ایک ہڈی کی دریافت یہ تجویز کرتی ہے کہ انسان 120،000 (ایک لاکھ بیس ہزار) سال پہلے ہی اپنے پہننے کے لیے کپڑے تیار کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں نے مراکش کے ایک غار میں کہ لباس کی تیاری کا ابتدائی ثبوت پایا ہے جو 120،000 سال پرانا ہو سکتا ہے ۔
لباس پہننا اور ان کے ماخذ کو مدنظر رکھنا شائد کسی کے لیے آسان ہوسکتا ہے ، کیونکہ ایک دور وحشت کے بعد سے نئے دور کے آغاز میں انسانوں کا لباس پہننا جدید دنیا میں آج ایک مہذب انسان ہونے کا مطلب ہے اور آج کل کی جدید معاشرت کا ایک لازمی حصہ ہے۔
جرمنی میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومن ہسٹری سے تعلق رکھنے والی ماہر بشریات، ایملی ہیلیٹ Emily Hallett ہیں ، جنہوں نے حال ہی میں مراکش کی اس دریافت پر ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا، انہوں نے اس حالیہ نئی دریافت کو بالکل بھی ہلکے معنوں میں نہیں لیا۔
ہیلیٹ ، محققین کی ایک ٹیم کے ساتھ ، مراکش کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر ایک اہم آثار قدیمہ کی جگہ” کونٹریبینڈرز غار Contrebandiers Cave ” میں پائے جانے والی ہڈیوں کے ٹکڑوں کی تحقیقات کر رہی تھیں۔
اس سائٹ پر پائے جانے والے تقریبا 12،000 ہڈیوں کے ٹکڑوں میں سے ، ہیلیٹ نے 60 سے زیادہ مختلف جانوروں کی ہڈیوں کی نشاندہی کی جنہیں انسانوں نے بطور اوزار استعمال کیا تھا۔ ہڈیوں پر کٹے ہوئے نشانات کے نمونے دوسرے آثار قدیمہ کے مقامات سے ملنے والے اوزاروں سے ملتے ہیں جو چمڑے پر کارروائی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
ہیلیٹ نے سائنس الرٹ (جس ویب سائٹ میں یہ مضمون شائع ہوا) کو بتایا ، “چمڑے اور کھال ، جن سے قدیم انسان کپڑے بناتے تھے، جیسے نامیاتی مواد کے پرانے اور قدیم زخائر کو کو ان کی اصلی حالت میں محفوظ رکھنے کا بہت زیادہ امکان نہیں ہے ، لہذا آثار قدیمہ کے ماہرین کے پاس ہمارے پاس اسطرح کے ثبوتوں کے ٹکڑے بچ گئے ہیں جن میں اوزار اور جانوروں کی ہڈیاں شامل ہیں جو جلد کے نشانات کو محفوظ رکھتے ہیں۔”
“ہم ہڈیوں کے ملنے والے ان شواہد کے ٹکڑوں کو ایک ساتھ رکھ سکتے ہیں اور تجویز کر سکتے ہیں کہ انسان چمڑے اور کھال تیار کرنے کے لیے ہڈیوں کے اوزار استعمال کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر لباس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ کیونکہ جانوروں کی کھالوں کا اسکے سوائے اور کئی مقصد نہیں کہ کپڑوں کے علاوہ انکا کچھ اور بنایا جائے۔ ”
لیکن یہ قابل غور ہے کہ ثبوت مکمل طور پر حتمی نہیں ہیں۔ ہیلیٹ نے مزید کہا ، “ہڈیوں کے یہ اوزار کپڑوں کے علاوہ چمڑے کی دیگر پراڈکٹ کی تیاری کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے تھے ، جیسے کسی ذخیرہ کرنے والی چیز، پانی بھرنے کا مشکیزہ وغیرہ ۔”
پھر بھی ، کھال اور چمڑے جیسے کپڑے اس عرصے کے دوران انسانوں کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہوتے۔ جیسے جیسے ابتدائی انسان افریقہ سے باہر پھیل گئے انہیں نئے ماحول اور شاید موسموں طور پر انتہائی ناقابل رہائش گاہوں کا سامنا کرنا پڑتا۔اور اسکے لیے کپڑے اور دیگر اوزار ممکنہ طور پر انسانوں کو دنیا بھر کے نئے ماحول میں پھلنے پھولنے اور اپنی نسل پھیلانے میں مدد دیتے ہیں۔
کپڑے اور دیگر روز مرہ کی اشیاء بنانے کے لیےقدیم انسان جانوروں کی فر کا استعمال کرتا تھا ، کونٹریبینڈرز غار میں انسان اپنی خوراک کے زیر استعمال گوشت خوروں کی کھال استعمال کیا کرتے تھے، جو انکو گوشت وغیرہ کھانے کے بعد بچ جایا کرتی تھی۔
ہیلیٹ نے سائنس الرٹ کو بتایا ، “اس غار میں گوشت خور جانوروں کی تین اقسام کی ہڈیاں ہیں جن کی ہڈیوں پر کھالوں کے نشان ہیں۔ان میں Ruppell’s Fox, Golden Jackel اور جنگلی بلیوں کی ہڈیوں کی کافی تعداد ملتی ہے جو انسان کے خوراک کے طور پر بھی استعمال تھے اور انکی کھال کو انسان کپڑے اور دیگر ضروریات کے طور پر بھی استعمال کیا کرتا تھا۔
“ان گوشت خور ہڈیوں پر کٹے ہوئے نشان ان جگہوں تک محدود ہیں جہاں کھال ہٹانے کے لیے چیرے بنائے جاتے ہیں ، اور گوشت ہٹانے سے وابستہ ڈھانچے کی دیگر جگہوں پر کٹ کے نشانات نہیں ہیں۔ یعنی جہاں گوشت نہیں، صرف کھال ہی ہوتی تھی، وہاں بھی قدیم انسان، اپنے اوزاروں سے کٹ لگا کر کھال اتارا کرتا تھا، تاکہ اس سے لباس کی تیاری کرسکے ”
جبکہ چمڑے کے لیے ، غار کی سائٹ پر bovid ( کھروں والے میمل) کی کئی اقسام کی ہڈیاں بھی پائی گئیں۔
ہیلیٹ نے مزید کہا ، “ہارٹی بیسٹ Hartebeest ، اوروچز aurochs اور گیزل(غزال، gazelle ) کی ہڈیاں غار میں بہت زیادہ مقدار میں پائی گئیں ، اور ان جانوروں کو انسان کھاتے بھی تھے ، کیونکہ ان کی ہڈیوں پر گوشت ہٹانے سے متعلق کٹ کے نشانات ہیں۔”
ہیلیٹ کا خیال ہے کہ ان ٹولز کی مہارت کو دیکھتے ہوئے ، یہ ممکنہ طور پر ایک بڑی ، پرانی روایت کا حصہ ہیں، اور انسان اس سے پرانے دور میں لباس بنانا سیکھ گیا ہو۔ اس میں اپنا وزن بڑھانے کے لیے اور کپڑوں کی جوؤں کے جینیاتی مطالعے دوسروں سائنسدانوں کی طرف سے کم از کم 170،000 سال پہلے افریقہ میں کپڑوں پہننے کے اصل زمانے کی تجویز کرتے ہیں۔لیکن یہ صرف ایک اندازہ اور تخمینا بات کہی جاتی ہے، کسی مشاہدے سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔
ہیلیٹ نے کہا ، ” افریقہ سے ملنے والے چند قدیمی پتھر کے یہ اوزار غالبا لباس کے لیے استعمال کیے گئے تھے ، اور یہ دلچسپ بات ہے کہ آثار قدیمہ کا ریکارڈ اور جینیاتی ثبوت دونوں افریقہ میں قدیم اصل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔”
افریقہ میں ابھی تک ایسی نامعلوم جگہیں موجود ہیں جو ٹولز اور شواہد کے ساتھ ملنے کی منتظر ہیں جو انسانوں میں کپڑوں کی تیاری کی تاریخ کو مزید روشن کرسکتی ہیں۔
The study was published in the journal iScience.
ترجمہ، تحقیق اور اضافہ جات: حمیر یوسف
اوریجنل آرٹیکل لنک:
https://www.sciencealert.com/strong-evidence-found-for-the-manufacture-of-clothing-as-far-back-as-120-000-years
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...