قدیم ایرانیوں کی لکھی گئی کتابیں
ساسانی عہد میں نویشرواں نے شامیوں کی مدد سے 550ء میں ایک جند شاپور میں ایک درس گاہ کھولی۔ جو کہ عباسیوں کے دور تک جاری رہی۔ عیراقی شہر حران میں بھی درس گاہ تھی۔ جہاں بت پرستوں نے ریاضی اور ہیت بابلی اور شامی علوم کی درس گاہ قائم تھے۔ اس درست گاہ سے فیض یافتہ ہمیں عباسی دور تک مثلاً یوحنا بن ماسویہ وغیرہ حرانی عرب تھے نظر آتے ہیں۔ یعنی سکندر کے بعد دس صدیوں تک ہمیں مدرسہ جند شاپور اور حران کے سوا کوئی علمی مرکز نہیں ملتا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ ایرانیوں نے جنگ و جدل اور تعیش میں پرکر علم و حکمت میں حصہ لینا پسند نہیں کیا۔
ساسانی دور کا جو قدیم ایرانی لٹریچر عربوں تک پہنچا ہے اور عربوں کے ترجمہ کی بدولت بچ گیا وہ خدائے نامہ جو شاہنامہ کا اہم ماخذ ہے، ’آئین نامہ’، ’سکیران’، ’تاریخ دولت ساسانی’، ’کتاب مزدک’، ’کتاب سند باد’، ’کتاب برسناس’، ’کتاب شیراس’جو اب بھی یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ اس کے وہ اجزا و رسائل جو عہد اسلام تک موجود رہیں اور ان کے نام اور تفصیلات عہد اسلامی مورخوں نے اسلامی مورخوں نے اپنا ماخذ قرار دیا ہے ان میں ’شہرادد پرویز’(ارد شیر کی خود نشت وقائع)، ’کارنامہ نوشیرواں ’، ’مزوک نامہ’، ’بہرام و نرسی نامہ’، ’کتاب التاج’، ’کارنامہ اردشیر بابکان’(شاہنامہ کا ایک اہم ماخذ)، ’جاماسب نامہ’، ’آئین بہمن’، ’داراب نامہ’، ’دانش افزائے نوشیروانی’مولفہ بررگ مہر (برزچمہر) ’پاستان نامہ’، ’دانشور نامہ’، ’خرد نامہ’اور اس نوعیت کی اور دوسری کتب تھیں جن کی تعداد ستر کے لگ بھگ تھیں۔ یہ کتب عہد غزنوی تک ایران میں عام تھیں۔ مورخین جن میں طبری، مسعودی، دینوری، یعقوبی، حمزہ اصفانی ابومعشر، موسی ابن عیسیٰ الکسروی اور ابن حوقل نے استفادہ حاصل کیا۔
شاہنامہ فردوسی جس کو ہم افسانہ سمجھتے ہیں لیکن یہ مثنوی زیادہ تر پہلوی تصنیف ’کارنامگ ارتخشتر بابکان’(کارنامہ اردشیر ابکان) اور خدائے نامک سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب کا اصل پہلوی متن نایاب ہے لیکن ابن المقفع اور دوسرے پانچ یا چھ افراد عربی میں اس کا ترجمہ کرچکے ہیں۔ کارنامگ ارتخشتر بابکان غالباً یزدگر کے عہد میں تصنیف ہوئی تھی۔ اس طرح کارنامہ اردشیر غالباً 600ء میں تصنیف کی گئی تھیں اور اس کا پہلوی متن دستیاب ہے۔ ان کتابوں میں جمشید، ضحاک، فردیدوں، زال و رستم، ہفتخوان اسکندر و دارا کی بے تکی کہانیاں نہایت مبالغہ سے درج کی گئیں ہیں۔ مسلم مورخین نے ان کتابوں سے یہی داستانیں نقل کی ہیں۔ ان میں عجیب و غریب باتیں مثلاً ہزار ہزار سالوں کی عمریں، جن و شیاطین کا بادشاہوں کے تابع ہونا درج ہے۔ البیرونی نے لکھا ہے کہ ایرانیوں کی تاریخ میں بادشاہوں عمریں اور ایسے کارنامے درج ہیں جن کے سننے سے دل اکتا جاتا ہے کان گوارہ نہیں کرتے ہیں اور عقل قبول نہیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے ایرانی تاریخ معتبر نہیں سمجھی جاتی ہے اور اس کی نسبت یونانی بیانات زیادہ معتبر سمجھے جاتے ہیں اور یہ سب کتابیں ساسانی عہد کی تصنیف نہیں ہیں اور ان میں سے بہت سی کتابیں اسلامی عہد میں تصنیف کی گئی اور یہ سلسلہ آٹھویں ہجری تک جاری رہا۔
پروفیسر کرسٹین لکھتے ہیں پہلوی زبان کی تقریباً زرتشتی مذہبی کتابیں اور آج بھی موجود ہیں ساسانیوں کے زمانے کے بعد کی تصنیف ہیں اور خاص کر یہ نویں صدی عیسویں میں علمائے زرتشت نے لکھیں ہیں۔ زرتشتی مذہب کی وہ کتابیں جو اوستا میں لکھی گئیں اور ساسانی اوستا کہلاتی ہیں دوسری ژند کتب پہلوی کا ترجمہ اور شرح ہیں۔ جب کہ اوستا ساسانی عہد کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان اکیس گمشدہ نسکوں کا خلاصہ پہلوی کتاب دین کرد کی آٹھویں اور نویں جلد میں دیا گیا ہے۔ ژند کے جو حصہ باقی بچے ہیں ون میں اور پہلوی کتب دینی میں ان کے شارحین کے نام ابہرگ، ماہ گشناسب، گوگشناسب، کے آذر بوزیذ، سوشینس، روشن، آذر ہرمزد، آذر فربگ نرسی، میذوگ ماہ، فرخ، افروغ اور آزاد مرد درج ہیں۔ ان میں سے اکثر غالباً عہد ساسانی کے آخری عہد میں گزرے ہیں۔
ان میں کتاب ’داوستان مینوگ خرد’(تعلیم عقل انسانی) جو غالباً ساسانی عہد کے آخر میں لکھی گئی تھی موجودہ شکل میں ساسانی عہد کے بعد وجود میں۔ ’رویای ارواگ وراز کتاب’بھی ساسانی دور کی ہے اور ان سب سے اہم ’دین کرد’ہے۔ کتاب بندشن جس میں ساسانی اوستا اور ژند کے ان حصوں کا خلاصہ ہے جن میں مسلہ آفزاینش، اساطیر، علم کائنات اور تاریخ طبیعی کے متعلق ہے۔
پہلوی میں قانون کی کتاب ’مادیگان ہزار دادستان’(ہزار فیصلوں کی روئداد) جس کا پچپن صفحے محفوظ ہیں۔ ایک کتاب ’مادیگان’میں چند قانون دانوں کے آرا درج ہیں اور ان کے نام بھی محفوظ ہیں۔ ایک کتاب ’دست وران’بھی عہد ساسانی کی کتاب ہے اور اس کا سریانی ترجمہ ملتا ہے
ساسانی عہد کے آخری حصہ میں نظری اور عملی اخلاق پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں جن کو اندرز یا پند نامگ کہا جاتا تھا۔ یہ تاریخی یا افسانوی اشخاص کے طریقہ، عمل اور حکیمانہ اقوال ہیں۔ ان میں سے چند پہلوی کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ ان میں ’اندرز حکیم اوشز’، ’اندرز خسرو اول پسر کواد یا اندرز خسرو کواذان’، ’اندرز آذربد مہر سپندان’، ایک کتاب ’پند نامہ زردشت’۔ ایک کتاب ’اندوز وزرگ’جس میں بزرگ مہر کے وعظ درج ہیں۔ جو عربی میں بزر جمہر لکھا جاتا ہے۔ اس افسانوی شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خسرو اول انوشیروان کا وزیر تھا۔ جو غالباً نویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اور اس میں دزرگ مہر کی نصحتیں ہیں جو کتاب ’کلیلگ و دتنگ’(کلیہ و دمنی) کا دیباچہ موجود ہے۔ اس کتاب کو برزویہ نے سنسکرت کی پنچ تنترا سے ترجمہ کیا تھا اور یقینا اندزز کی قدیم تر کتابوں سے لی گئی تھی۔ کھیلوں اور تفریح کے متعلق ایک پہلوی کتاب ’خسرو کواذان و ریذگی’(خسرو پسر قباد اور اس کا غلام) ملتی ہے ایک کتاب ’مادیگان چترنگ’(قصہ شطرنج) میں ساسانیوں کی کہانیاں ہے۔ ایک کتاب ’شہر ستانہائے ایرانشہر’ایران کے شہروں کو آباد کیے جانے کے مختصر حالات ہیں۔
یہ کل کتابیں ہیں جو ایرانیوں نے لکھی تھیں اور ان میں سے بشتر عربوں کی آمد کے بعد دسویں صدی تک لکھی جاتی رہی ہیں گئی تھیں اور اب بھی بشتر دستیاب ہیں۔ اگر عربوں نے ان کے علوم کو مٹانے کی کوشش کی تھی تو ان کے دور میں یہ کتب کیون لکھی جاتی رہی ہیں۔ پروفیسر براؤن کا کہنا ہے کہ برہمنون اور قرون وسطی کے مسیحی پادریوں کی طرح علوم ایرانی موبدوں اور دوسرے مذہبی پیشواؤں تک محدود تھے اور ساسانی حکومت کے زوال کے زمانہ تک موبدوں کی غفلت کی وجہ اکثر غیر مذہبی و عقلی علوم کے ساتھ اوستا کے فلسفیانہ و حکیمانہ اجزاء کو مٹا دیا۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...