ادب کا ذوق مجھے گھٹی میں ملا، یا میں نے اپنے والد ِ مرحوم و مغفور سے وراثت میں پایا ؟ یہ بتانا مشکل ہے لیکن سچ یہ ہے کہ میرا علمی ، فکری اور فنی سفر انگریزی میں شروع ہوا۔ پہلے پہل مجھے انگریزی ادب سے حددرجہ لگاؤ رہا جو اب بھی ہے لیکن میر تقی میر ، مرزا اسداللہ خان غالب ، مومن خان مومن ، میرا جی اور دیگر اساتذہ کو تسلسل کے ساتھ پڑھنے کا رجحان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔اس سفر کے دوران ایک اور موڑ اس وقت آیاجب علامہ طالب جوہری ، محترمہ ادا جعفری ، مجید امجد ، ن۔ م ۔ راشد ، فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، سید فخرالدین بلے ، اختر حسین جعفری ، جون ایلیا ، عبیداللہ علیم ، ، آنس معین ، شکیب جلالی ، مصطفی زیدی ، ڈاکٹر خورشید رضوی ، خالد احمد ، سید انجم معین بلے ، امجد اسلام امجد ، سید عارف معین بلے ، حمایت علی شاعر ، محترمہ فہمیدہ ریاض ، محسن نقوی اور پروین شاکر جیسے نامور اور ممتاز شعرائے کرام کے کلام کے مطالعے نے میرے اندر ایک ہلچل مچادی ۔گویا ادب ِ عالیہ نے کمال کردیا اور مجھے عرفان کی دولت سے مالامال کردیا۔ کوشش کی کہ ماضی قریب اور ماضی بعید کے بھی قادرالکلام شعراء کے کلام کو اپنے مطالعہ کا مستقل طور پر حصہ بنائے رکھوں۔اور ایسا ہوابھی ۔سعادت حسن منٹو ، عصمت چغتائی ، محترمہ الطاف فاطمہ ، محترمہ بانو قدسیہ اور بابا جی اشفاق احمد خاں صاحب جیسے باکمال اور صاحب طرز افسانہ نگاروں ، ناول نویسوں اور فکشن رائٹرز نے تو جیسے مجھے جکڑ ہی لیا۔ حضرت واصف علی واصف ، پیر صاحب حضرت نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی تحریروں، مقالات اورشعری و نثری نگارشات نے مجھے تصوف کی طرف راغب کیا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ تصوف میرے پسندیدہ ترین موضوعات میں سرفہرست ہے۔
جدید اردو افسانے ، جدید اردو نظم اور تنقید و تحقیق کے علاوہ ترجمہ نگاری کے حوالے سے ایک بڑی شخصیت اپنی مثال آپ تھی اورآج بھی ہیں۔ یہ ہیں میرے استاد پروفیسر خالد سعید صاحب۔ اعلیٰ ترین نظم و نثر کے حوالے سےان کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میں نے کئی برس قبل نظم نگاری میں جناب پروفیسر خالد سعید صاحب سے اصلاح لینا شروع کی۔ استاد گرامی جناب خالد سعید صاحب نے خصوصی توجہ فرمائی اور میرے کتب بینی کے شوق کو پروان بھی چڑھایا۔ نظم نگاری میں میری اصلاح بھی کی اور میری حد درجہ حوصلہ افزائی اور راہنمائی بھی فرمائی ۔ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب اور کیسے استاد محترم خالد سعید صاحب نے میرا ٹریک نظم نویسی سے ترجمہ نگاری کی طرف تبدیل کردیا۔ ترجمہ نویسی میں بھی انہوں نے میری حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اصلاح اور بھر پور فکری راہنمائی کی۔
میں فخریہ طور پر اعتراف کرتی ہوں کہ جناب پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب صاحب ، سید عارف معین بلے صاحب اور جناب زیب اذکار صاحب سے میں نے براہ ِ راست کسب ِ فیض کیا ، راہنمائی حاصل کی اور ان کی مشاورت کو مقدم جانا ۔ جناب زیب اذکار ممتاز فکشن رائٹر ، نقاد ، صحافی ، شاعر اور ادب کے فروغ کے لیے مثالی خدمات انجام دینے والی متحرک اور کثیرالجہت شخصیت ہیں۔ زیب اذکار صاحب نے ادب کو ہی نہیں بلکہ ادیبوں اور شاعروں کو بھی پروموٹ کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لی ۔ ذاتی حیثیت میں بھی اور حلقۂ ارباب ذوق کراچی کے پلیٹ فارم سے بھی ۔ انہوں نے کئی دیگر حوالوں سے بھی مثالی اور قابل ذکر خدمات انجام دیں۔
جب میں نے جناب عطاءالحق قاسمی صاحب کی منتخب نظموں کا منظوم انگریزی ترجمہ کیا تو مجھے اس کا میری توقعات سے کہیں زیادہ رسپانس ملا۔ اس کاوش کو حد درجہ سراہا گیا اور تو اور خود عطاءالحق قاسمی صاحب نے اپنے احباب سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا
” محترمہ تعبیر علی نے کمال مہارت بلکہ پروفیشنل مترجم کی طرح میری نظموں کا بہت خوبصورت اور دلکش ترجمہ کیا، جسے بیرون ملک مقیم ادب دوستوں نے بھی بہت پسند کیا۔”
جناب عطاءالحق قاسمی صاحب کی اس فراخ دلانہ تعریف سے میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ بے شک صاحبان علم کی راہنمائی سے ہمیشہ راہیں ہموار ہی ہوا کرتی ہیں۔اس بات کااعتراف ضروری ہے کہ ماہنامہ بیاض لاہور ، ماہنامہ ادب لطیف لاہور جیسے مؤقر ادبی جرائد و رسائل اور بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی ویب سائیٹس نے ہمیشہ میری تحریروں کو اہتمام کے ساتھ شائع اور اپ لوڈ کرکے دنیا بھر کے قارئین ادب تک پہنچایا ۔قارئین نے ہمیشہ توجہ اور رغبت سے اس کا مطالعہ کیا اور پسندیدگی کا اظہار کرنے میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لیا۔
ممتاز شاعر ، مفکر ، اسکالر ، درویش صفت ، جون ایلیا کی ادبی زندگی کے خاص الخاص رفیق ، متحرک و فعال ادبی شخصیت اور بابا جی سرکار نور والے کے مریدین خاص میں شامل جناب مسعود منور صاحب ( ناروے میں مقیم ) سے بھی مجھے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا اور آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کا شوق اور جنون بھی۔ میرا سفر جاری ہے۔میں بہت سے ادبی محاذوں پر بیک وقت کام کررہی ہوں۔ادب کے حوالے سے کچھ خوبصورت خواب میں نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں ۔ایک ایک کرکے ہرسندر سپنا پورا ہورہا ہے ، جس کیلئے میں دل کی گہرائی سے اللہ تبارک و تعالی ٰ کی شکر گزار ہوں ۔ادب میں اسلام سے جُڑی چیزیں مجھے بہت ہانٹ کرتی ہیں ۔رسول ِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ،خاتون ِ جنّت بی بی فاطمۃ الزھرا، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھم السلام کے قدمین ِ شریفین کے صدقے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اہل ِ بیت اطہار کی محبت اور مودّت سے سرشار کررکھاہے۔آپ یقین کریں کبھی کبھی تو مجھے لگتاہے کہ میں نہیں پنجتن پاک مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں ۔ اہل ِ بیت ِ اطہار کی یہی محبت ہے جس نے میرے دل میں ایک آگ لگارکھی ہے ۔یہ آگ سلگتی رہتی ہے اور جب بھی اندر چنگاریو ں کو ہوا لگے تو مدح و ثنا سے بھرپورمیری کوئی تخلیق کاغذی پیرہن میں میرےسامنے آجاتی ہے ۔ بعض اوقات میں خود سے پوچھتی ہوں کہ کیا واقعی یہ کاوش میری ہے۔
میں نے کبھی کوئی تحریر صرف اس لئے پسند نہیں کی کہ یہ میرے کسی اپنے کی ہے ،بلکہ ترجمہ نگاری کیلئے اپنا ایک کڑا پیمانہ رکھا ہے ، جو تخلیق اس کسوٹی پر پوری اترتی ہے ،اسے میں انگریزی کے قالب میں ڈھال دیتی ہوں۔پچھلے دنوں مجھے ایک نظم ملی، جس کا عنوان ہے تصوف کیا ہے ؟ یہ نظم بڑی جاندار اور شان دار لگی اور میں نے انگریزی ادب کے قارئین کے ذوق و شوق کی تسکین کیلئے اسے اردو سے انگریزی زبان میں منتقل کردیا، جب میں نے یہ نظم تصوف کیا ہے ، اس کے نظم نگار سید عارف معین بلے کو بھیجی تو انہوں نے کھل کر تعریف ہی نہیں کی، یہ بھی کہا ” سبحان اللہ ۔ کیا بات ہے ؟ میری نظم ایک زمین تھی ، آپ نے انگریزی میں ترجمہ کرکے اسے آسمان کی بلندی عطاکردی ہے”۔میں اپنے قارئین کرام کی دلچسپی کیلئےپہلےوہ ترجمہ دے رہی ہوں ، جو میں نے انگریزی زبان میں کیا ہے۔اس کے فوراً بعدآپ اصل اردو نظم ملاحظہ کرسکیں گے ۔ یہ اردو نظم اور اس کا انگریزی ترجمہ دینے کا مقصد یہ بھی ہے کہ میں آپ سے جان سکوں کہ میں نے اپنے کام سے کتنا انصاف کیا ہے؟یہ آپ بتائیں گے ، مجھے تو ادب کے حوالے سے اعلیٰ پائے کی تخلیقات کے تراجم کا ڈھیروں کام کرنا ہے ۔ اپنے دامن کو عرفان کے موتیوں سے بھرناہے۔اب آپ ملاحظہ کیجئے ،سید عارف معین بلے کی نظم تصوف کیا ہے کا انگریزی زبان میں میرا کیا ہوا ترجمہ اور اس کے بعد آپ کو دیکھنے کو ملے گی ، اصل اردو نظم تصوف کیا ہے ؟
Poem : What is Mysticism
Poet : Syed Arif Moeen Balley
Translated By : MohTerMa TaBeeR ALi
نظم ؛ تصوف کیا ہے ؟
نظم نگار : سید عارف معین بلے
منظوم انگریزی ترجمہ : محترمہ تعبیر علی
Someone asks , what is mysticism ?
Either is this a sect or a religion or any kind of
Belief Systems.
Is this really an escape from life or any renouncement of pleasures.
Anyways, is this exactly devotedness or prayer or conventions of old ancestors.
Anyhow, is this really Shariah or somewhat Belief.
Just apprise of its reality; what is the truth?
Eventually where that word comes from, some mystic curriculum?
Or it came in the books
And so, why the intoxication could not be found..
in the liquor ?
So all at once someone asked many questions..
in one go.
So.. it was why, my tongue got clammed up .
Hence that to keep away the cobewebs of spider from the cave of ponder.
oh the Seeker ,
Now, I have decided , I shall open my closed lips!!
With the key of wisdom….
At first I would like to sort all the expressions out just to scale out facts and figures.
I shall measure and consider those expressions..
I shall retort to every expression
Certainly, I” ll speak up !
Mysticism is the name only to show inclination towards Allah.
Mysticism is the name only to embellish the heart with great honesty and sacredness.
It is not a monasticism,
But for settling down of one’s own self
It is the name to light up the lamp of peace in order to bring the darkness to an end..
It is not the destination but a gateway to reach the destination
In fact what is exactly the mysticism?.
Indeed, it is a Deen , belief and religion.
It is a place to live, a custom to treat, and an institute or code to live life.
It is a requisition to the Claimant and also to the Bestower
It is a purpose and well recognized expression too..
For sure, it is a Deen, A Deen of worship and faith as well.
If we embrace it as a religion it is a religion of love.
It is the way of course, to persuade one’s own self
Or doctrine of faith based on religion .
It could be opened from that key
Certainly one’s farsightedness
truthfully mysticism is mere a play game of delightness,
And chasteness
It holds aroma in Shariah,
Or shows the colour of mystic path
Both the Shriah and Beliefs are inseparable
It is a kind of word, which has specifically many interpretations.
To have known the realities which were, earlier unknown
Mysticism is a visible world or
Even an unseen and invisible world can also be found there
It is a sort of droplet containing a large number of meanings as are lie in this sea.
Many pearls can be found in it, as it is a seashell..!!
It is a kind of seed, else rest of hidden trees
are placed in it .
Have faith, it bears the fruit trees
in the autumn season .
It is that tree where you will find a number of flowering trees in it.
All the gloominess getaway when mystic’s illumination gets prevailed
Mysticism is not only a sect of inerself, it is even subservient of heart and soul too
It is a custom of one ‘s full spirit
and even purification of one’ own self .
It is that boundary line
When important is to solve the riddle of intuition
The fact is that, it seems to be a considerate superficial world too.
As it is an effective bond to unravel any complication
In fact many names had taken place before this name
Undoubtedly, existence of mysticism had found before Islam.
Certainly it is in the heart or does penetrate in the body as well..
So, it is in every religion …..
Advertently , it is not only the heritage of Islamic countries .
It has existence in India (Hindustan) too
Unquestionably, it exists in Greece too..
However, the notion of mysticism exists in Quran too.
have faith in , it has a little glance ,
with the religions of Jews and christians
Indeed, the illumination of it can be seen freely,
In the religion of buddhis as well
Hence, no age is free from the appearance of mysticism
As you shall find that every connected stem from the tree of mysticism.
It is mere a mold , if someone purposely wants to mould
One’s own life
Certainly one would achieve the God’s will or inerself and so the destination of life.
The word mysticism comes from wool,
It is deemed as wool.
It is solely that vesture, the people wear those who live in caves
These are the fountains which are running in mountains,
Or deserts and in desolations too.
These are those trees that wholly endure warmth
Merely to give shadow
Mysticism is not only associated with the fleece (wool)
However with sacredness too
Indeed, these are the characteristics
Which eminently could be seen in the Maker of Universe.
Initially, it has some connection with the
People of Safa too
Veritably, it has a strong connection with Hazrat Muhammad (S .A. W .W ) too.
And so, every town of the very ancient times is interlinked with the mysticism.
However, The Saie tells all that…
It is even interlinked with Marwa and Safa too
Mysticism is the pathway to whomsoever,
Indeed, prepared for jehad e nafs (fighting with self impurities)
Moreover, only that soul is the Sufi one , the Purified and the dignified in real terms.
Only the sole soul is free from malicious, the
wealthier one of well deeds
And so, only the same soul is gold and gem of real conceptions.
Just to root all the extremity out, the one finds all the wisdom of it.
So as to, the one gets the highest bliss with great perception and consciousness.
Or have to get in trance the seeker obtains all the ecstasy.
For sure, the one attains the treasure of all the certainty.
On the one hand, the soul person is well heeled in this world,
On the other, the same is bestowed by, in hereafter too.
Somehow, the seeker finds the prospect of the pathway
If the blind alley would come in some way
So, the noblest one gets the sacred position in this world or those dignities of Deen too.
The Soul is the sole being that gets to know what is
mortality as selfdom perishes away.
Therefore, it is the only soul which has status of beingness that
Perceives a spacious ground in the narrow lodge
Infact, it is the seeker that could set oneself on fire at a shadow place
And so it is the only living being who endows by the fertility of shadow from the scorching heat.
Indeed, the seeker conceives a new and a fresh recognition from the deep concentration.
Poem : What is Mysticism
Poet : Syed Arif Moeen Balley
Translated By : MohTerMa TaBeeR ALi
نظم ؛ تصوف کیا ہے ؟
نظم نگار : سید عارف معین بلے
منظوم انگریزی ترجمہ : محترمہ تعبیر علی
یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے اور تجربہ بھی کہ اہل بیت اطہار ع کو اپنا اور اپنے ایمان کا مرکز و محور ماننے والے اور ان سے لو لگانے والے حد درجہ منکسرالمزاج ہوتے ہیں ،یہاں ڈاؤن ٹو ارتھ کے الفاظ بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ سید عارف معین بلے صاحب کی شخصیت ہی نہیں بلکہ ان کی باتوں ، مدحیہ کلام ،جدید شاعری ، مناقب اور سلام سے ان کے کثیر المطالعہ ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بہت ہٹ کر کام کیا ہے ۔ کم ازکم اردو اور فارسی ادب میں تو اس کی نظیر نہیں ملتی ۔میرے علم میں نہیں کہ ملیکتہ العرب جناب سیدہ خدیجتہ الکبری کی کسی نے منظوم اور مفصل سوانح حیات لکھی ہو ، مگر سید عارف معین بلے شاہ نے عالم اسلام کی خاتون اوّل حضرت سیدہ خدیجتہ الکبری سلام اللہ علیھا کی منظوم سوانح زندگی لکھ کر ایک ایسی سعادت حاصل کرلی ہے کہ کوئی اس محاذ پر ان کا ثانی نظر نہیں آتا ۔ یہ تخلیقی اور تحقیقی کارنامہ سرانجام دینے سے قبل سید عارف معین بلے نے قصیدہء بردہ شریف ، درود تاج ، سورۂ مزمل ، دعائے کمیل اور مولانا عبدالرحمن جامی کی خوبصورت نعتوں اور جناب مولا علی ع اور جناب بی بی سیدہ فاطمتہ الزہرا س کے مابین ہونے والے تاریخی مکالمے کو منظوم اردو میں ترجمہ کرکے نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی خاص نسبت اور عقیدت کا ثبوت دیا ہے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ خاتون ِ جنت بی بی سیدہ فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں جتنی بھی مناقب میری نظر سے گزری ہیں ،ان میں شاعر ِ مشرق علامہ اقبال ، پیر صاحب نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف ، محسن نقوی اور سید عارف معین بلے کی منقبتیں بڑی معرکتہ الآراء اور شاہکار ہیں۔ اہل بیت اطہار ع سے عارف معین بلے صاحب کی کمال عقیدت ، محبت اور رغبت کے باعث انہوں نے اس در اقدس سےگوہر ِ علم و عرفان اپنی جھولی میں بھرے بھی اور سمیٹے بھی ۔
دینی اسکالرز اور متصوفانہ افکارونظریات سے قارئین و سامعین کے دلوں کو موہ لینے والی شخصیات سے میں نے بہت کچھ پایا ۔ سید عارف معین بلے صاحب کی نظم تصوف کیا ہے۔؟ پڑھ کر میں باوجود کوشش کے اس کے سحر سے باہر نہ آسکی ۔ میں نےیہ نظم پہلی بار پڑھتے ہی اپنے دل میں ٹھان لی تھی کہ میں پہلی فرصت میں اس نظم کا منظوم انگریزی ترجمہ کروں گی ۔ نظم کا منظوم انگریزی ترجمہ تو آپ ملاحظہ فرما ہی چکے ہیں ، اس نظم تصوف کیا ہے ؟ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا اتنا سہل بھی نہیں تھا اور اس کا اندازہ مجھے ترجمہ کرنے کے آغاز سےپہلے ہوچکا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں تصوف کیا ہے کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کرنے کے بعد بھی مدتوں اس کے سحر سے باہر نہیں آپاءوں گی ۔اس نظم میں ایسی زبردست گرفت ہے ،جسے محسوس ہی کیا جاسکتا ہے، بتایا نہیں جاسکتا ۔ بہرحال میں اپنی اس کاوش کے حوالے سے اتنا ضرور کہنا چاہوں گی کہ میں نے نظم کا صرف ترجمہ نہیں کیا ،تخلیق کار شاعر کی ترجمانی بھی کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اس ترجمے کو ترجمانی سمجھتے ہوئے صاحبان علم ہی اس کے معیار اور درجے کا تعین کرسکتے ہیں۔ اب ملاحظہ فرمائیے سید عارف معین بلے صاحب کی شاہکار اور شاندار نظم تصوف کیا ہے۔؟
نظم ؛ تصوف کیا ہے ؟
نظم نگار : سید عارف معین بلے
اُس نے پوچھا ہے تصّوف کیا ہے ؟
یہ مذہب ہے یا کوئی دین ہے ؟ یا کوئی مسلک ہے؟
مَفَرہے زندگی سے ، ترک ِ لذّت ہے؟
ریاضت ہے ؟عبادت یا بزرگوں کی روایت ہے ؟
شریعت ہے؟ طریقت ہے ؟
بتاٶ کیا حقیقت ہے ؟
کہاں سے لفظ یہ آیا ہے روحانی نصابوں میں ؟
کتابوں میں
خُمار ایسا نہیں ہوتا ہے کیوں آخر شرابوں میں ؟
سوال اِک سانس میں اُس نے بہت سے مجھ سے کر ڈالے
زباں پر پڑگئے تالے
ہَٹا کر مکڑیوں کے میں نے غار ِ فکر سے جالے
اے مت ۔ والے
یہ سوچا اب کلید ِ معرفت سے قُفل ِ باب ِ لَب کوکھولوں گا
چُنوں گا لفظ ، میزان ِ حقیقت لے کے
اِن لفظوں کو تولوں گا
جواب ہربات کادوں گا،
میں بولوں گا
تَصّوف نام ہے اللہ سے بس لَو لگانے کا
تصوّف نام ہے صدق و صَفا سےدل سجانے کا
نہیں ہے ترک ِ دُنیا ، نام ہے یہ قریہ ء جاں کو بسانے کا
سکوں کے دیپ روشن کرکے اندھیارے مٹانےکا
یہ منزل تونہیں،رستہ ہے پَرمنزل کوپانے کا
تصوف کیا ہے؟
بےشک دین ہے، مسلک ہے ،مذہب ہے
یہ اِک گہوارہ ء تہذیب ہے،مکتب ہے ، مشرب ہے
طلب ہے طالب و مطلوب کی، مقصد ہے، مطلب ہے
یقیناً دین ہے یہ ، دین ہے عشق و عقیدت کا
اگر مذہب اسے مانیں تو مذہب ہے محّبت کا
چلن ہے خود کو پانے کا ، یہ مسلک ہے حقیقت کا
اِسی کُنجی سے کھل سکتا ہے بے شک دربصیرت کا
جو سچ پوچھو تصوف کھیل ہے نزہت کا، نکہت کا
شریعت کی ہے خوشبو، رنگ ہے اس میں طریقت کا
شریعت اور طریقت لازم و ملزوم ہوتے ہیں
یہ ایسا لفظ ہے ،جس کے کئی مفہوم ہوتے ہیں
حقائق جو ہیں نامعلوم ، وہ معلوم ہوتے ہیں
جہاں ہے اِک تصوف،اور
اَن دیکھے جہاں بھی اس کے اندرہیں
یہ ایسی بوند ہے،جس میں معانی کے سمندرہیں
اگریہ سیپ ہے،اس میں کئی نایاب گوہر ہیں
یہ ایسا بیج ہے جس میں چُھپے اشجار ملتے ہیں
یقیں کیجے کہ پت جھڑ میں بھی برگ و بار ملتے ہیں
یہ ایسا پیڑ ہے ،جس سے بڑے اثمار ملتے ہیں
اندھیرے دور ہوجاتے ہیں ،جب انوار ملتے ہیں
تصوّف ہے فقہ باطن کا، دل کا تصفیہ بھی ہے
ہے بے شک نفس کی تہذیب ، اس کاتزکیہ بھی ہے
جوسلجھانی ہو گتھی معرفت کی ، یہ سِرا بھی ہے
یہ پُراسرار دُنیا بھی نظر آتی ہے، سچ یہ ہے
کہ یہ عُقدہ کشائی کا موثر سلسلہ بھی ہے
بہت سے نام بھی اس کے رہے ، اِس نام سے پہلے
تصوّف کا وجود ہم کو ملا اسلام سے پہلے
یہ دل میں ، جان میں بھی ہے
سبھی اَدیان میں بھی ہے
تصوف صرف اسلامی ممالک کانہیں ورثہ
یہ ہندوستان میں بھی ہے
بجا، یونان میں بھی ہے
تصوّف کا تصور تو مِرے قرآن میں بھی ہے
یقیں کیجے تصوف ہے یہودی بھی، مسیحی بھی
نظرآتی ہے بدھ مت میں بھی بے شک روشنی اِس کی
کسی بھی دور کادامن تصوف سے نہیں خالی
ملے گی ہر شجر سےمنسلک یہ آپ کو ڈالی
یہ وہ سانچہ ہے،جس میں زندگی اپنی اگر ڈھالی
خُدا پایا ، خودی پائی ، مراد ِ زندگی پالی
تصوّف صوف سے نکلا ہے، جس کواُون کہتے ہیں
یہ پہناوا ہے اُن کا،لوگ جو غاروں میں رہتے ہیں
یہ چشمے کوہ و صحرا اور بیابانوں میں بہتے ہیں
یہ ایسے پیڑ ہیں ، جو چھاٶں دینے کیلئے ہی دھوپ سہتے ہیں
تصوّف کا تعلق صوف سے بھی ہے ، صفا سے بھی
نظرآتی ہے صفوت بے شک اس میں صفوت اللہ کی
صَف ِ اول سے رشتہ اس کا ہے ، اہل ِ صُفّہ سے بھی
یقیناً مصطفیٰ سے بھی
تصوّف سے صف ِ اوّل کی ہر ہستی ہے وابستہ
سعی ہم کو بتاتی ہے
یہ مرویٰ و صفا سے بھی ہے ہم رشتہ
تصوّف جس کاہے رستہ
جہاد ِ نفس پر ہے وہ کمر بستہ
وہی صوفی ، وہی صافی ، اُسی کادل مُصفّی ہے
اُسی کاسینہ بے کینہ، حقائق کا خزینہ ہے
دقائق کاخزینہ ہے
من و تو کی مٹا کر سرحدیں عرفان پاتا ہے
وہ اپنے دھیان سے اور گیان سے نِروان پاتاہے
وہ آکر وجد میں وجدان پاتاہے
یقیناً دولت ِ ایقان پاتا ہے
وہ اِس دُنیا کا باسی ہے مگر عُقبیٰ کا بھی سامان پاتا ہے
گلی بند آبھی جائے سامنے تو وا درِ امکان پاتا ہے
مراتب دین اور دُنیا میں عالی شان پاتا ہے
اَنا جب ہو فنا تو کیا بقا ہے؟ جان پاتا ہے
وہ اپنی تنگ کُٹیا میں کھلا میدان پاتا ہے
وہ آکر چھاٶں میں جلتا ہے لیکن
دھوپ سے بھی چھاٶں کا فیضان پاتا ہے
ریاضت سے نئی پہچان پاتا ہے
ایک نظم ۔ تَصوّف کیاہے؟
نظم نگار: سید عارف معین بلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قادرالکلام شعراء کی شاہکار نظموں کے تراجم اورمیرا ادبی سفر
تحریر : آنسہ تعبیر علی