جاوید کی اس حرکت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ یہ سلمان رُشدی کی نسل کہ ملحد اتنے بے لگام ہو گئے ہیں ۔ زرا شرم اور حیا نہیں انہیں گل بخاری آئے دن یہی حرکت کرتی ہے ۔ ان کا آقا چند ٹکے ، حرام پر پلنے والا نواز شریف ؟ غلط parallel گھڑا گیا اس عورت سے جو حضور صلعم پر کُوڑا پھینکتی تھی آنحضرت نے معاف کر دیا ۔ اور مدینہ کی ریاست قائم ہونے پر حضور صلعم کی عام معافی جس کا نواز شریف کہ جرم سے کوئ تعلق ہی نہیں ۔ جناب دونوں مثالوں میں حرام ، رشوت اور استحصال کا معاملہ دور دور تک نہیں تھا ۔ کل ہی میری ایک دوست پاکستان سے کہ رہی تھیں کہ ہمیں خمینی والا احتساب نہیں چاہیے تو میں نے کہا جناب خمینی تو احتساب کر ہی نہیں سکا ۔ احمدی نجاد اور تیل کی کمپنیوں کہ مالکان پر رشوت کہ سنگین الزامات رہے ۔ احتساب چوکوں میں پھانسیوں سے نہیں ہوتا ۔ وہ تو ایک deterrence ہے ایک symbolic act ۔ نظام تبدیل کرنے سے ہوتا ہے ۔ یہی موم بتی مافیا زرا اڈیالہ جیل میں بند باقی قیدیوں کی رہائ یا ڈیل یا معافی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتا ؟ خاص طور پر درجنوں ایسے جو ۵۰۰ روپیہ جرمانہ نہیں دے سکتے ؟
ہم بھٹک گئے ۷۰ سال کہ اندھیروں میں ، کدھر جا رہے ہیں ؟کونسا تماشا رچانے جا رہے ہیں ؟ کل ہی ایک دوست کہ رہا تھا کہ نوائے وقت ، جنگ ، ڈان اور ایکسپریس نیوز میں فواد حسن فواد کہ خلاف نہیں لکھا جا سکتا ۔ تو میں نے کہا جناب ان اخباروں اور ٹی وی کو تو اب پڑھنے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔ وگرنہ مجھ ناچیز کی تصویر فوج کہ غداروں کی لسٹ میں نہ ہوتی ۔ یہ تو سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ کیونکہ اس کے لیے لٹریسی کی ضرورت ہے لہٰزا ہم فلپائین اور کولمبیا کہ مقابلہ میں تو مات کھا گئے لیکن عمران کو جتا دیا ۔ ہماری ۵۰ فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے جن کہ پاس سمارٹ فون اور سارے apps ہیں ۔ وہی انقلابی ہیں ، وہی زیادہ تر میرے مداح ہیں اور میرے بلاگ کہ انتظار میں رہتے ہیں ۔ یہ انہی کا پاکستان ہے ۔ ہم تو اپنی زندگیاں گزار بیٹھے ، اپنا حصہ ڈال گئے اور مزید ڈال رہے ہیں ۔ وہی اب حکومت کریں گے ۔ عمران کو وہی کرنا پڑے گا جو وہ چاہیں گے ۔ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ پہلے احتساب اور ریفارمز کر لیں طاہر القادری والا فارمولا ، اور پھر دو سال بعد انتخابات ۔ فوج کو بہت جلدی تھی اپنے گند عمران کہ گلے تھوپنے کی ۔ عمران کی گردن تو اتنی موٹی نہیں لیکن ۵۰% نوجوان نسل کی گردنیں فولاد کی طرح آہنی ہیں ۔ وہ کچھ بھی کر جائیں گہ اپنے مستقبل کہ لیے۔
میں ۱۹۹۸ میں ہالینڈ میں انٹرنیشنل لاء پڑھنے گیا ۔ میں ایک ہفتہ لیٹ تھا ۔ جب میں ہیومن رائٹس کی کلاس میں پہنچا تو ایک سابقہ ممبر اسمبلی لیکچر دے رہے تھے ۔ میرا تعارف کروایا کلاس سے ۔ اور کہا کہ یہ بھی پاکستان سے جہاں کرپشن بہت زیادہ ہے اور مجھے مخاطب کر کہ کہا کہ ہم پچھلے ایک ہفتہ سے تیسری دنیا میں رشوت ستانی کی وجوہات ڈھونڈ رہے ہیں آپ گائیڈ کریں ۔ میں نے کہا مجھے بلیک بورڈ استمعال کی اجازت ہے ۔ اس نے کہا welcome ۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور لکھا “discretionary powers “ اور واپس اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا ۔ پوری کلاس میں سناٹا چھا گیا ۔ میں سادہ آدمی genius گردانا گیا ۔
کل میں کچھ اپنے روحانی گروپ کہ ساتھ امریکہ میں ہی وڈیو کانفرنس پر تھا ۔ ہم پریشان تھے امریکہ میں روز نئ تحریکوں پر اور روحانی حل سوچ رہے تھے ۔ میں نے کہا کیوں نہ equal opportunities کی بات کی جائے ۔ ہر ریاست مختلف ہے کہیں کالج اچھے ، کہیں ٹیکس کم، کہیں آلودگی کم ، یہ چیزیں انسانوں کی زندگی زیادہ یا کم کرتی ہیں ۔ ان social factors میں اگر ہر ایک کو برابر موقع دیا جائے تو بہت بہتر ہو گا ۔ ایک عورت نے کہا کہ اگر تمام انسان ایک جیسے نہیں تو موقع ایک جیسا عجیب نہیں لگے گا ؟ میں نے کہا بلکل نہیں ۔ میں نے پاکستان کی مثال دی جہاں credit line access نے ۲۲ خاندانوں کو جنم دیا اور آج ۲۲۰۰۰ خاندان ہیں ۔ سارے لوگ متفق ہوئے اور انہوں نے مجھے اس پر مزید ریسرچ اور پیپر لکھنے کو کہا ۔ مجھ غریب کو تو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے امریکہ آئے ، میں ہنس رہا تھا میں ان کا بھی طبیب بن گیا ۔
ثاقب نثار اب مان گیا کہ ڈیم بنانا ہمارا کام نہیں جو میں نے مہینہ پہلے اپنے بلاگ میں کہا تھا ۔ جناب آپ ۱۹۴۷ سے جو قرضہ معاف ہوا ہے وہ نکلوا دیں میں آپ کو سونے کا تمغہ پیش کروں گا ۔ کتنا ظلم ہے کہ پہلے credit line access لیا اور پھر قرض بھی نہ اتارا ، اس طرح کا ہاتھ سینیٹر گلزار کرتا تھا کوآپریٹوز کہ ساتھ ۔ اس کو میں نے نیب سے پکڑوا یا اور پیسہ اور زمین واپس کروائ ۔ جنرل صابر گواہ ہیں ۔
ہماری احتساب کی نیت ہی نہیں ۔ عمران کہ نزدیک بیٹھا ہر شخص کسی داؤ اور مفاد پر ہے ۔ ٹھیک ہے موج کریں جناب ۔ شہزاد ارباب اور ناصر درانی آپ کو یہ بتا رہے ہیں کہ کونسا بابو زیادہ کرپٹ ہے اور کونسا کم ۔ ایک دفعہ شہباز شریف نے مجھے بلایا اور کہا کہ ان بابؤں پر ہاتھ ہولا رکھیں ، کام بھی تو انہی سے لینا ہے میرا جواب تھا جناب نظام کو شفاف بنائیں ، بابوؤں کی
Discretionary powers
ختم کریں ۔ یہی درخواست میری عمران خان سے ہے جناب یہ ارسطو ارباب شہزاد اور ناصر درانی سے یہ طاقت ختم کرنے کی ترکیب پوچھیں ۔
پاکستان جیت جائے گا وگرنہ ۵۰ فیصد نوجوان آبادی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے گی جس طرح ایک دفعہ جامعہ پنجاب میں جمعیت والوں نے آپ کو قید کر لیا تھا ۔ ہمت پکڑیں ۔ علامہ اقبال کہ یہ شعر آپ کی نزر خان صاحب ۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں ، کردار میں، اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہءجبریلِ امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
پاکستان پائیندہ باد
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔