(Last Updated On: )
قدیم و جدید ادبیات (تحقیقی و تنقیدی مضامین) از غلام نبی کمار نامی ایک خوبصورت گلدستہ موصول ہوا۔ کتاب کے مصنف غلام نبی کمار ہیں جن کے بارے میں پروفیسر ارتضی کریم لکھتے ہیں:
’’غلام نبی کمار وہ نوجوان ادیب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ہی چونکا دیتے ہیں یعنی غلام نبی کمار ۔۔اسی طرح وہ اپنی تحریروں کے تعلق سے بھی پڑھنے والوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ غلام نبی کمار کو غلام ِادب بننا ہے اور غلام کو اپنے آقا یا مالک کی بڑی خدمت کرنی پڑتی ہے تاکہ اس کا مالک یا آقا ا س سے خوش ہوسکے ۔‘‘
واقعی غلام نبی کمار اردو ادب کی تن من دھن سے خدمت کر رہے ہیں ۔غلام نبی کمار وادی کشمیر کے معروف علاقہ چرار شریف کی پر سکون فضا کے مکین ہیں ۔ایم فل کرکے اب پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ یو جی سی نیٹ کرکے فارغ ہوئے ہیں۔ تین کتابیں جن کی آمد متوقع ہے کے ساتھ ساتھ مختلف سہ ماہی اور ماہ ناموں سے وابستہ ہیں ۔مختلف اعزازات سے سرفراز کئے گئے ہیں اور میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ابھی تو جوان ہیں آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ آنے والے ایام میں یہ نوجوان ادیب و خادم ِاردو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے اور ہماری تہذیبی و ثقافتی زبان اردو کی مزید خدمت انجام دے سکتا ہے۔
غلام نبی کمار کامختصر تعارف کرانے کے بعدکتاب ھٰذا پر بات کرنا اصل مقصد ہے اور جب راقم نے ’’قدیم و جدید ادبیات‘‘ کو ہاتھوں میں لیا،مکمل پڑھے بغیر قرار ہی نہیںآیا۔
نور شاہ اس کتاب کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ:
’’ کتاب میں شامل مضامین نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے کیونکہ یہ مضامین تحقیق و تنقید کے میزان پر پوری طرح کھرے اترتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر مغیث احمد رقم طراز ہیں:
’’غلام نبی کمار کے مضامین اور ان موضوعات کو دیکھ کر ذہن میں اردو ادب کے ایک سپاہی کا ہیولیٰ متصور ہوتا ہے جو محنتی و مخلص ہونے کے ساتھ ہر طرح کی ادبی لابیوں سے دور مفاد پرستی سے ماورا اور تنازعات سے دور رہ کر سرگرم عمل ہے ۔‘‘
کتاب کے بارے میں خود مصنف لکھتے ہیں:
’’قدیم و جدید ادبیات میرے تحقیقی و تنقیدی مضامین کی پہلی کتاب ہے جس میں مختلف موضوعات کے تحت 21؍مضامین شامل ہیں جو نہ کسی کی ستائش میں لکھے گئے ہیں اور نہ کسی کی فرمائش پر بلکہ ان موضوعات کے ساتھ میری ذاتی انسیت رہی ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’اردو ادب میں بہت سارے ادیب ایسے گزرے ہیں جن کی تحریریں بعض اسباب کی بناء پر رسائل و جرائد ہی تک محدود رہیں۔جن کی اشاعت کبھی کتابی صورت میں بھی ممکن نہ ہوسکی ۔یہاں پر میری مراد صرف انہی افراد سے ہے جن میںعلمی و ادبی صلاحیت تھی، جن میں سماجی معاشرتی شعور تھا، جن میں ادبی تحریروں کی پرکھ اور اس کی پہچان تھی، جن میں علم و ادب کا مادہ تھا ،جو حقیقت شناس اور ادب پرست تھے ،جن کی تحریروں میں علمی ادبی فکری بصیرت تھی لیکن افسوس ان کی تحریریں رسائل و جرائد کے اوراق میں ہی دب کر رہ گئیں اور جنہیں کبھی منظر عام پر لانے کی جستجو تک نہیں کی گئی ۔اس صورت حال سے بہت سارے ادیب آج بھی جوجھ رہے ہیں۔ اگر اردو زبان و ادب میں کوئی تحریر اضافے کا باعث بنتی ہو اور اس سے مستقبل میں نوجوان نسل کی رہنمائی ہوتی ہو تو اس کے منصہ شہود پر آنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘
ہلکا پھلکا یہ سمجھنا ہے کہ اردو زبان سے تعلق رکھنے والے جو بھی حضرات ہوں خواہ ان کی تحریریں اب ناپید ہی کیوں نہ ہوں گر ان کے منصئہ شہود پر آنے سے اردو زبان و ادب میں کسی بھی طرح سے فائدہ ہو تو ایسی ہر تحریر کو منظر عام پر لانے کی جستجو کرنا لازمی ہے کیوں کہ اردو زبان و ادب ہی ہمارے کلچر، ہمارے سماج اور ہمارے نظریہ کا پاسبان ہے جس میں ہزاروں لاکھوں کتابیں ہیں جن کے بارے میں جاننا لازم ہے تاکہ ہم اپنے ماضی کے جھروکوں سے اپنے مستقبل کا تعین کرسکیں اور اپنی راہ میں آنے والے مشکلات کا تدارک کرنے میں آسانی ہو ورنہ جو بھی اقوام اپنی زبان و ادب کو تھام کر جینے سے جی چرا لیتے ہیں یقینا وہ تباہی و بربادی کا ہار گلے کی زینت بنا لیتے ہیں۔اردو زبان و ادب میں جن کی محنت اور کاوشیں قابل ذکر ہیں ،جن کی خدمات اردو زبان و ادب میں نہایت اہم ہیں صاحب کتاب انہیں اشخاص سے مختصر تعارف کرانے کی تگ و دو میں مصروف العمل نظر آتے ہیں ۔کتاب میں جس میں قارئین کو غزل، نظم ،افسانہ، مثنوی، تحقیق ،رباعی ادبی صحافت اور شخصیات کا مختصر خاکہ مضامین کی صورت میں پڑھنے کو ملیں گے۔اس کتاب میں بالکل منفرد موضوعات ہیں جن سے قارئین مختلف قسم کے نظریات سے آشنا ہوں گے ۔ کتاب کے اول الذکر مضمون کے بارے میں ڈاکٹر انوار الحسن رقم طراز ہیں کہ وہ خود بھی آنسو بہاتے ہیں تو دوسروں کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کر دیتے ہیں، ہنستے ہیں تو دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں رومانی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں تو دوسروں کو بھی وہیں کھینچ لاتے ہیں ۔ان کا رومان اور تغزل ماورائی نہیں بلکہ اسی آب و گل کا رومان ہے اردو تغزل بھی صحیح معنوں میں تغزل ہے مراد ہے امیر خسرو ۔غلام نبی کمارنے امیر خسرو کی غزلیہ شاعری کے موضوع سے اپنی کتاب کی ابتدا کی ہے اول موضوع ہی اس شخصیت کے بارے میں ہے جن کی غزل و نظم نے اردو شاعری میں کمال پیدا کیا جن کی شاعری بہت پاکیزہ اور اعلیٰ ہے ۔اس میں شک نہیں کہ وہ اول درجے کے صوفی شاعر ہیں جن کی شاعری میں محبت و اخوت، عشق و شادمانی کا رنگ غالب ہے ۔ان کے بارے میں مختصر سوانحی خاکہ اور ان کی شاعری کی مختصر جھلک نظر آتی ہے۔ اسی مضمون کے بعد دہلی کالج کے نامی گرامی استاد مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگارپر گفتگو کی گئی ہے۔ جن خطوط کے بارے میں اسی کتاب کے اوراق میں راشد کاندھلوی تجزیہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیںکہ ان خطوط سے جو ایک اور بڑی بات معلوم ہوتی ہے اور خاص رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اکابر اور بڑے علماء علمی بلکہ دینی معلومات میں کبھی ذہنی تحفظات اور تعصب سے بہت دور تھے ۔اس مضمون میں مولانا مملوک العلی کے خطوط کے ساتھ ساتھ مختلف باتیں معلومات میں اضافہ کرتی ہیں،مولانا مملوک العلی کے خطوط کے بعد ’’اردو میں مومن شناسی کی روایت‘‘ اور’’سر سید کے سماجی افکار کی عصری معنویت‘‘ جس میں سر سید احمد خان کے بارے میں عمدہ تنقیدی گفتگو کی گئی ہے۔اس کے بعد ’’داغ دہلوی کی مثنوی نگاری: فریاد داغ کی روشنی میں‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس کے بعد رباعیات حالی کا موضوع لیا گیا ہے جس میں حالی کا تعارف اور ان کی رباعیات کے بارے میں جانکاری ملتی ہے یہ وہی حالی ہیں کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ حالی انسان کے کام کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ بغیر کام کے زندگی بے معنی ہوجاتی ہے اگر جینا ہے تو کام کیجئے زندوں کی طرح مردوں کی طرح جئے تو کیا خاک جئے ،کاہلی و سستی کی بھی انہوں نے سخت مذمت کی ہے۔
فاضل مصنف نے ’’افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فن کار ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے۔ جس میں بلونت سنگھ کے افسانوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، پھر مختلف شعراء اور افسانہ نگار حضرات کے بارے میں جانکاری ملتی ہے ۔’’ نور شاہ :فکر و فکشن ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ پر رقم طراز ہیںکہ نور شاہ فکر و فکشن کے مضامین اگرچہ نور شاہ کی ناول نگاری پر مرقوم ہیں تاہم ان میں نور شاہ کی ناول نگاری کی تمام جہتیں روشن نہیں ہوتیں ۔اس میںنور شاہ کی ناول نگاری، ان کی اردو کے تئیں خدمات کے بارے میں جانکاری فراہم کی گئی ہے۔
’’1960 کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب ‘ میں مصنف رقم طراز ہیں کہ اردو زبان اپنے تشکیلی دور سے لے کر عروج تک اور عروج سے لے کر موجودہ دور تک کسی بھی سطح پر ہندوستانی ماحول معاشرے اور مشترکہ مزاج اور سماج سے بے نیاز نہیں ہوئی ہٹ اردو ابتداء ہی سے سب کے ساتھ مل کر اور سب کو ساتھ لے کر چلتی رہی ہے اس کے مزاج اور خمیر ہی میں یہ بات شامل ہے ۔اس کے تشکیلی عناصر ہندو مسلم ہندی اور ہندوستانی ہیں یہ اخوت و محبت کی زبان ہے اور اتحاد و اتفاق کی علامت بھی ۔اس مضمون میں صاحبِ مضمون نے اردو زبان و ادب کا ہندوستان میں ایک خاکہ پیش کیا ہے جو آپسی محبت و اخوت کے بارے میں ایک قابل ذکر کاوش ہے۔’’قدیم وجدید ادبیات‘‘میں ’’جموں و کشمیر کی معاصر اردو شاعری اور چند اہم غزل گو شعراء‘‘ کے موضوع پر بھی کامہ فرسائی ہوئی ہے۔جس کی ابتدا میں لکھتے ہیں کہ اگر جموں و کشمیر میں اردو شاعری کے موجودہ منظر نامے کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال قدرے بہتر طور واضح ہوجاتی ہے یہاں تینوں خطوں جموں و کشمیر اور لداخ میںاردو کی مختلف شعری اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے شعراء کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔اس میں مصنف نے مختلف شعراء جن کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے کے بارے میں تحقیقی مضمون نظر قارئین کیا ہے جن میں حامد ی کاکشمیری ،فاروق نازکی ،رفیق راز، پرتپال سنگھ بیتاب وغیرہ خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے اور اس صنف سے جڑی مختلف شخصیات کے بارے میں مضمون میں جان پیدا کرنے کے لئے ان شعراء کے کلام کی ہلکی پھلکی جھلک بھی ملتی ہے جس کے سبب ایک قاری کو مضمون میں لذت و چاشنی سے بھر پور علم و ادب کا سنگم دکھتا ہے ۔’’ بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گو شعراء (اکیسویں صدی میں) ‘‘ مضمون اپنی شاندار وسعت کے ساتھ قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں نمایاں ہے اور وہی میرے ساتھ بھی ہوا کہ مضمون کے موضوع پر نظر پڑھتے ہی دل خوشی سے جھومتا رہا کہ اطفال کے شعراء کرام اس میں مختلف شعراء کی کاوشوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ہلکی پھلکی جھلک بھی ملتی ہے۔ ان کی تخلیقات کی اس صنف ِشاعری یا نظم لکھنے کے لئے بزرگ اور نوجوان شعراء کو بھی بچپن کے خیالوں میں رہنا پڑتاہے ۔کیونکہ معصوم بچے سنجیدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں سنجیدگی سمجھ آسکتی ہے ۔ان کی اپنی دنیا ہوتی ہے ۔اپنے خیالات و خواہشیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں لکھنا انتہائی نازک اور حساس ہوتا ہے ۔جیسے کہ اس مضمون میں ساحل مرتضیٰ کے یہ دو شعر مجھے پسند آئے:
بے ادب ہر جگہ بے عزت
با ادب باوقار ہوتا ہے
اس کو اچھا کوئی نہیں کہتا
جو بار بار فیل ہوتا ہے
مطلب بچوں کی نفسیات کے مطابق ان کی تربیت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں نصیحت آموز باتیں بتلانا، اس مضمون میں بھی صاحب مصنف نے اپنا وہی طریقہ برقرار رکھا ہے کہ شعراء کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اس فن کی اونچ نیچ کے ساتھ ساتھ مضمون میں ہلکی پھلکی شاعری کو بھی شامل کیا ہے۔ اس کتاب کے آخر پر مصنف محترم نے ’’خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ‘‘ مضمون تحریر کرکے خواتین کی خدمات کا اعتراف کیا ہے جس میں خواتین کی خود نوشت سوانح حیات کے بارے میں جانکاری ہے اور اس سلسلے میں مختلف ادیب حضرات جنہوں نے اس حوالے سے کام کیا ہے سے متعلق جانکاری بھی ملتی ہے ۔نیز خواتین خود نوشت سوانح حیات کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی اس بارے میں بھی راقم نے تحقیق کی ہے عربی اور مغربی خواتین کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔
کتاب اتنی ضخیم بھی نہیں ہے اگر قاری کا من لگ جائے تو آرام سے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں مکمل کرسکتا ہے ۔کتاب کی جو خاص تخلیق مجھے اچھی لگی وہ ہے بچوں کے بارے میں اردو شعراء کی خدمات اور مصنف کا خوبصورت انداز تحریر ۔جس میں جگہ جگہ آپ کو احساس ہوگا کہ مصنف موصوف نے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنے کے باوجود انتہائی ہمت و محنت سے کام لے کر یہ تحقیقی و تنقیدی ادب پارہ منظر عام پر لایا ۔اردو زبان و ادب کے افق پر یہ ایک بہترین تحقیق کہی جاسکتی ہے جس میں ہر صنف پر بات کی گئی ہے ۔دوران مطالعہ گرچہ کچھ جگہوں پر قلمی غلطیاں بھی پائی گئی پر مجموعی طور پر ایک عمدہ اور پرمغز کتاب ہے۔ اردو زبان و ادب سے وابستہ اشخاص و طلبہ اس سے بہتر انداز میں استفادہ کرسکتے ہیں ۔میری التماس ہے کہ غلام نبی کمار کی اس کاوش سے استفادہ کیا جائے اور مصنف محترم کے لیے کہ وہ اپنے قلم کی نوک کو ہمیشہ کام میں لگائے رکھیں اور خوب سے خوب وسعت علمی سے کام لے کر ایسی ہی شاندار اور عمدہ تخلیقات سے قوم و ملت اور اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہیں۔
٭٭٭
“