قدیم راولپنڈی کی سہانی یادیں !
جب میں 1972ء میں پہلی بار ماں جی کے ہمراہ عائشہ خالہ کے گھر راولپنڈی آیا تھا تب اس وقت کا راولپنڈی اور صدر کا علاقہ آج سے بالکل مختلف تھا۔ماڑی انڈس ریل کار حسب معمول پلیٹ فارم پر رکی تو باوجود اسکے کہ سامنے والے پلیٹ فارم پر لاہور ایکسپریس پہلے سے موجود تھی مگر مسافروں کا اژدھام ویسا بالکل نہ تھا، جیسے آج کل ہوتا ہے ۔کشادہ اور صاف ستھرے چمکتے پلیٹ فارم سے گزر کر ہم جب اپنا مختصر سا سامان اٹھائے اسٹیشن سے باہر نکلے توسامنے وسیع و عریض پارکنگ میں نومبر کی دھوپ کا سیلاب آیا ہوا تھا۔ چاروں جانب بڑے بڑے بل بورڈز پر تبت سنو کریم، سہراب سائیکل، روح افزا، منٹگمری بسکٹ ،ٹافیوں اور تلوبناسپتی کےاشتہارات نظروں کو کھینچ رہے تھے۔تھوڑی ہی دیر میںہمارے تانگے میں جتی سفید گھوڑی اپنے سموں سے فضا میں مخصوص ردھم بکھیرتی دلکی چال سے آگے بڑھنے لگی۔ ریلوے روڈ سے گزرتے ہوئے دائیں جانب قطار اندر قطار ریلوے کوارٹروں کا سلسلہ پہلے چوک پر جاکر تھم گیا تھا۔چوک سے دائیں طرف نظر اٹھی تو ''کریم ہوٹل'' پر جارکی۔ہوٹل سے ملحق دکانوں اور انکے اوپر سرائوں کا سلسلہ چل پڑا جو کشمیر کیلئے بس اڈے سے آگے تک چلا گیا ۔
اسکے بائیں جانب ریلوے لائینوں پر بنے سیڑھیوں والےپل کی سیڑھیاں اوپر کو جاتی نظر آئیں۔ یہ پل صدر اور سٹی صدر روڈ کی آبادی کو آپس میں ملاتا ہے۔ جسکے نیچے فٹ پاتھ پر اور سیڑھیوں پر انواع و اقسام کے خوانچہ فروش سرگرم نظر آئے۔بس اڈے سے آگے کوئلہ گودام کی قدیم آبادی تھی۔ میں بعد ازاں سیڑھیوں والے پل سے اتر کر کوئلہ گودام والی اسی گلی گزر کر ماسٹر غلام محی الدین کے سمارٹ ٹیلرنگ ہائوس پر چک بازار جایا کرتا تھا۔تھوڑی دیر میں ہمارا تانگہ ریلوے روڈکا آخری موڑ گھوم کر بائیں طرف اترائی اتر کر سٹی صدر روڈ کی جانب بڑھ گیا۔وہاں سے فوارہ چوک اور راجہ بازار سے گزر کر باغ سرداراں اور پھر لئی والا پل عبور کرکے پہلے قبرستان اور پھر پیر ودھائی پہنچ گیا تھا۔جہاں خالہ جی اور انکے بڑے داماد ماسٹر غلام محی الدین آپس میں متصل الگ الگ گھروں میں رہتے تھے۔خالہ جی کے گھر میں چمبیلی اور ماسٹر صاحب کے ہاں رات کی رانی اور دن کے راجہ کا راج تھا۔پھولوں کی خوشبو اس قدر تیز تھی کہ صحن میں سوئے ہوئے بندے کی آنکھ علی الصبح کھل جاتی تھی۔
پھر دوسری بارمیں ماں جی کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیوں میں آیا تھا۔تب ماسٹر صاحب پیرودھائی والے مکان کی تعمیر و مرمت کروا رہے تھے۔عارضی طور پر ریلوے روڈ کے انہی کواٹروں میں شفٹ ہوچکے تھے۔ جہاں سے انکی دکان پیدل مسافت پر واقع تھی۔اب کی بار اپنے راولپنڈی قیام کے دوران ماں جی اپنی بڑی بھانجی سے ملنے گئیں تو ہم نے راولپنڈی صدر کے ان کواٹروں میںدو تین راتیں گزاریں۔ ایک شام مری روڈ پر سینما دیکھنے کی فرمائش کرڈالی۔اس شام پیرودھائی خالہ جی کے ہاں سے بھی سالم تانگہ بھر کر آیا۔ کھانے کے بعد دو تانگے بھر کے ہم لوگ موتی محل سینما پرلگی فلم ''دامن اور چنگاری'' دیکھنے گئے۔ ماں جی اتنی ذودرنج تھیں کہ پوری فلم کے دوران روتی رہیں۔ واپسی پر بات بے بات سبھی بھانجیوں سے اپنا مذاق اڑواتی رہیں۔وں ہنسی خوشی اس رات ہم لوگ ساڑھے بارہ بجے گھر واپس پہنچے۔
ریلوے روڈ پر واقع چھوٹے بڑے کواٹروں پر مشتمل اس وسیع و عریض کالونی کے دونوں جانب لوہے کے گیٹ تھے۔ جس کواٹر میں ماں جی اورمیں نے دو تین راتیں قیام کیا تھا وہ اس گیٹ اور چوک کے قریب تھا جہاں تین سڑکیں آکر ملتی تھیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے اسی روڈ پر نئے پرانے گھروں اور دکانوں کی دائیں لین میں اینٹوں کی ایک اونچی حویلی کی دیوار میں سے پیپل کا درخت نکلا ہوا تھا ۔جس کے آثار اب بھی کئی جگہ نظر آتے ہیں۔
حسن اتفاق دیکھئیے کہ وہ گھر بہت عرصہ بعد بننے والے دوست جناب اعجاز محمود کا ہےجو ریلوے کالونی کے اسی گیٹ کے سامنے چوک پر دائیں طرف واقع ہے۔لطف کی بات یہ کہ پہلی بار تانگے میں ریلوے روڈ سے گزرتے ہوئے جس ہوٹل پر ہماری نظر جا ٹھہری تھی وہ بھی جناب اعجاز محمود کے والد گرامی ملک سمندر خان اعوان صاحب کا تھا۔ کریم ہوٹل اب بھی موجود ہے جسے اب کوئی اور چلا رہا ہے۔ جب میں نے اعجاز بھائی سے اپنی ان سنہری یادوں کا ذکر کیا تو وہ ایک دن مجھے یادیں تازہ کرنے وہاں لے گئے۔ ہم گرمی کے باوجود دو گھنٹوں تک صدر کے اس علاقے میں ماں جی کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس ریلوے کالونی میں اب تک برطانوی دور کی بعض فیملیز رہتی رہی ہیں۔ جن کے مرد اس وقت ریلوے کی ملازمت میں تھے اور انہیں فیملی کواٹر ملے ہوئے تھے۔ اس وقت کالونی کے جنوب سے گزرنے والی سڑک کا نام'' ایلن برو روڈ ''اور گلی کا نام ''برائون لو سٹریٹ ''تھا۔ کریم ہوٹل کے قرب و جوار میں واقع ایک گلی میں ہاکی کے اولمپئن کھلاڑی جناب نصیر بندہ کا نہ صرف گھر دکھایا بلکہ انکے چھوٹے بھائی سے بھی ملوایا.
اس روز اعجازبھائی نے مجھے کوئلہ گودام کی'' پریم گلی''بھی دکھائی جہاں کی شامیں ان دنوں بہت مسحور کن اور رنگین ہوا کرتی تھیں۔ جہاں رات گئے تک بیٹھکوں اور چوباروں پر سجنے والا ہنگام ، سحر خیری سے ذرا پہلے جا تھمتا تھا۔اگلی صبح زندگی پھر سے اپنے معمول کے ساتھ رواں ہو جاتی تھی۔اعجاز بھائی مجھے اپنے ماڈل سکول بھوسہ منڈی والی گلی میں بھی لے گئے۔جہاں اب سکول کی خستہ عمارت میں گھر بن چکے تھے اور سکول کے گرائونڈ کے نام پر فقط ایک چھوٹا سا پلاٹ رہ گیا تھا جس میں اب بھی بچے کھیل رہے تھے۔جنکے قہقہے اور چیخ و پکار، مجھے ماضی میں کھیل چکے بچوں کے قہقہوں کا تسلسل محسوس ہوا،جن میں اعجاز بھائی اور انکے دوستوں کے قہقہے بھی شامل رہے ہونگے۔یہ سوچ کر میں اداس ہوگیا مگر اعجاز بھائی آگے بڑھ چکے تھے۔ماضی کی ان گلیوں میں گھومتے پھرتے اعجاز بھائی بچپن کے بہت سے دوستوں کے آبائی گھر دکھاتے ہوئے انکے چھوٹے چھوٹے واقعات بھی سناتے جاتے تھے۔ واقعات سناتے ہوئے میں نے انکی آنکھوں میں سنہرے ماضی کی خوبصورت یادیں لہراتے ہوئے دیکھیں۔ صدر کے اسی قدیم علاقے میں راولپنڈی کے ایک معروف دانشور عزیز ملک مرحوم کا گھر بھی دیکھا۔ انہی عزیز ملک صاحب نے راولپنڈی کی محبت میں کتاب ''راول دیس''لکھی تھی .اکادمی ادبیات پاکستان کی ملازمت کے دوران میری جناب عزیز ملک سے نہ صرف دو تین ملاقاتیں ہوئی تھیں بلکہ انہوں نے مجھے اپنی کتاب بھی لکھ کر دی تھی. جسے پڑھ کر میں بھی راول دیس کے اس تاریخی صدر کا عاشق ہوگیا. جہاں میرا ''سیڑھیوں والا پل'' بھی اسی آن بان سے ریلوے لائنوں پر معلق ہے۔ جہاں ریلوے روڈ پر کریم ہوٹل ، ریلوے کے کواٹروں اور چوک پر واقع پیپل والی قدیم حویلی کی فضائوں میں میرے اوراعجاز بھائی کے بزرگوں کی سانسیں اور نیک روحیں آج بھی کہیں موجود ہونگی۔ انکے آبائی ہوٹل اورحویلی کے درودیوار آج بھی ملک سمندرخان اعوان اورانکی زوجہ محترمہ کی شفقت اور فیاضی کا احوال سناتے محسوس ہوتے ہیں۔اس تذکرے کی مناسبت سے صدر کے اس قدیم علاقے کی چند تصاویر آپ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“