جزیرہ العرب کے اجتماعی حالات بتاتے ہیں کہ وہاں کی اکثریت صحرا یا ایسے علاقوں میں جہاں ایک حد تک امن و امان ہو، زندگی بسر کرتے تھے، ایسی زندگی اونٹ کے مثل مستحکم حیوان کے ساتھ ہی پائیدار رہ سکتی ہے۔وہاں صحرائی زندگی، عام اور جغرافیائی تقاضے کے مطابق تھی، اس لیے یہ سوال پوچھنا عبث ہے کہ لوگ صحرا میں کیوں زندگی گزارتے تھے؟
دراصل، اکثر عرب بدو تھے اور وہ بارش کی تلاش میں ادھر ادھر کوچ کرتے رہتے۔(المغازی،واقدی ج 2 ص 575)
قابل تحقیق مسئلہ یہ ہے کہ ہم شہر کے وجود اور جزیرۃ العرب کے علاقے میں منظم اور ثقافتی زندگی کی کھوج کریں۔شہر کا ہونا یا تو عبادت کی مرکزیت کے سبب تھا جس باعث وہاں لوگوں کا اجتماع ہوجاتا تھا، یا اس وجہ سے تھا کہ وہ تجارتی قافلوں کی راہ میں قرار پاتا اور وہاں مسافروں کی ضیافت کی جاتی یا اطراف صحرا کی مستقل جگہ ہونے کے سبب۔
جزیرۃ العرب کے درمیان بعض علاقے جیسے مدینہ اور طائف استثنائی طور پر، آباد سرزمین اور پانی کے منابع ہونے کی وجہ سے شہر کہلائے، مکہ بھی کعبہ کے تقدس و عظمت، تجارتی قافلوں کی راہ میں واقع اور ام القریٰ ہونے کے باعث شہر قرار پایا۔بدو عرب چونکہ شہر کے شورو غل، آلودگیوں سے دور اور اجنبیوں سے رابطہ برقرار کرنے کہ جو عام طور پر زیارت یا تجارت کے قصد سے آتے تھے، محفوظ تھے۔وہ عربی لب و لہجہ، زبان اور عادات و اطوار کے اعتبار سے شہریوں سے بہتر تھے۔(المفضل ج 4،ص 274)
شہر میں فکری لحاظ سے مختلف غیر عربی کلچر اور عادات و اطوار کے حامل گروہوں کی آمد و رفت نے انہیں بدوؤں سے جدا کردیا اور وہ شہر کی بنسبت (زیادہ) خالص عرب قرار پائے۔ شہری عرب ہنگام ولادت سے پانچ برس کی عمر تلک اپنے بچوں کو دیہات (صحرا) میں بھیج دیتے تاکہ وہ بدوی ماحول میں تربیت پاسکیں اور خالص عرب لہجے کے مالک ہوجائیں۔
شہر کا فرہنگ و تمدن دیہاتوں سے زیادہ آلودہ تھا لیکن ان کی سطح فکر، بدوؤں سے کہیں بالاتر تھی اور اسی طرح بیرونی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔
ابن خلدون لکھتاہے:'بدو عرب خیر و نیکی سے زیادہ نزدیک اور شہریوں سے زیادہ دلیر تھے۔(مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ پروین گناہادی ج 1 ص 231 و 239)
نجدی کہتے ہیں :'یہ بات واضح ہے کہ عرب ایک مستقل مقام پر رہنا پسند نہیں کرتے، زندگی انہیں اس بات پر مجبور کرتی کہ چراگاہ،پانی اور بارش کی تلاش میں نقل مکانی کریں چونکہ ان کی زندگی اسی پر قائم رہتی تھے۔(صحیح الاخبار عما فی البلاد العرب من الآثار ج 1 ص 6)
اس لیے یہ سوال کرنا بے سود ہے کہ عرب صحرا نشین کیوں ہوتے تھے؟ سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ شہر سے زیادہ صحرا کی طرف کیوں مائل تھے؟
مسعودی تحریر کرتے ہیں :شہر انسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہیں تھا یا ان کا اعتقاد یہ تھا کہ مستقل قیام بیماری پیداکرنے کا سبب ہوتا ہے یا یہ کہ شہر میں جگہ جگہ بہت آفتیں اور بلائیں ہوتی ہیں۔(مروج الذھب ج 2 ص 96)
یہ بات آشکار ہے کہ صحرا میں پابندیاں کم تھیں اور لوگ بہت آزاد تھے جس کام کو چاہتے انجام دیتے اور ان کا قبیلہ بھی اس کام میں ان کی حمایت اور حفاظت کرتا۔
لامانس کہتے ہیں :'عرب، آزادی کے لیے نمونہ ہیں، وہ بھی نامحدود آزادی کے لیے ۔(فجرالاسلام ص 23)
جواد علی کہتے ہیں :عرب سوائے قدرت اور طاقت کے کسی سے آشنا نہ تھے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرنے والے تھے اور اسی بنیاد پر حق کا تعین کرتے اور عدالت کو بھی اسی میزان پر تولتے۔(المفصل ج4 ص 294)
جہاں کام کرنے کی ہر شخص کو مفرطانہ آزادی ہو، وہ مشکلات کے مقابل صبر کر ہی نہیں سکتا اور نتیجہ میں غضب کا مادہ غالب آجاتا ہے، ایسے عالم میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حکومت نہیں کرسکتا اور ہر ایک شخص کامل آزادی کا مالک بن جاتا ہے۔(العصر الجاھلی 52)
آلوسی نے بھی بزدلی اور خوف کو شہر کی خوشحال زندگی اور شجاعت و خطرناک کاموں کے کے اقدام کو بدوی زندگی کا نتیجہ جانا ہے۔(بلوغ الارب ج 1 ص 110)
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ اور دیگر عام کاموں میں تنازعہ عرب بدووں کے درمیان پایا جاتا، جنگ کی عادت، خود انسان کو جنگ پر ابھارتی ہے، عرب کے جنگی شجاع ہمیشہ سے صحرائی عرب رہے ہیں۔ابن ابی الحدید کہتا ہے:عمرو بن عبدود، قریش قبیلہ کا شجاع (جسےجنگ خندق میں امام علی علیہ السلام نے قتل کیا تھا) عرب کے تین مشہور پہلوانوں عتبہ، بطام اور عامر کے ناموں کے ساتھ یاد نہیں کیا جاتا، اس کی وجہ اس کا شہری ہونا ہے۔لیکن مذکورہ بالا پہلوان صحرائی عرب تھے، ان کا کام اموال کی غارت گری اور لوٹ مار کرنا تھا، قریش کے برخلاف کہ وہ شہر میں زندگی بسر کرتے اور ان کا کام اپنے حرم کی حفاظت تھا، اس لیے عمرو بن عبدود ان کی مانند شہرت یافتہ نہ تھا۔(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید ج 13 ص 291)
کعب الاحبار(اگرچہ قصہ گو تھا لیکن قصہ گوئی وہاں کا کلچر تھا) اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ شقاوت نے روز اول ہی سے صحرا کا انتخاب کیا اور حکم الٰہی سے اسی سے ملحق ہوگیا۔یہ شاید اس سبب سے ہو کہ ایک عربی مصنف تحریر کرتا ہے:تاریخ عرب کو جرم اور خیانت نے تشکیل دیا ہے۔(فجر الاسلام ص 33)
وہ ایک دوسرے مقام پر لکھتا ہے:عرب بدو تند مزاج تھے اور چھوٹی سی بات پر بھی غصہ ہوجایا کرتے اور پھر یہ غصہ کنٹرول کے باہر ہوتا، جس وقت احساس کرتے وقت ضائع کئے بغیر تلوار نکال لیتے اور پھر اسی سے فیصلہ کرتے
یہاں تک کہ جنگ ان کے معمولات زندگی میں شامل ہوگئی۔تندی مزاج، خاص ذہانت کا پتہ دیتی ہے۔ اس سبب سے انہیں ذہین مانا جانا تھا۔
ہیکل کہتا ہے:بدووں کے لیے اگرچہ صحرائی زندگی مشکل تھی مگر(ان کے خیال میں) ننگ و عار سے پاک تھی۔(حیاہ محمد ص 39)
وہ شہر آتے،شہر اور وہاں کے محلوں کی لذت زندگی سے لطف اندوز ہوتے، پھر بھی وہ صحرا پلٹ جاتے اور اپنے اصل مکان کو ترک نہ کرتے۔(المفصل ج 4 ص299،مروج الذھب ج 2 ص 40)
معاویہ کی بیوی یعنی یزید کی ماں، صحرا واپس آگئی اور وہاں کی زندگی کو معاویہ کے قصر خضری پر ترجیح دی۔(بلوغ الارب ج 3 ص 426)
ہیکل کے بقول: جزیرۃ العرب کے لوگ آج بھی صحرا نشین ہیں اور شہر اور ایک مستقل جگہ پر زندگی بسر کرنے کو پسند نہیں کرتے اور ایک ہی مقام پر قائم نہیں رہتے، وہ نقل مکانی کے سوا دوسری چیزوں کو برداشت نہیں کرتے۔(حیاۃ محمد ص 399)
یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ سخت صحرا میں زندگی گزارنے نے ان کے ذریعہ معاش اور اخلاق کو سخت بنا دیا تھا۔
صحرا میں مشکلات زندگی اور مسلسل جنگ ہونے کے بموجب وہ دینی مسائل کی طرف کم ہی توجہ کرتے اور اس کے برعکس، خاندانی رابطے اور رسم و رواج کی حفاظت کا زیادہ احساس کرتے۔
احمد امین کے بقول:عام طور پر وہ اپنے ہی اعتقادات کے مقلد تھے، اس میں غوروفکر نہیں کرتے تھے۔(فجر الاسلام ص 23،10)
وہ جس قدر کام کریں، کم ہے، اور جتنا زیادہ بیابان میں گردش کریں، اتنے ہی زیادہ ذریعہ معاش مہیا ہوتے تھے۔( فجر الاسلام ص 46)
ایک بدو سے پوچھا گیا: کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ وارد بہشت ہو، تمہیں کوئی اذیت پہنچائے اور تو اسے معاف کردے؟
اس نے جواب دیا: میرے لئے آسان ہے کہ میں جہنم جاؤں اور اپنا انتقام لوں۔(نھایۃ الارب ج 6،ص 68)
قرآن نے ان کے ایمان کو پہلے مرحلے میں حقیقی ایمان نہیں تسلیم کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلْ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَلٰـكِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَلَمَّا يَدۡخُلِ الۡاِيۡمَانُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ ۚ وَاِنۡ تُطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ لَا يَلِتۡكُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِكُمۡ شَيۡـًٔــا ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ
یہ بدوعرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا کہ وہ بڑا غفور اور رحیم ہے۔
سورہ حجرات 14)
دوسری آیت:سَيَـقُوۡلُ لَكَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَـتۡنَاۤ اَمۡوَالُـنَا وَاَهۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَـنَا ۚ يَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِهِمۡ مَّا لَـيۡسَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡؕ قُلۡ فَمَنۡ يَّمۡلِكُ لَـكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡـًٔــا اِنۡ اَرَادَ بِكُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِكُمۡ نَفۡعًا ؕ بَلۡ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا
عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے گنوار آپ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور اولاد نے مصروف کرلیا تھا لہٰذا آپ ہمارے حق میں استغفار کردیں. یہ اپنی زبان سے وہ کہہ رہے ہیں جو یقینا ان کے دل میں نہیں ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر خدا تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یا فائدہ ہی پہنچانا چاہے تو کون ہے جو اس کے مقابلہ میں تمہارے امور کا اختیار رکھتا ہے .حقیقت یہ ہے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔( سورہ الفتح 11)
ان کے دل زبان ایک نہیں ہوتے ہیں۔
(تاریخ سیاسی اسلام، رسول جعفریان، ص 65 تا 68، ج 1،طبع: انتشارات دلیل ما، چاپ دوم:بھار 1382)