قدیم زمانے میں شادی و بیاہ اور کھانے پینے کے متعلق ہر قوم میں کچھ نہ کچھ بندشیں تھیں اور اب بھی ہمیں مختلف بندشیں ملتی ہیں جنہیں رواج کا نام دیا جاتا ہے۔ ان ان کی بعض دعوتوں کے کھانے میں اجنبیوں کو بالکل نہیں اور مخصوص لوگوں کو شریک نہیں کیا جاتا ہے۔ بعض جگہ دعوت کے موقع پر غیروں کو ذات یا رشتہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہر برادری و قبیلہ اگرچہ مختلف طریقہ کار رکھتے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ کار ایک زمانے میں پوری دنیا میں جاری تھا۔
ویدوں میں ذات کے لیے ورن کا کلمہ استعمال آیا ہے۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ رنگ ہی ذات کی بنیاد بنا۔ مگر ویدی زمانے میں ذاتوں کا بندھن بہت ڈھیلا ڈھالا تھا اور کوئی پیشہ کسی ذات کے لیے مخصوص نہیں تھا۔ ہر شخص آزاد تھا کہ وہ کسی بھی پیشہ کو اختیار کرسکتا تھا۔ ویدوں میں ایسے بہت سے اشلوک ایسے ملتے ہیں جن میں بڑھی اور کمہار جیسے پیشوں کو جو بعد میں حقیر اور ان کی ذات کو پست بتایا گیا ہے عزت و توقیر کی نظر سے دیکھا ہے۔ ساتویں صدی قبل مسیح تک کچھ ایسا ہی دستور ہندوستان میں بھی رائج تھیں۔ برصغیر کی آبادی میں بڑے نسلی گروہ آریا، دراوڑی اور کولاری شامل تھے۔ اس لیے ان کا آپس میں اختلاف رکھنا قدرتی امر تھا۔
ویدی دور میں ذاتوں ماخذ ملتے ہیں صرف برہمنی ہیں۔ جس کے مطابق آریا بار بار اپنی گوری رنگت پر نازاں تھے اور چار طبقات یعنی کشتری جو امرا تھے اور اپنی شرافت کا نسب کا جو سات پشتوں تک شمار ہوتا تھا خیال رکھتے تھے۔ یہ رنگ کے گورے، چہرے مہرے پاکیزہ، دیکھنے میں وجیہ اور شاندار۔ اس کے بعد برہمن تھے جو کہ بھینٹ چڑھانے والے پرہتوں کی نسل سے تھے۔ یہ بھی کشتریوں کی طرح شرافت و نسب اور گورے چٹے ہونے کی وجہ سے عوام میں ممتاز تھے۔ تیسرے اہل زراعت کا ویش طبقہ تھا اور سب سے نچلا طبقہ شوردوں کا تھا۔ جن میں بڑا حصہ غیر آریا نسل کا تھا جو مزدوری، دستکاری اور ملازمت کرتا تھا اور ان کا رنگ سانولا تھا۔ لیکن ان چاروں طبقات میں بھی اندونی مراتب تھے۔ جو کہ قدر مبہم اور قدر تغیر پیزیر اور غیر متعین تھے۔
آبادی کی یہ تقسیم مکمل نہ تھی اور شودروں سے بھی زیادہ پست، نیچ اور ذلیل ذاتیں (ہنا جاتیو اور ہتا سپتانی) تھیں۔ جن میں چڑی مار، گھسیارے، رتھ ساز کمہار، جلاہے اور چمڑہ ساز شامل تھے۔ بدھ اور جینوں کی کتابوں میں ان قوموں کو چنڈال اور پکس اقوام بتایا گیا ہے جو کہ نہایت حقیر اور پست سمجھے جاتے تھے۔ ہمیں غلاموں کا ذکر ملتا ہے جو کہ نہایت قلیل تھے جو کہ مختلف وجوہ کی بنا پر غلام بنائے جاتے تھے اور ان کی اولاد بھی غلام ہوتی تھی۔ مگر ان پر یونانیوں، رومیوں یا عیسائیوں کی طرح ظلم و ستم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا۔ یہ عموماً گھروں میں کام کرتے تھے۔
پہلے تین طبقات جو کہ اعلیٰ طبقہ تھے اور یہ اپنا مقام بدل کر دوسرے طبقہ میں شامل ہوسکتے تھے۔ ایسی بہت سی مثالیں جو کہ کسی نہ کسی وجہ سے محفوظ رہ گئیں ہیں۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ رنگوں اور طبقوں کے درمیاں کوئی حد فاضل نہیں تھی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ قدیم قبائل مثلاً دراوڑی، کولاری اور دوسری قوموں کے امرا اور دوسرے لوگ بھی کسی نہ کسی وجہ سے یا سیاسی اہمت حاصل کرکے ان ذاتوں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان ذاتوں کے بارے میں ہمارے پاس اس کا سب سے بہتر ماخذ بدھ جاتکا (بدھوں کے قصے) ہیں۔ جس میں بدھوں سے پہلے کی ذاتوں اور پیشوں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔
ان جاتکاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کے لوگوں کو پوری آزادی تھی کہ وہ چاہے ذلیل پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار کرلیں اور ان کے نسب پر کوئی حروف نہیں آتا تھا۔ چنانچہ ایک بدھ جاتکا میں ہے کہ ایک کشتری عاشق اپنی معشوقہ کے لیے پہلے کمھار، پھر ٹوکری ساز، پھر دھوبی اور اس کے بعد مالی اور باوچی کا پیشہ اختیار کرتا ہے۔ ایک اور جاتکہ میں ایک امیر شخص پہلے درزی، پھر کمھار کا کام کرتا ہے، لیکن اس سے ان کے نسب کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔
ان جاتکاؤں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ برہمن زراعت، گوالے اور گڈریے کی خدمات اجرت پر انجام دیتے تھے۔ اس طرح آپس میں شادی بیاہ کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ پست ذاتوں کے ساتھ کھانے یا نہ کھانے بارے میں بھی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً ایک برہمن نے کشتری کے ساتھ کھانا کھایا اور ایک دوسری جاٹکا میں ایک چنڈال کے ساتھ ہم پیالہ ہوتا ہے اور بعد میں افسوس کرتا ہے۔ پسے ندی کے خاندان ساکیہ کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کے قصہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک کشتری اپنی بیٹی جو لونڈی سے پیدا ہو کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اس طرح ہمیں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ ذاتوں کی خلاف ورزی پر سزا بھی دی جاتی تھی۔ ایک جاٹکا میں ایک برہمن کو اس کے برہمن بھائیوں نے اس بات پر برہمنوں کی حثیت سے محروم کردیا کہ اس نے پانی کے ساتھ اس پیچ کو جسے استعمال کیا تھا پی لیا تھا اور اسے مار بیٹ کر شہر سے نکال دیا تھا۔
ایک جاتکہ میں ایک برہمن نے ایک کشتری کی متعلقہ سے شادی کرلی۔ مگر اس کی شادی پر اعتراض نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس برہمن کی بدصورتی کا مزاق اڑاتا ہے اور لگتا یہ کہ یہ ایک عام بات ہے۔ بدھ جاتکاؤں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذات کی عورتوں اور مردوں کے درمیان شادی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں اعلیٰ ذات کی عورتیں ادنی درجہ کے مردوں سے بھی شادیاں کرلیتی تھیں۔ اس ظاہر ہوتا ہے کہ ذاتوں کی بندش پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا تھا جو بعد میں رائج ہوگئی تھی۔ اگرچہ بڑی تعداد میں ان شادیوں کا واقع ہونا مشتبہ ہے۔ لیکن مغرور کشتری ذلیل چنڈال کے درمیان کو خلیج واضح نہ تھی۔اس طرح شمالی ہند میں آریا، کولاری اور دراڑی اقوام کے درمیان بدھ مت کے ظہور تک کوئی امتیازت یا تفریق کے واضح شواہد نہیں ملے ہیں۔ یعنی ذاتوں کی تفریق سے پہلے ان کے درمیان میل جو و اختلاط قائم تھا اور یہ اختلافات اور اجتناب و پرہیز بعد کے دور میں وجود میں آئے ہیں۔
شادیاں و کھانے کے متعلق جو بندشیں اس وقت شمالی ہند میں رائج تھیں وہ اس وقت دنیا کی ہر مہذب اقوام میں موجود تھی۔ اگرچہ یہیں بندشیں بعد میں ہندوستان کی ذات پات کے نظام کی بنیاد بنیں۔ لیکن یہ کہنا کہ بدھ نے ذات پات کے امتیاز کو ختم کیا درست نہیں ہے۔ حقیقت میں صحیح معنوں میں ذاتوں کی تفریق بدھ مت کے ذوال اور مسلمانوں کی آمد کے بعد میں نہیں آئی تھی اور بدھ مذہب نے اس ضمن میں کوئی عظیم انقلاب برپا نہیں کیا تھا۔ بدھ مذہب کے دور تک ذاتوں کی بندشیں وہیں تھیں جو کہ بدھ مت سے پہلے تھیں۔
تہذیب و ترتیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...