پچاس ہزار سال پہلے انسانی دماغ کے ساتھ کچھ ڈرامائی ہونا شروع ہوا۔ زیورات، آرائشی سامان، آرٹ ورک ہمیں اس وقت شروع ہوتا ہوا جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان میں سے ایک حیرت انگیز آرٹ کا شاہکار وہ ہے جو ساتھ والی تصویر میں لگا ہے۔ یہ دو رینڈئیر ہیں جو ایک میمتھ کے دانت سے بنائیں گئے ہیں۔ یہ تیرہ ہزار سال پرانا آرٹ ہے۔ اس کی لمبائی آٹھ انچ ہے۔ برفانی دور کے آرٹ کا یہ شاہکار ہمیں انسانی دماغ میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کا پتہ دیتا ہے۔ لاکھوں سال سے عملی استعمال کے لئے اوزار بنانے والے انسان نما اب ایسی نفیس چیزیں بنانے کے قابل ہو چکے تھے۔
اس میں دو تیرتے رینڈئیر آگے پچھے ہیں۔ اس کو تراشنے والے نے میمتھ کے دانت کی سلوپ کا زبردست استعمال کیا ہے۔ چھوٹی مادہ رینڈئیر آگے ہے اور دانت کی نوک اس کی ناک بن رہی ہے۔ اس کے پیچے نر رینڈئیر جو قدرتی طور پر موٹے ہوتے ہوئے دانت سے بنا ہے۔ اس ہاتھی دانت کے خم کی وجہ سے ان کی تھوڑیاں اوپر ہیں اور کمر بالکل ویسی شکل بنا رہی ہے جیسے یہ تیرتے وقت ہوتے ہیں۔ جس نے ان کو بنایا، اس کا نہ صرف مشاہدہ تیز تھا بلکہ اس دانت کا استعمال بہترین۔ یہ صرف وہ شخص بنا سکتا ہے جو رینڈئیرز کو دریا پار کرتے غور سے دیکھتا رہا ہو۔
یہ فرانس میں دریا کنارے ایک پتھریلے غار سے ملا تھا۔ یہ خوبصورت اور اصل تصویر ہے، ان جانوروں کی جو اس وقت کے یورپ میں ریوڑوں کی صورت میں پھرا کرتے تھے۔ یورپ اس وقت آج کے مقابلے میں خاصا سرد ہوا کرتا تھا۔ کھلا اور بغیر درختوں کا میدان۔ ویسے جیسے آج کا سائیبیریا ہے۔ اس وقت کے انسان کے لئے اس مشکل زمین پر رینڈئیر زندگی کے لئے ضروری تھے۔ ان کا گوشت، کھال، ہڈیاں اور سینگ ان کی خوراک، پوشاک، ہتھیار اور اوزار مہیا کرتے تھے۔ جب تک یہاں رہنے والے ان جانوروں کا شکار کامیابی سے کر سکتے تھے، نہ صرف زندہ رہ سکتے تھے بلکہ آسانی سے زندہ رہ سکتے تھے۔ اس آرٹسٹ کو ان جانوروں کی اہمیت کا علم بھی ہو گا جس وجہ سے اس نے ان کی اس قدر محنت سے شبہیہ بنانے کا سوچا۔
بڑے اور نر جانور کے بڑے سینگ اور اعتماد۔ چھوٹے رینڈئیر کے مقابلے میں چھوٹے سینگ اور چار تھن۔ ان کو نچلی طرف سے بھی ایسے تراشا گیا ہے کہ نر اور مادہ کا فرق ظاہر ہو جاتا ہے۔ یہ موسمِ خزاں کے رینڈئیر ہیں۔ یہ ان کے بھاگنے کا اور ہجرت کا وقت ہوتا تھا۔ صرف اس موسم میں نر اور مادہ دونوں کے پورے سینگ اور جسم پر اسی طرح کے بال ہوتے تھے۔ مادہ کی پسلی کی ہڈیاں بھی نمایاں ہیں۔ نہ صرف انکا ایک شکاری کی نظر سے مشاہدہ کیا گیا ہے بلکہ ایک قصائی کی نظر سے بھی۔
اس قدر تفصیلی آرٹ ورک صرف یہی نہیں۔ اس کے قریب ایک اور انتہائی دلچسپ آرٹ ہے جو اس سے بالکل الٹ ہے، جس میں رینڈئیر کے سینگ پر میمتھ کو تراشا گیا ہے۔ اس میں فنکاری کا طریقہ فرق ہے۔ سادہ اور سمٹریک۔ ایبسٹریکٹ آرٹ اور کاری کیچر کے درمیان۔ اور یہ محض کوئی ایک جگہ نہیں۔ آئس ایج میں ہمیں قسم قسم کے سٹائل اور تکنیک ملتے ہیں۔ ایبسٹریکٹ، نیچرلسٹک اور سرئیہل بھی۔ مختلف نقطہ نظر اور زاویوں کے ساتھ۔ یہ جدید انسان تھے، جدید ذہنوں کے ساتھ۔ ویسے ہی جیسے ہمارے دماغ ہیں۔ یہ شکار پر ہی زندہ تھے لیکن صرف زندہ رہنے کے لئے زندہ نہیں رہتے تھے۔
پروفیسر سٹیو متھن کے مطابق (یہ یونیورسٹی آف ریڈنگ سے تعلق رکھتے ہیں)، برفانی دور کے حالات بھی اس کے لئے اہم تھے۔ لمبی سردیاں اور تنگ کرنے والا موسم، اس میں آپسی تعلقات بھی ضروری تھے اور غور و فکر کرنے کا وقت بھی تھا۔ سوچنے کے لئے یہ وقت اور آپس کے مضبوط تعلقات فن کو جنم دیتے ہیں۔ یہ تنہائی میں نہیں ہوتا۔ یہ اپنے گرد کی قدرتی دنیا سے خوشی، مسرت اور جشن کا اظہار تھا۔
ان لوگوں کو نہ صرف جانوروں کی دنیا کا علم تھا بلکہ پتھروں کی اور معدنیات کا بھی۔ اس آٹھ انچ کے شاہکار کے لئے چار الگ ٹیکنالوجیز کی ضرورت تھی۔ اس دانت کی نوک کو پتھر کے ایک اوزار سے کاٹنا۔ اس پر نقش بنانے کے لئے پتھر کا چاقو اور سکریپر۔ اس کو پالش کرنے کے لئے آئرن آکسائیڈ اور پانی سے پالش، شاید چمڑے کا بھی استعمال اور ان کی آنکھوں کے لئے باریک پتھر کا نوکیلا اوزار۔ یہ بنانا والا ایک ماہر فنکار تھا۔
کوئی اتنی محنت کیوں کرتا ہے جس کا کوئی عملی استعمال نہیں؟ کیونکہ ہم اس دنیا کو صرف عملی استعمال کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ تیرہ ہزار سال پہلے فرانس کے دریا کے کنارے غار میں رہنے والا یہ نامعلوم فنکار آج ہم سے اپنے فن کے ذریعے بات کرتا ہے۔ اس وقت کی دنیا کے بارے میں اور کچھ اپنے بارے میں۔