قابل اجمیری
اصل نام : عبد رحیم
والد اور والدہ کا نام : عبد کریم —– گلاب بیگم
ولادت : ٢٧ اگست، ١٩٣١ ‘چرولی‘، اجمیر شریف ، راجھستان، ہندوستان
قابل اجمیری کی زندگی نامساعدہ حالات میں گذری۔ جب وہ سات (٧٧) سا ل کے تھے تو ان کے والد دق (ٹی۔ بی) کے مرض میں مبتلا ھو کر اللہ کو پیارے ھو گئے۔ کچھ وقت یتیم خانے میں بسر ھوا۔ کچھ ھی دنوں بعد ان کی والدہ کے انتقال ھوگیا بھر ان کی چھوٹی ہمشیرہ فاطمہ بھی دنیا سے چلی گئی۔
١٩٤٨ میں اپنے بھائی شریف کے ساتھ پاکستان آگئے اور حیدرآباد (سندہ) میں رہائش پذیر ھوئے۔
قابل نے چودہ(١٤٤) سال کی عمر میں شاعری کی ابتد کی۔ ان کی شاعری کو نکھارنے اور سنوارنے میں مولانا مانی اجمیری کا بڑا ہاتھ ھے۔ ان کو حیدرآباد میں دوستوں کا ایک بڑا حلقہ ملا۔ وہ ادبی جریدے ‘نئی قدریں‘ کے مدیر و مالک اختر انصاری اکبر آبادی (استاد)، کے خاصے قریب رھے۔ قابل حیدرآباد (سندہ) کے روزنامے، ‘ جاوید‘ میں قطعہ نگاری کرتے رہے۔ پھر حیدرآباد ھی کے ایک ہفت روزہ جریدے ‘ آفتاب ‘ میں قطعات لکھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ ساتھ ھی غزلیات اور نظمیں بھی لکھتے رھے۔
قابل اجمیری نے اردو غزل کو منطقی مزاج کا افق عطا کیا۔ لگتا ھے ان کی افسردگی اور اضطراب کا
کے عمل میں نئے قسم کا رومانی کہانی پن جنم لیتا ھے جو ان کے ذہن اور روح کو برھم کردیتا ھے لیکن اس سے ان کا تخیلاتی احساس درھم برھم نہیں ھوتا۔ قابل اجمیری کا شعوی فکر جذبہ اور فکرکا باھمی توازن ان کے شاعرانہ آفاق میں تخیل کی انفردیت ھے لہذا ان کو اردو کا آخری رومانی شاعر بھی کہا جاتا ھے۔
١٩٦٠٠ کے آتے آتے ان کی صحت خراب رھنے لگی تو وہ کوئٹہ (بلوچستان) کے سینوٹوریم میں داخل علاج ھوئے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک نصرانی(عیسائی) نرس نرگس سوزن سے ھوئی جو قابل اجمیری کی شاعری کی دلدادہ تھی۔ کچھ ھی دنوں بعد نرگس سوزن (وفات، ٢ اگست ٢٠٠١) نے اسلام قبول کرکے قابل صاحب سے شادی کی جن سے انکے صاحبزادے ظفر اجمیری نے جنم لیا۔
اکتیس (٣١) سال کی عمر میں قابل اجمیری کا انتقال دق (ٹی۔بی) کے مرض میں ھوا۔
تصانیف:
١۔ دیدہ بیدار
٢۔ خون رگ جا
٣۔ انتخاب کلام اجمیری (١٩٨٩)
٤۔ کلیات قابل (١٩٩٢ اور ١٩٩٤)
٥۔ عشق انسان کی ضرورت ھے (٢٠٠٥)
قابل اجمیر پر جرائد کے خصوصی نمبر:
قابل اجمیری نمبر، “ نئی قدریں“ حیدرآباد، سندہ ٠(مرتب: اختر انصاری اکبر آبادی)
قابل اجمیری نمبر، “ طالب علم ڈائجسٹ“، حیدرآباد، سندہ ۔ (مرتب محمد حسین قریشی)
—– یہ اور بات ھے کہ تقدیر سو گئی قابل
—– وگرنہ دیدہ بیدار ھم بھی رکھتے ہیں
غیر مدون کلام
یہ کربلا ہے یہاں سو رہے ہیں اہل حرم
یہاں نبی کے دلارے قیام کرتے ہیں
یہ سرزمین درخشاں ہے آج بھی قابل
یہاں یہ چاند ستارے قیام کرتے ہیں (قابل اجمیری)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔