یوسف کمبل پوش نے انیسویں صدی میں انگلستان کا سفر کیا۔ اپنے سفرنامے ‘عجائب فرنگ’ میں اس وقت کے ایک عجوبے کے بارے میں لکھتے ہیں، “صبح اٹھ کر حوائج ضرور یہ سے فراغت کے لئے گیا تو دنگ رہ گیا۔ بس آخر میں ایک زنجیر کھینچیں، بہت سا پانی نکلتا ہے اور سب صاف۔ نہ کوئی بدبو اور خوب صفائی بھی رہتی ہے۔کیمپبل سے ذکر کیا تو وہ میری حیرت پر حیران تھا۔”
دنیا میں انسانی زندگی اور صحت کے لئے جتنا کردار میڈیکل ٹیکنالوجی کا رہا ہے، اس سے زیادہ پلمبر کا۔ جتنی جانیں اینٹی بائیوٹک اور ویکسینز بچاتی ہیں اس سے زیادہ ٹوائلٹ کی ٹیکنالوجی۔ اس کے بغیر نہ ہی اونچی عمارتیں بنانا ممکن تھا اور نہ ہی بڑے شہر۔
موہنجوداڑو، ہڑپّہ، سکارا برے اور قدیم روم کے امراء کے گھروں میں ٹوائلٹ کسی شکل میں تھے لیکن موجودہ فلش ٹیکنالوجی پہلی بار سترہویں صدی کے آغاز میں برطانوی ملکہ کے محل میں نصب ہوئی اور انیسویں صدی کے وسط میں عوام تک اس کی رسائی ہوئی۔
عام گھروں میں استعمال ہونے والی اس ٹیکنالوجی کی خاص بات پانی کی سیل ہے جو سیوریج سسٹم کی بو کو گھر میں نہیں آنے دیتی۔
اس کے بغیر بڑی آبادیوں میں وباؤں کا پھوٹ پڑنا عام تھا۔ صرف لندن میں نکاسی آب کے مسئلے کی وجہ سے انیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہیضے کی وبا پانچ بار پھیلی اور ہر بار دس ہزار سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
دنیا میں اس وقت ایک ارب سے زائد لوگ ہیں جن کو اس تک رسائی میسر نہیں اور اس وجہ سے ہونے والی اموات خسرے، ملیریا اور ایڈز سے مرنے والوں کی تعداد کے مجموعے سے بھی زیادہ ہیں۔
موجودہ طرز کے گنجان آباد شہر بسانا اور یہ طرز معاشرت ہائی جین کی اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوا جس کی زیادہ بات نہیں کی جاتی اور جس کی اپنی تاریخ پرانی نہیں۔
خلائی سفر میں اس کے لئے ٹیکنالوجی کیسی ہے؟ یہ اب آپ خود ڈھونڈ لیں۔