ہماری آج کی شناخت اور ہمارا اپنا پورا ماضی ہمارے جسم کے ایک ایک خلیے میں لکھا ہے اور یہ جگہ ہمارا ڈی این اے ہے۔ ڈی این اے ایک نازک چیز ہے۔ یہ خراب ہوتا رہتا ہے، خاص طور پر پانی سے۔ جب تک ہم زندہ ہیں، جسم اس کی مرمت کرتا ہے لیکن یہ عمل مرنے کے بعد مرمت کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔ ہم زندگی کی تاریخ کو دو الگ طریقوں سے پڑھتے آئے تھے۔ زمین سے ملنے والے فوسلز سے یا پھر زندہ جانداروں کے خلیوں سے۔ زندگی کی تاریخ ان دونوں طریقوں سے معلوم کی گئی اور ان سے ملنے والے حیران کن مطابقت سے ہمیں علم ہو گیا کہ ہم جو پڑھ رہے ہیں غلط نہیں۔ لیکن کیا اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھا جا سکتا ہے؟ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ان دونوں کو ملایا جا سکے؟ یعنی فوسلز میں سے ڈی این اے کو بھی پڑھا جا سکے؟ اگر یہ سوال آپ پینتیس سال پہلے پوچھتے تو جواب تھا کہ نہیں۔ لیکن یہ جواب بدل چکا ہے۔
اس پر سب سے پہلے ہونے والا بریک تھرو ایک کواگا کا تھا جس کو سب سے پہلی مرتبہ 1984 میں سیمپل کیا گیا۔ (ریسرچ پیپر نیچے دئے گئے لنک سے)۔ یہ انتہائی قیمتی تحقیق ثابت ہوئی اور ہمیں کے ماضی کو جاننے کے لئے اہم طریقہ ہاتھ آ گیا۔ محققین نے ڈی این اے سیکوینس کے سائز کے فرق سے پتہ لگایا کہ کواگا تیس سے چالیس لاکھ قبل پہاڑی زیبرا سے الگ ہو کر نئی نوع بنا تھا۔ پہاڑی زیبرا اور میدانی زیبرا ایک ہی جیسے لگتے ہیں لیکن ان کے راستے بھی بہت پہلے الگ ہو چکے تھے۔ یہ ڈی این اے ٹیسٹ ایک خشک مسل سے سیمپل لے کر کیا گیا تھا جو ایک میوزیم سے حاصل کیا گیا۔ اگلے کچھ سال اسی طریقے سے قدیم ڈی این اے کی سٹڈی ہوتی رہی۔ 1985 میں پہلی بار قدیم انسانی ڈی این اے کی سٹڈی ہوئی جو مصر کی ممی کا تھا۔ تسمانیہ کا بھیڑیا، میمتھ، مکئی کی سٹڈی کی گئی۔ (اسی سے متاثر ہو کر مائیکل کرچٹون نے جراسک پارک ناول لکھا)۔
ڈی این اے کی ہاف لائف ہے۔ یہ ہے کتنی؟ اس کا انحصار اس پر ہے کہ جاندار کونسا ہے اور اس سے زیادہ اہم یہ کہ محفوظ کیسے ہوا ہے۔ نرم ٹشو جو برف میں دفن ہو گیا ہو، وہ جاندار جو عنبر میں پھنس گیا ہو۔ ان میں ڈی این اے زیادہ عرصہ محفوظ رہتا ہے۔ نئی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سمندر کی تہوں کے پتھروں میں یک خلوی الجی کی ہاف لائف پندرہ ہزار برس ہے۔ ایک بڑے پرندے موا کی ہاف لائف زمین پر صرف 521 سال ہے۔ بہترین جگہ وہ ہے جہاں بہت سردی ہو۔ اسی طرح ہڈی کے اندر کا ڈی این اے بہتر محفوظ رہتا ہے۔ اس سے کئی ملین سال پرانی زندگی کا مطالعہ ممکن ہے۔ 2012 میں 158 فوسلز کے مطالعے سے پتہ لگا کہ ڈی این اے کی سٹڈی کی حد 68 لاکھ سال ہے۔ ابھی تک سب سے پرانے جس جاندار کی سٹڈی اس طریقے سے ہوئی ہے، وہ چودہ لاکھ سال پرانے سمندری جاندار ہیں۔ اس کے مطالعے کے لئے نئی جینیاتی تکنیکس آ رہی ہیں جن سے چھوٹے ٹکڑوں کو بھی جوڑا کر سیکونس مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو ایمپلیفیکیشن کہتے ہیں۔ اس سے سات لاکھ سال پہلے کے ایک گھوڑے کا جینوم 2013 میں مکمل طور پر تیار کیا گیا۔
اب جس طرح اس کی سٹڈی کی جاتی ہے، اس میں انتہائی ضروری یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا ڈی این اے باہر سے نہ آ جائے۔ ریسرچر مکمل باڈی سوٹ، دستانے پہنے کر ایسے کمرے میں یہ ٹیسٹ کرتے ہیں جہاں سے باہر کی ہوا کا گزر بھی نہ ہو اور جس سطح پر اسے رکھا جاتا ہے، اس کی ہر تھوڑی دیر الٹراوائلٹ روشنی سے صفائی کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں؟ تمام جانداروں کا، بشمول ہمارے، ڈی این اے ایک ہی طرح کا ہے۔ یہ اتنی باریک بینی کا کام ہے ہماری اپنی جلد کا خلیہ یا کوئی جراثیم اگر اس میں شامل ہو جائیں تو اس کو پڑھا نہیں جا سکے گا۔ اسی طرح قدیم ڈی این اے کا جدید ڈی این اے سے موازنہ کرنے کے لئے دو الگ لیبارٹریز کا استعمال کیا جاتا ہے تا کہ کچھ بھی مکس نہ ہو سکے۔ جب یہ ٹھیک طرح سے کیا جائے تو ہم بہت قیمتی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ سب احتیاط اس لئے کہ نوے کی دہائی میں عنبر میں پھنسے کیڑوں کے تجزیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ میں غلطیاں ہوئیں تھیں۔ مثال کے طور پر، انڈیا میں عنبر میں پھنسے کروڑوں سال پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کا دعوی غلط نکلا تھا کیونکہ وہ ٹیسٹ دراصل اس پر لگی فنگس کا تھا۔ دہرائے گئے ٹیسٹ سے یہ غلطی پکڑی گئی تھی اور اب یہ سٹڈی اس مکمل احتیاط کے ساتھ ہوتی ہے۔
انسانی باقیات سے قدیم ڈی این اے کے مطالعے سے ہمیں پتہ لگا کہ کب انسان دنیا میں کس طرح پھیلے؟ انسان، نینڈرتھال اور ڈینیسووان کے پچھلی ایک سے دو لاکھ سال پہلے رابطوں کا علم ہوا۔ 2014 میں اس مطالعے سے پتہ لگا کہ مڈغاسکر کا معدوم ہو جانے والا ہاتھی پرندہ شترمرغ کا نہیں بلکہ آسٹریلین کیوی کا قریبی رشتہ دار تھا۔ (پہلے ہمارا خیال اس کے برعکس تھا)۔ سات لاکھ سال پہلے یوکون کے گھوڑے کے ڈی این اے سے گھوڑوں کی ارتقائی تاریخ واضح ہوئی۔
اب 2016 میں ہمیں علم ہوا ہے کہ کچھ جگہوں کا ڈی این اے ہمارے پہلے اندازے سے بھی زیادہ رہ سکتا ہے، خاص طور پر کانوں کی ہڈی اور ہڈیوں کے اندر میں اور برف میں اس کی زندگی اور زیادہ ہو سکتی ہے۔
آج سے صرف تیس سال قبل یہ ناممکن سمجھا جاتا تھا کہ قدیم ڈی این اے کو بھی کبھی پڑھا جا سکے گا۔ خراب ڈی این اے بھی بکھرا پڑا ہوتا ہے۔ ڈائنوسارز کا قدیم ڈی این اے بھی ہمارے سامنے پڑا ہے لیکن ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا۔ موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے اسے نہیں پڑھا جا سکتا۔ ایک کتاب ہے جس کا ہر لفظ الگ پڑا ہے۔ کیا یہ پڑھنا ہمیشہ ناممکن رہے گا؟ شاید مستقبل میں، شاید اپنی زندگی میں ہی، ہم اس کوڈ کو بھی توڑ ڈالیں۔ ابھی عنبر میں محفوظ کیڑوں کا ڈی این اے ایک معمہ ہے جو حل ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
ماضی کی نشانیاں خود ہمارے اندر بھی ہیں اور ہمارے سامنے بھی۔ دیکھنے والوں کے انتظار میں اور ان کو دیکھنا ہمارے اختیار میں۔ قدیم ڈی این اے کا مطالعہ کرنے کی ٹیکنالوجی اس سفر میں ایک اہم قدم ثابت ہوا ہے۔