تنقید ایک مشکل فن ہے۔ اکثر تنقیدی مضامین کو پڑھنا اور اس پر کوئی رائے قائم کرنا وادیٔ سنگ لاخ میں سفر کرنے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ تنقید کو ایک خشک موضوع تصور کیا جاتا ہے اور قاری کے نذدیک تخلیق کار کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے نہ کہ تنقید نگار کی۔ہمارے اردو ادب میں جو تنقید لکھی گئی وہ انگریزی ادب کے زیر اثر پروان چڑھی۔اس سے قبل تذکروںمیں مثلاًآب حیات گلشن ہند،وغیرہ میں تنقیدی عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان میں وہ اصول و ضوابط نہیں ہیں جو انگریزی ادب کے زیر سایہ ہمارے ادب میں آئے۔آب حیات کے بعد حالی اور شبلی نعمانی جیسی شخصیات نے تنقید کی بنیاد رکھی۔اورکافی حد تک اس کے اصول و ضوابط مقرر کئے۔لیکن دور جدید میں جہاں ادب نئی کروٹیں بدل رہا ہے اور نئے نئے احساسات سے آشنا ہو رہا ہے۔ یہ دور جس میں سائنس اپنے پورے عروج پر ہے تو ایسے ماحول میںتخلیقات کے ساتھ ساتھ تنقیدی میدان میں بھی تبدیلیاں ہونا لازمی ہیں۔کیوں کہ اس دور میں سائنس کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے فن پاروں کو تخلیق کرنے اور تنقیدی مضامین لکھنے کی اشد ضرورت ہے تبھی ہماری تخلیقات نئی نسلوں کی ذہن نشین ہو سکیں گیں۔
غلام نبی کمار موجودہ دور میں ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو قدیم روایتوں کو جدید رنگ و آہنگ میں ڈھال کر نئی آنی والی نسلوں کی ذہن سازی کر رہے ہیں۔ان کے مضامین میںروایتی رنگ کے ساتھ ساتھ جدید دور کے میلانات کی بھی عکاسی ہے۔
غلام نبی کماری کی کتاب ’قدیم و جدید ادبیات‘ کو اگر تنقیدی و تحقیقی مضامین کا قوس قزح کہا جائے تو کسی بھی طرح غلط نہ ہوگا۔کیوںکہ موصوف نے اپنی اس کتاب میں مختلف تحقیقی و تنقیدی مضامین کی ایک ایسی حسین وادی آباد کی ہے جس سے منفرد رنگوں کا قوس قزح ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔
غلام نبی کمار کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی اس کتاب میں اپنے ایسے شاہکار مضامین جمع کئے ہیںجو کتابوں اور رسائل میںشائع ہو کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ساتھ ہی کچھ ایسے مضامین بھی ہیںجو انھوں نے علمی و ادبی سمناروں میں پڑھے ہیں ۔
جس طرح بارش ہونے کے بعد قوس قزح نمودار ہوکر اپنے رنگوں کو اپنے اطراف میں بکھیر دیتا ہے۔اسی طرح غلام بنی کمارکے مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے ذہن پر ان کے فن کے رنگ بکھرتے جاتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ موصوف اپنے قلم کی روشنی سے قوس قزح تعمیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔
’قدیم و جدید ادبیات‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ’قدیم و جدید ادبیات‘ ایک منفرد تحقیقی و تنقیدی مضامین کا شاہکار ہے۔ اس کتاب کا کمال یہ ہے کہ قاری اس کتاب کے مطالعہ سے لطف اندوز ہوتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ غلام نبی کمار ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں موصوف اپنے مضامین کے لئے اسی طرز تحریر اختیار کرتے ہے کہ خشک موضوع بھی ان کے قلم سے نکلنے کے بعد بڑے پر لطف معلوم دیتے ہیںاور قاری کو اپنے فن کے جادو میں گرفتار کر لیتے ہیں۔کیوں کہ موصوف کی یہ کتاب’تحقیقی و تنقیدی‘ مضامین پر مبنی ہے لہٰذا ’تحقیقی و تنقیدی‘ نقطۂ نظر سے اس کتاب کو پرکھنے اور سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔جس سے واضح ہو سکے کہ موصوف کس حد تک اپنے فن میں کامیاب ہیں۔
یہ بات اہل ادب پر واضح ہے کہ امیر خسروؔ کا شمار ایسے شعراء میں کیا جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا۔انھوں نے خوداپنی زندگی میں بیشتر کتابیں ترتیب دے دیں تھیں۔اپنے پانچ دیوانوں میں طویل دیباچے خود اپنے قلم سے تحریر کئے۔خود انھیں اپنی زندگی میں اپنی شہرت اور قدر و منزلت کا ندازہ ہوگیا تھا۔غلام نبی کمار کی کتاب میں سب پہلا مضمون ’’امیر خسروؔ کی غزلیہ شاعری‘‘ ہے یہ ایک دستاویزی مضمون کی حیثیت کا حامل ہے۔جو قاری کے لئے نئے نئے تحقیق کے دروازے وا کرتا ہے۔ موصوف اپنے اس مضمون میں امیر خسروؔ کی غزلیہ شاعری پر روشنی ڈالتے ہیں۔اور ان کی غزلوں کی خصوصیت کی بنا پر ان کے فن کو الگ لگ زاویے سے پر کھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔موصوف کا یہ مضمون پڑھنے کے بعد امیر خسروؔ کی غزلوں کے منفرد رنگ قاری کے ذہن پر چھانے لگتے ہیں۔اور انھیں امیر خسروؔ کے کلام کی گہرائی اور گیرائی سے آشنائی ہوتی ہے۔اس کتاب میں قاری کی ’’مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری ‘‘ کے عنوان سے ایک اہم تحقیقی مضمون بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جس میں ان خطوط کا ذکر ہے جو مولانا نے علم دوست شخصیت،اردو شناس اور معروف جرمن مستشرق اسپرنگر (Aloys Sprenger) کو لکھے تھے۔ یہ خطوط کئی پہلوئوں سے اہم لائق مطالعہ ہیں ۔علاوہ از ایں یہ خطوط مولانا کی اردو کی بے تکلف ذاتی تحریر کا پہلا دستیاب نمونہ کہے جاسکتے ہیں۔نور الحسن راشد کاندھیلوی کے مطابق انہیں خطوط سے اس دور کی بعض نادر معلومات اور علمی سرگرمیوں کا بخوبی علم ہوجاتاہے۔
اس کتاب کا تیسرا شاہکار مضمون’’اردو میں مومن ؔ شناسی کی روایت‘‘ ہے۔موصوف نے اپنے اس مضمون میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مومن ؔہمارے اردو ادب کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔لیکن کہیں نہ کہیں ان کے فن و شخصیت پر اتنا کام نہیں کیا گیا جتنا میرؔ،غالبؔ،انیسؔ،اقبالؔ پر ملتا ہے۔اس لئے ہمیں اپنے اس عظیم فنکار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ اور مومن شناسی کے لئے از سر نو نئے باب رقم کرنے پر زور دیں۔اس کے بعد ’’سرسید کے سماجی افکار کی عصری معنویت‘‘ ایک اہم مضمون دیکھنے کو ملتا ہے۔اس مضمون میں مصنف کی سرسید احمد خاں سے سچی محبت اور عقیدت کی جھلک ملتی ہے۔وہ سرسید کے اصلاحی کاموں کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں مختصراً سرسید ملکی اور قومی خدمات کا احاطہ ہو جاتا ہے۔سرسید کے نذدیک محبت ،بھائی چارہ، ایکتا یگانگت کی بہت اہمیت تھی۔ جدید تعلیم اور خاص طور سے سائنس علوم و فنون کی ترویج کے لئے سرسید نے کافی اہم کام انجام دئے۔اس مضمون میں اس بات پر بھی روشنی دالی گئی ہے کہ کس طرح سر سید کی مخالفت ہوئی پھر لیکن بھی وہ سماج کی اصلاح اور تعلیمی کاموں سے جڑے رہے۔کیوں کہ وہ ایک حساس دل رکھتے تھے۔انھوں خود کو ملک اور قوم کی ترقی کے کاموں کے لئے وقف کردیا تھا۔
کتاب میں اگلا مضمون ’’داغؔ کی مثنوی نگاری فریاد داغ کی روشنی میں‘‘ یہ بھی ایک الگ نوعیت کا مضمون ہے۔جس میں داغؔ کی مثنوی نگاری پر بحث دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ مضمون اس لحاظ سے بھی اہم ہو جاتا ہے کیوں کہ داغؔ کی شاعری کا بڑا سرمایہ غزلیات پر مبنی ہے۔لیکن داغؔ نے دیگر اصناف سخن میںبھی طبع آزمائی کی ہے۔جس میں ان کی مثنوی بھی شامل ہے۔داغؔ کی مثنوی کو پڑھنے کے بعد ان کی شاعری ایک منفرد رنگ دیکھنے کو ملتا جو ان کو اپنے ہم عصر شعراء میں الگ پہچان دلتا ہے۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو ادب کی ایک اہم شخصیت ہیںوہ غالبؔ کے شاگرد بھی ہیں اور سر سید احمد خاں کے رفقاء میں شمار کئے جاتے ہیں۔وہ سچّے محب وطن اور قوم و ملت کا درد سنیے میں رکھتے تھے۔ کتاب میں شامل مضمون’’رباعیات حالیؔ میں قومی اصلاح‘‘ جہاں حالیؔ کی رباعیات کی خصوصیات کو آشکار کرتا ہے۔وہی ان کی قوم سے سچّی عقیدت و محبت اور اصلاحی تدبیروں کو بھی واضح کرتاہوا نظر آتا ہے۔
غلام نبی کمار اپنی اس کتاب میں اردو ادب اوررسائنس کے تعلق سے بھی ایک مضمون شامل کیا ہے ۔کتاب میں شامل ان کا مضمون’’ اردو زبان میں سائنسی صحافت :صورت ِ حال،تقاضے اور امکانات ‘‘ ایک منفرد رنگ کا شاہکار مضمون ہے۔جہاں وہ اپنے اس مضمون میں اردو صحافت کا تاریخی خاکہ پیش کرتے ہیں۔وہی اس کی صورتِ حال اور مستقبل کے تقاضوں کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ساتھ ہی سائنسی صحافت سے متعلق اہم نکات پربھی روشنی ڈالتے ہیں۔کہ کس طرح ماضی میں سائنسی مضامین اور دیگر زبانوں سے ان کے تراجم ہو کر ہماری اردو صحافت کی زینت بنے۔وہ اس بات کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ کس طرح1857ء سے لے کر ملک آزاد ہونے تک ہمارے رسائل،جرائد،اور اخبارات میں سائنسی مضامین کو فروغ ملا اورہماری اردو صحافت کن کن مراحل سے گزری۔مختلف زبانوں کے تراجم اردو اخبارات میں شائع ہوئے،ماحول،صحت،جغرافیہ،طبعی،غذائی،امراض،آلودگی،شکاریات،نباتات،ریاضی،قدرتی فلسفہ وغیرہ سے متعلق مضامین اخبارات میں شائع ہوئے۔یہ وہ دور تھا جب ہمارا ادب مغربی ادب کے زیر اثر پروان چڑھ رہا تھا۔سرسید احمد خان کی کوششوںکے سبب سائنس کو بہت فروغ ملا۔انھوں نے سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد غازی پور میں رکھی ان کا یہ قدم سائنسی صحافت کے میدان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔سرسید بخوبی جاتے تھے کہ سائنس کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔اس مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری کو بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ دور حاضر میںاردو زبان میں سائنسی صحافت کی کیا صورت حال ہے۔
اس کتاب میںمختلف رنگوں منفرد موضوعات پر مضامین شامل کئے گئے ہیں۔جو اس کتاب کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔جموں کشمیر کی معاصر اردو شاعری کے حوالے سے مضمون’’جموں و کشمیر کی معاصر اردو شاعری‘‘ایک اہم تخلیقی مضمون ہے جس میں جموں کشمیر میں اردو شاعری کے موجودہ منظر نامے کو پیش کیا گیا ہے۔ادب اطفال سے متعلق مضمون’’ بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گوشعرا: اکیسویں صدی میں‘‘ ان شعرا کے کلام پر روشنی ڈالتا ہے جنھوں نے بچوں کی اخلاقی تربیت اور ذہنی نشونما کے لئے نظمیں لکھیں ۔
اس کے علاوہ اس کتاب میںاور بھی بہت سے شاہکار مضامین ہیں مثلاً ’’ افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فن کار :بلونت سنگھ،پروفیسر ظہیر احمد صدیقی: حیات و خدمات،مقالات پروفیسر محمدد ابراہیم ڈارؔ:ایک تجزیاتی مطالعہ،شوکتؔ پردیسی: شخصیت اور شاعری،زبیرؔ رضوی کی ادبی خدمات،نور شاہ۔فکر اور فکشن: ایک تجزیاتی مطالعہ،1960کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب،دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعرا،مشرقی پنجاب میںاردونظم کا حالیہ منظر نامہ،کتاب نما اوربعض اہم خصوصی شمارے،ذہن جدید اور زبیر رضوی،خواتین کی خودنوشتوںکے تجزیوں کا تجزیہ۔‘‘کافی اہم ہیں۔
الغرض یہ کتاب اپنے دامن میں مختلف رنگوں کے مضامین سمیٹے ہوئے ہے۔غلام نبی کمار کی تخلیقات کی یہ قوس قزح صرف صف قرطاس تک محدود نہیں رہتی بلکہ قاری کی ذہن پر بھی اثر چھوڑتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...