مالٹے کے چھلکے کی کترنیں تو اس میں تھیں لیکن اس کے ساتھ جو کچھ تھا، ایک لیس دار جیلی نما مادہ، اس لائق نہیں تھا کہ کھایا جائے لیکن یہ سوچ کر کہ یہی کچھ تو کھاتے آئے ہیں، جو وقت باہر گزرتا ہے، وہ تو سمندر میں ایک چھوٹے سے ٹاپو سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ٹوسٹ پرلیس دار جیلی نما مادہ پھیلایا۔ پورے ٹوسٹ کے حصے میں چھلکے کی صرف ایک کترن تھی، کھایا، چائے کا گھونٹ بھرا اور اُن کارخانے داروں کی ہدایت کے لیے دعا کی جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مار ملیڈ اور جام خوش نیتی سے بنایا جائے تو کیسا ہو گا!
صرف مار ملیڈ، جام اور ڈبل روٹی کی کوالٹی کا رونا نہیں، خوراک کے ہر آئٹم کا آگا پیچھا مشکوک ہے۔ پرائمری جماعت سے پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس زرعی ملک میں ہر زرعی پراڈکٹ اپنے آگے سوالیہ نشان رکھتی ہے۔ شہد کی دکان پر ’’اسلامی‘‘ کا بورڈ ہو گا مگر مصنوعی ہو گا۔ دودھ کے ساتھ جو کچھ گوالے کر رہے ہیں لگتا ہے کہ حالیؔ نے غلط کہا تھا۔’’جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے ‘‘کی جگہ ہونا چاہیے جہنم کو ہمارے گوالے بھریں گے۔ یہ لکھنے والا ایک معمولی درجے کا کسان ہے، گندم اپنی میسر آ رہی ہے، الحمد للہ، لیکن جب شہر سے پسوائی جاتی ہے تو چکی والا بدل کررکھ دیتا ہے۔ مرچ مصالحے، نمک ،دہی ،بیسن، ہر شے تو اپنی مہیا نہیں کی جا سکتی۔ رمضان کے مقدس مہینے میں بیسن سپلائی کرنے والے پس پردہ جو کچھ کرتے ہیں، رمضان ہی اس کی گواہی دے گا۔ جس معاشرے میں مالٹے کو ٹیکے لگائے جاتے ہوں، اس کے بارے میں بقول ظفر اقبال اور کیا کہا جا سکتا ہے ؎
جس آب رود کی اوقات چند قطرے ہوں
پھر اس میں تیرنا کیا‘ اس میں پائوں دھرنا کیا
بہت سال پہلے کا قصہ ہے۔ دارالحکومت کے ایک’’وی آئی پی‘‘ سیکٹر میں گھر کے ساتھ بازار تھا۔ شور اٹھا، معلوم ہوا ایک معروف فوڈ چین میں گاہک نے شور مچایا کہ حلیم یا نہاری میں ٹشو پیپر کی کثیر مقدار تھی۔ دکان کے کارندوں نے گاہک کی خوب دھنائی کی۔ اب یہ طے ہے کہ پاکستانی کھانا اگر بے کھٹکے، اطمینانِ قلب کے ساتھ کھانا ہے تو ملک سے باہر ایسا ممکن ہے۔ یو اے ای یا سعودی عرب میں ملاوٹ کا تصور ہی نہیں، لیکن نہاری، بریانی حلیم اور کباب جو برطانیہ اور آسٹریلیا کے ریستورانوں میں مل رہے ہیں، کراچی اور لاہور والے اس کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ میلبورن کی مشہور زمانہ سڈنی روڈ پر ایک پاکستانی ’’آسی ڈیرا‘‘ کے نام سے ریستوران چلا رہا ہے (آسٹریلوی اپنے آپ کو’’آسی‘‘ کہتے ہیں)، حلیم کیا بناتا ہے، قاب میں جادو رکھ دیتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہاتھوں کا یہ کمال وطن میں ممکن نہیں، بلاشبہ ممکن ہے مگر اجزا خالص کہاں سے آئیں گے؟
مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم لطیفہ سنایا کرتے تھے، مسجد میں ایک شخص سو رہا تھا۔ پاس ہی اس کی چادر رکھی تھی۔ ایک شخص آیا اور چادر اٹھا کر جا ہی رہا تھا کہ سونے والا اٹھا اور آواز دی، حاجی صاحب! چادر رکھ دیجیے، حاجی صاحب نے چادر رکھی اور کہا، تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں حاجی ہوں، جواب دیا، اس لیے کہ چادر چرا رہے ہو۔ ماشاء اللہ وطن عزیز میں تجارت کا معتدبہ حصہ حاجی صاحبان کے قبضے میں ہے۔غذا اور غذا کے اجزا خالص کیسے دستیاب ہوں گے؟ اقبال نے کہا تھا ع
اسلام ہے محبوس‘ مسلمان ہے آزاد
صبح کی نماز کے بعد اسلام کو ہدایت دی جاتی ہے کہ بھائی جان! آپ نے دن بھر یہیں مسجد میں رہنا ہے، ہم ظہر کی نماز کے لیے آئیں گے تو معانقہ کریں گے کیونکہ ہم نے جو کچھ بازار، منڈی،تھانے ،کچہری ،کارخانے اور دفتر میں کرنا ہے، اس کے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ ساٹھ ستر فی صد حصہ جو حقوق العباد کا تھا، کھو چکا ہے۔ نماز سے لے کر روزے تک پر عبادت کے فضائل پڑھے اور سنائے جاتے ہیں لیکن وہ حقوق جو صرف بندے معاف کر سکیں گے ان کا ذکر کہیں نہیں۔ خدا کے بندوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور خدا ہی کا ڈر کہیں نہیں ؎
دلوں کو کھا گئے اندیشہ ہائے دور و دراز
خدا کا خوف ضمیروں پہ حکمراں نہ رہا
لوگوں نے اپنے اوپر نیکی کے خول چڑھا لیے ہیںاپنے آپ کو عقلِ کل سمجھ لیا ہے اور اسلام کی صرف اُس تعبیر پر اصرار کر رہے ہیں جسے وہ خود درست اور فائنل سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں میڈیا کو خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ لکھاریوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قارئین کو غیر جانب دار ہو کر صورتِ حال بتائیں اور میڈیا کو اپنے ذاتی مشن کے لیے استعمال نہ کریں لیکن کچھ لکھنے والے ایسے بھی ہیں جو میڈیا کو اپنی ذات کی تشہیر اور ذاتی خیالات کے پرچار کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور خوب استعمال کر رہے ہیں۔ کبھی اپنی نمازوں کا ذکر کرتے ہیں، کبھی اپنی قرآن شناسی کا اعلان کرتے ہیں، کبھی قارئین کو یہ بتاتے ہیں کہ فلاں وزیر سے بات ہوئی، کبھی نوبت بجاتے ہیں کہ فلاں حکمران سے ملاقات ہوئی اور یہ ہدایت دی اور وہ تجویز پیش کی۔ ان کا اصرار ہے کہ کسی کو سزاد دینی ہے یا کسی کو معاف کرنا ہے یا کسی کو غدار قرار دینا ہے یا کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینا ہے تو یہ سارے امور ان کی فہم کے مطابق طے کیے جائیں کیونکہ ان کا فرمایا ہوا مستند ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ میڈیا کے گروپوں کو ان ڈھنڈوروں اور ان ڈگڈگیوں کا علم ہے یا نہیں، یا وہ سب کچھ جانتے ہیں اور تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اور اس میں نیم رضا شامل ہے!
تھا تو لطیفہ لیکن اب عملاً یہی صورت حال ہو چکی ہے جس کا معاشرہ سامنا کر رہا ہے۔ ایک غریب عورت کو تھانے والے کسی قصور کے بغیر، کسی چودھری کی شکایت پر، پکڑ کر لے آئے، مولوی صاحب گزر رہے تھے، پریشانی میں مظلوم عورت کا دوپٹہ سر سے ڈھلک گیا، مولوی صاحب نے اسے ڈانٹ پلائی اور اس ’’حرکت‘‘ پر جہنم کی وعید بھی سنا دی۔ ہمارا اب یہ وتیرہ بن گیا ہے۔ کوئی بچی ٹرائوزر یا پاجامہ پہن لے تو فحاشی کا فتویٰ فی الفور لگ جاتا ہے لیکن سال بہ سال عمرے کرنے اور کرانے والے، لاکھوں کروڑوں روپے ماہانہ کے تجاوزات پر قابض ہیں۔ جعلی دوائوں سے معصوم شہریوں کو قتل کر رہے ہیںاورخلقِ خدا کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے ’’لا ایمان لمن لا عہد لہ‘‘ اور آیۃ المنافق ثلاث، اذاحدث کذب… جیسی احادیث کو نعوذ بااللہ خاطر میں نہیں لاتے۔ ان پر کوئی نفرین بھیجتا ہے نہ منع کرتا ہے۔ ان کے عمامے بلند ہیں اور لبادے اجلے ہیں۔ اب شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جیسا ولی کہاں سے آئے جس نے روپوں سے بھری گٹھڑیاں زمین پر رگڑی تھیں تو ان سے خون بہنے لگا تھا!
ملک کا نام یاد نہیں لیکن اُس کے شعبۂ تجارت نے ایک عجائب گھر بنا رکھا ہے۔ اس عجائب گھر میں مختلف ملکوں سے درآمد شدہ اشیائے تجارت کے نمونے رکھے ہیں۔ ہر ملک کا نام لکھا ہے اور ساتھ وہاں سے آئی ہوئی شے رکھی ہے، کہیں کپڑا، کہیں کوئی جراحی کا آلہ، کہیں جوتا، کہیں فرنیچر کا دیدہ زیب آئٹم۔ پاکستان کے نام کے ساتھ روئی(کاٹن) کا لفظ لکھا اور شیشے میں بند روئی کا جو نمونہ پڑا ہے وہ اینٹ کا ٹکڑا ہے! ؎
اِن ظالموں پہ قہرِ الہٰی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔