(Last Updated On: )
آپ نے شاید The Nun فلم میں قبر کے نزدیک نصب ایک دستی گھنٹی کے بجنے کا منظر دیکھا ہوگا ۔
یہ منظر محض ایک تمثیل کاری نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک روح فرسا اور درد ناک تاریخ ہے۔
۔۔۔
صدیوں تک Premature burials یعنی حادثاتی طور پر کسی انسان کے زندہ دفن ہوجانے کے ان گنت واقعات ہوتے رہے ہیں۔۔۔جن میں سے اکثر کی طبی وجوہات تھیں ۔
ایسے اکثریت واقعات ازمنہ وسطی سے انیسویں صدی کے یورپ سے منسوب ہیں۔
ایسا تب ہوتا تھا کہ جب کسی مرض ، ٹراما یا حادثے کے نتیجے میں کسی شخص کو مردہ تصور کرلیا جاتا تھا جبکہ حقیقت میں زندہ ہوتا تھا البتہ اس پر سکتہ طاری ہوتا تھا یا پھر اس کے اثرات کی وجہ سے بیہوشی کے ساتھ ساتھ کچھ وقت کے لیے اس کے دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار اس قدر مدہم ہو جاتی تھی کہ اسے مردہ تصور کرلیا جاتا تھا ۔
اس زمانے میں ہسپتال اور ڈاکٹرز دونوں ہی آج کی نسبت بہت کمیاب ہوا کرتے تھے کہ لہذا ہر کسی کی موت کی تصدیق کسی ڈاکٹر سے کروا پانا بھی آسان نہ تھا ۔۔
دیگر امراض جیسے کالرا، ڈی-ہائیڈریشن وغیرہ کے علاوہ African trypanosomiasis نامی بیماری یورپ میں بہت سے زندہ تدفین کے واقعات کی ذمہ دار ہے۔۔۔۔ اس بیماری کا شکار انسان کئی کئی دن کے لیے سویا رہتا تھا اور بعض دفعہ اسے مردہ تصور کرلیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔
زندہ تدفین کے واقعات کا انکشاف تب ہوا کہ جب بعض دفعہ ایسا ہوا کہ کسی تازہ دفن کیے شخص کی قبر سے کسی قریب موجود شخص کو کچھ کھٹ پھٹ کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے خوف کے مارے دیگر لوگوں کو اس سے آگاہ کردیا ۔۔۔ اور جب اس کی قبر کھود کر تابوت کھولا گیا تو تابوت کی دیواروں پر ناخنوں کے نشان ، خون ، تڑپنے کے آثار اور لاش کی بدترین حالت سے انہیں اندازہ ہوتا تھا کہ یہ بدقسمت شخص زندہ ہی درگور ہوگیا تھا اور پھر ہوش میں آنے کے بعد تابوت کو کھولنے، توڑنے یا کسی کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے اندھادھند ضربیں لگاتا رہا ۔ یہاں تک کہ تابوت میں آکسیجن ختم ہو جانے پر دم گھٹنے سے اس کی موت ہوگئی۔
ایسے چند واقعات سامنے آنے پر لوگوں میں بہت بڑے پیمانے پر خوف و ہراس نے جنم لے لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنٹی سے لیس تابوت کی ایجاد :
1829 میں جرمن فلاسفر Johann Gottfried نے ایک حفاظتی تابوت تیار کیا جس میں ایک چھوٹا سا سوراخ ، اور اس سے متصل لکڑی کی ایک کھوکھلی نلی جو کہ زمین تک جاتی تھی ۔۔۔ اس سوراخ سے ایک باریک رسی گزاری جاتی تھی جو کہ مردے کے ہاتھ سے بندھی ہوتی تھی۔۔۔اور قبر کے ساتھ قریب ایک دستی گھنٹی نصب ہوتی تھی جس کے ساتھ رسی کا دوسرا سرا باندھا جاتا تھا ۔
اگر کوئی شخص غلطی سے زندہ دفن ہوگیا تو جب اسے تابوت میں ہوش آتا تو ۔۔۔ یا تو وہ اپنے ہوش و حواس برقرار رکھتے ہوئے ہاتھ کو مسلسل ہلا کر گھنٹی بجاتا یہاں تک کہ قبرستان کا کوئی گارڈ ، گورکن، کیئرٹیکر یا کسی قریبی قبر پر آیا کوئی انسان اسے سن لیتا اور اس کی جان بچا لی جاتی ۔ یا پھر اگر وہ بدحواس ہوکر ہاتھ پیر مارنے لگتا تو بھی گھنٹی بجنے لگتی ۔۔۔
لیکن خوش قسمت انسان وہی ہوسکتا تھا کہ جس کی گھنٹی کوئی سن لے۔
اس مقصد کے لیے قبرستانوں میں ہمہ وقت دن و رات نگران متعین کیے جاتے تھے ۔۔۔ اور یہ کام انتہائی محتاط تھا کیونکہ گھنٹی ہوا چلنے یا کسی چوہے، گلہری کے رسی سے ٹکرا جانے سے بھی بج اٹھتی تھی ۔
اس طرح کئی مرتبہ غلطی سے قبر تب کھول لی گئی جب اس کا مردہ سچ میں مر چکا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
آنے والی صدیوں میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی کہ کسی شخص کی موت کا تعین اور تصدیق آسان اور باسہولت ہوتی چلی گئی ۔ اور حفاظتی تابوتوں کے استعمال کا سلسلہ رکتاچلا گیا۔۔۔ لیکن آج بھی یہ تابوت یورپ کے عجائب گھروں میں انسان کے درد ناک ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔