(Last Updated On: )
سر زمین جموں کشمیر ہمیشہ سے ہی اردو ادب وفن کے گیسو سنوارنے میں آگے رہا ہے۔اس زمرے میں ہمیں بہت سے نام مل جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوتا ہے۔غلام نبی کمار جو نئی نسل کے نوجوان ادیب و نقاد ہونے کے ساتھ مشہور صحافی ہیں۔جن کی اردوزبان میںاب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔جس میں’’اردو کی عصری صدائیں‘‘ اور’’قدیم وجدید ادبیات‘‘اور’’شب فراق کا جاگا ہوا:انتخاب کلامِ بشیر چراغ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔حال ہی میں اتر پردیش اردو اکادمی نے انھیں ’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘پر انعام واکرام سے نوازا ہے۔
’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ کی اشاعت 2019میں عمل میں آئی۔یہ کتاب ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔جس میں 21 مضامین شامل ہیں جن میں بعض مضامین نے سیمینار میں پڑھنے کی غرض و غایت سے لکھے گئے ہیں۔ہر مضمون میں موزوں و مناسب بحث کی گئی ہے۔ جس میں قدیم دور سے لے کر جدید دور تک کے ادیبوں،فکشن نگاروںاور شاعروں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔مواد کے اعتبار سے کتاب کا نام بھی صحیح تجویز کیاگیا ہے۔چونکہ اس کتاب میں قدیم دور کے ساتھ جدید غزل کے معیاری شعراء پر بھی مواد ملتا ہے۔جیسا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ کتاب میں شامل مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے کتاب کے نام کی تصدیق کرتے ہیں۔یعنی’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ میں ایک طرف مومن شناسی،امیر خسرو اور داغ جیسے کلاسیکل شعراء پر مضامین ہیں تو دوسری جانب زبیر رضوی اور خواتین کی خود نوشتوںپر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔
’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ کا انتساب موصوف نے مناظر عاشق ہرگانوی ،معروف فکشن نگارنور شاہ اورعہد حاضر کے ادب اطفال شاعر حافظ کرناٹکی کے نام کیا ہے۔ان ادبی مضامین کو جس طرح تحقیقی طور پر عملی جامہ پہنایا گیا ہے اور ان پر جو محنت صرف کی گئی ہے وہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ مصنف کی اردو ادب سے آشنائی اور اس کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہی ہے جو کافی متاثر کن ہے۔ جس کا اظہار خود مصنف نے اردو زبان و ادب پر فخر کرتے ہوئے ہیش لفظ میں کیا ہے۔اس کتاب میں، غزل،نظم،افسانہ، مثنوی،تحقیق، رباعی، ادبی صحافت اور شخصیات پر مضامین شامل کئے گئے ہیں۔اس کتاب میں شامل ہر مضمون اپنی ایک الگ ہی چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔مضامین کی مقبولیت کا انداز اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ مصنف نے’’ قدیم وجدید ادبیات‘‘ میں ایسے فکشن نگاروں کو بھی جگہ دی ہے جن پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور جن کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔فاضل نقاد نے ایک ایسے ہی فکشن نگار بلونت سنگھ پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جو کرشن چندرمنٹو،بیدی وغیرہ کے معاصر تھے ۔بلونت سنگھ نے تین سو سے زیادہ کہانیاں لکھی ہیں۔لیکن اردو ادب کے میدان میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاسکاجس کی تلافی جاری ہے۔غلام نبی کمار نے ان پر ’’بلونت سنگھ:ایک گم شدہ فن کار‘‘ کے حوالے سے مضمون لکھا ہے جو دراصل اردو ادیبوں وشاعروں کا حق ادا کر نے کا ہی ثبوت ہے۔
پیش لفظ کے بعد اکیس مضامین میں سب سے پہلا مضمون ’’امیر خسرو کی غزلیہ شاعری‘‘کے حوالے سے ہے جو کافی دلچسپ اور معلومات افزا مضمون ہے۔ جس میں بھرپور تحقیقی جذبہ کارفرما ہے۔امیر خسرو جو نظام الدین اولیاء کے مرید خاص تھے۔اس کے علاوہ انھوں نے ہندی میں پہیلیاں بھی کہی ہیں۔انھوں نے ہندی ،عربی ،فارسی میں بھی طبع آزمائی کی۔ان کا ہندوی و اردو کلام میسر نہ ہو سکا اور جو بچا وہ زمانہ کی نظر ہوگیا۔جس کی تصدیق میں انھوں نے جمیل جالبی کا قول پیش کیا ہے’’ان کا جو اردو کلام ملتا ہے ۔اس میں امتداد زمانہ سے اتنی تبدیلیاں آ چکی ہیںکہ اب اسے مستند نہیں مانا جا سکتا۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ امیر خسرو نے اس زبان میں شاعری کی ہے۔‘‘امیر خسروکی شاعری میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔وہ صوفی بزرگ تھے ان کی غزلوں و پہیلیوں میں تغزل،رومانیت،معاملہ بندی و موسقیت صاف طور پر نظر اتی ہے جس کو غلام نبی کمار نے مثالی طور پر واضح کیا ہے:
آنکھ خود دا شناخت نتواد
(جو شخص خود کو نہ پہچان سکا ہے)
دافر یندہ را کجا داند
(وہ اپنے خالق کو کیسے پہچان سکتا ہے)
دوسرا مضمون راقم نے ’’مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری‘‘پرلکھا ہے۔مملوک العلی دہلی کالج میں شعبہ عربی کے صدرمدرس تھے۔ان پر تحریر کیے گئے مضمون میںان کی خطوط نگاری کی اسلوب نگارش کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیا گیاہے۔تیسرا مضمون’’اردو میں مومن شناسی کی روایت‘‘ پر ہے۔ اردو ادب میں مومن خاں مومن اپنی معاملہ بندی کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ان پر مستند کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔لیکن مومن شناسی کے اعتبار سے مصنف کے خیال میں اور کام ہونا ابھی باقی ہے۔ اپنی بات کی تصدیق میں وہ پروفیسر ضیا احمد بدایونی،نیاز فتح پوری،عرش گیاوی،امیر حسن نورانی،حامد حسن قادری، پروفیسر ظہیر احمد صدیقی،کلب علی خاں،اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں۔چوتھا مضمون’’ قدیم وجدید ادبیات‘ُ‘ میں سر سید کے حوالے سے ’’سر سید کے سماجی افکار کی عصری معنویت‘‘ پر ملتا ہے۔سر سید مصلح قوم تھے ۔انھوں نے مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا ۔انھوں نے قدیم تعلیمی،سیاسی،معاشی،سماجی و مذہبی خیالات کی جڑیں اکھاڑ پھینکی ۔غلام نبی کمار نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سر سید کا مسلمانوں کے لئے نئے تعلیمی نظام کو فروغ دینے میں اورمسلم معاشرے میں نئے سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کو جنم دینے میں جو کردار ادا کیا ہے اور جو محنت صرف کی اس مضمون میںکی اہمیت وافادیت بیان کی گئی ہے۔پانچواں مضمون ’’مرزا داغ کی مثنوی نگاری : فریاد داغ کی روشنیمیں‘‘ رقم ہواہے۔مرزا داغ جو دبستان دہلی کے اہم شاعر قرار دیے جاتے ہیں۔ موصوف ناقد نے فریاد داغ کی خصوصیت بیان کرنے میں جمیل جالبی،رام بابو سکسینہ اور ڈاکٹر گیان چند جین کے قول سے اپنی بات پیش کی ہے۔بقول،گیان چند جین،فریاد داغ دلی کی آخری مشہور مثنوی ہے جوزبان وبیان اور جذبات نگاری کے لحاظ سے حکیم شوق کی مثنویوں کے قریب آجاتی ہے۔چھٹا مضمون اس کتاب میں ’’رباعیات حالی میں قومی اصلاح‘‘کے بعنوان موجود ہے جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔مولانا حالی اصلاحی ذہن رکھتے تھے، وہ ہر صنف وسخن کے ذریعے اردو شاعری میں اصلاح کرنا چاہتے تھے۔مقدمہ شعرو شاعری میں ان کا پیغام قوم کے نوجوانوں کے لئے ہے جس کو پڑھ کر یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ شاعری میں اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے اور جو شاعر اس راہ پر چلتا ہے وہی کامیابی کو چھوتا ہے۔اس لئے مولانا حالی نے اپنی شاعری میں جابجا اصلاح کا ہی پیغام دیا ہے۔’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ میں حالیؔ کی رباعیات میں اصلاح کے پہلو تلاش کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے جس کے لئے حالی نے نو جوانوں کو حکم دیا تھا۔چونکہ حالی کی رباعیات میں اصلاح کے پہلو پر ابھی کچھ خاص توجہ نہیں دی گئی ہے جس کا ذکر مضمون میں کیا گیا ہے۔’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی۔حیات و خدمات‘‘ کے حوالے سے کتاب کا آٹھواں ہے۔انھوں نے اردو ادب کو36سے زیادہ کتابیں دی ہیں۔نواں مضمون مقالات ڈار پروفیسر ابرہیم ڈار کی تحقیقی نوعیت کی کتاب ہے جس پر ایک تجزیاتی مطالعہ ’’قدیم وجدید ادبیات ‘‘میں پیش کیا گیا ہے۔شوکت پردیسی جو بیسویں صدی کے ایک گم نام شاعر ہیں۔ ان کی شخصیت و شاعری پر ایک مضمون لکھا گیا ہے۔جس میں ان کی نظم نگاری اور غزل گوئی دونوں پر خوب بحث کی گئی ہے۔مصنف نے زبیر رضوی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ایک مضمون زبیر رضوی کی ادبی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے۔نور شاہ فکر اور فکشن کے حوالے سے اس کتاب میں ایک تجزیاتی مضمون قلم بند کیا گیاہے جس میں نور شاہ کی فکشن نگاری،کہانیوں اورانٹرویوزکا عمدہ تجزیہ کیاگیا ہے۔تیرواںمضمون ’’1960 کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستان تہذیب‘‘ کے بعنوان لکھا گیاہے۔ اردو ادب میں نظم نے ہر دور میں ترقی کی ہے۔ مضمون نگار نے 1960 کے بعد کے نظم نگاروں جن میں ضیا ہانی،کمار پاشی،نازش پرتاب گڑھی،نیاز حیدر، مظہر امام،مخمور سعیدی،زبیر رضوی، بلراج کو مل،چند بھان خیال،عنبر بہرائچی، گوپال متل،علی جواد زیدی،اجمل اجملی،سلام مچھلی شہری، معین حسن جذبی جگن ناتھ آزاد،مظفر حنفی اور انور جلال پوری وغیرہ کی نظم نگاری میں مشترکہ پہلو اور قومی یکجہتی کے فروغ پر گفتگو کی ہے۔’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ میں انھوں نے جہاں ایک طرف قدیم دور کے ادبی سرمایہ کا جائزہ لیا ہے تو وہیں دوسری طرف جدید دور کے ادبی سرمایہ کا بھی بہترین محاکمہ کیا گیاہے۔غلام نبی کمار نے مختلف اصناف ادب واہم شخصیات کے ساتھ ان کے ادبی کارناموں کو بھی بہت مفصل انداز میں تحریر کیا ہے۔اس کے بعد ایک مضمون ’’دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعراء: اکیسویں صدی کے حوالے سے‘‘ لکھا گیا ہے جس میں انھوں نے پس منظر کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جدید غزل گو شعراء کی شاعری کا جائزہ لینے کی عمدہ سعی کی ہے۔جن میںمختصر طور پرمخمور سعیدی،نثار احمد فاروقی،مظفر حنفی،زاہدہ زیدی،پروفیسر عتیق اللہ صادق،شجاع خاور،شاہد ماہلی،شہپر رسول،خالد محمود،محمد فارق ،رؤف رضا، کوثر مظہر،احمد محفوظ وغیرہ کے نام وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔پندرواں مضمون’’ جموں وکشمیر کی معاصر اردو شاعری اور چند اہم غزل گو شعراء کے حوالے‘‘ سے رقم شدہ ہے۔جس میں موصوف نے ریاست جموں وکشمیر میں عہد حاضر کے غزل گو شعراء کے کلام کوموضوع مقصد بنایا۔ کتاب میں بچوں کے ادب سے متعلق بھی ایک مضمون شامل کیا گیا ہے جس کا عنوان’’بچوں کے چند غزل گو شعرا‘‘ہے۔ جس میں بچوں کے لئے عہد حاضر کے غزل گو شاعر حافظ کرناٹکی جنھوں نے خود بچوں کے لئے سو سے زیادہ کتابیں اردو ادب میں لکھی ہیں۔پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس کے علاوہ بچوں کے دیگر غزل گو شعرا پر اچھی گفتگو ملتی ہے۔ ساحل مرتضیٰ کے شعر سے اپنی بات کی تصدیق کرتے ہیں:
بے ادب ہر جگہ ہے بے عزت
با ادب، با وقار، ہوتا ہے
اس کو اچھا کوئی نہیں کہتا
جو بار بار فیل ہوتا ہے
غلام نبی کمارنے مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ کے نام سے ایک مضمون قلم بند کیا ہے۔ نو جوان نظم نگاروں اور ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے آزادی کے بعد مشرقی پنجاب کے شعراء جس میں ساحر لدھیانوی،تلوک چند محروم،جوش،ملسیانی جگن ناتھ آزاد کے علاوہ اسلم حبیب ،سالک جمیل براڑ،وشال کھلر وغیرہ کا ذکرمشرقی پنجاب میں اردو نظم کو فروغ دینے کے حوالے سے کیا گیا ہے۔’’قدیم وجدید ادبیات‘‘ میں ’’اردو زبان میں سائنسی صحافت ‘‘ بھی ایک اہم مضمون ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے اردو اخبارات ورسائل میں سائنسی مضامین کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے قدیم دور سے لے کر جدید دور تک کے اخبارات ورسائل کے حوالہ جات سے اپنی بات کو واضح انداز میں سمجھایاہے۔اردو میں سائنسی مضامین اخبارات ورسائل میں شائع کر کے نئی نسل کو اس کی طرف متوجہ کرنااوران کے ذہنوں میں اردو میں سائنسی موضوع کی بے توجہی کو ختم کرنا ہے۔جس میں سر سید کے رسالہ تہذیب الاخلاق، خیر خواہ ہند،محب ہند،ماہ نامہ سائنس دہلی وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ایک مضمون’’ کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے‘‘ کے عنوان سے راقم ہوا ہے۔ کتاب نماجو رسائل و جرائد کی دنیا میں اہم و تاریخی مقام رکھتا ہے ۔جس کے بعض خصوصی شماروں کا مصنف نے باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے ۔نیز اپنے تجربات کو پیش کیاہے۔بیسواں مضمون انھوں نے ’’ذہن جدید اور زبیر رضوی ‘‘کے نام سے لکھا ہے۔یہ مضمون بھی قابل مطالعہ کہا جا سکتا ہے۔اکیسواں اور آخری مضمون ’’خواتین کی خود نوشتوںکے تجزیوں کا تجزیہ‘‘ کے حوالے سے تحریر کیاہے۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے مشہور ومعروف نقاد ادبی صحافی حقانی القاسمی کے رسالہ’’ انداز بیاں‘‘کے خواتین کی خودنوشتوں کے شمارے پر مشتمل و تجزیاتی مضمون کیا ہے۔موصوف کا یہ مضمون بھی کافی مؤثرہے ۔یعنی ’’قدیم وجدید ادبیات ‘‘رسم ِدنیا نبھانے کے لئے نہیںلکھی گئی بلکہ اردو ادب میں گرانقدر اضافہ کرنا مصنف کا مقصد ہے۔یہ کتاب قارئین کو بہت عمدہ معلومات فراہم کراتی ہے۔جس محنت اور عرق ریزی سے مصنف نے مختلف النوع مضامین اور موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی جستجو کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔