جب حکومتیں میرٹ کی بنیاد پر نہ بنیں اور اصولوں کی بنیاد پر نہ چلائی جائیں توایسی ہی مضحکہ خیز صورت پیدا ہوتی ہے جیسی مسلم لیگ نون کی حکومت میں ہورہی ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں بنیادی طورپر کوئی فرق نہیں اس لیے کہ دونوں کا طرز حکومت بنیادی طورپر قبائلی ہے۔ قبائلی طرز حکومت میں میرٹ اور قانون دونوں کی حیثیت صفر ہوتی ہے۔ ذاتی پسند اور ناپسند ۔ اور وہ بھی قبیلے کے سربراہ کی، فیصلہ کن ہوتی ہے۔ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی ہی کی طرح ایک قبیلہ ہے، سیاسی پارٹی ہرگز نہیں۔ سیاسی پارٹی وہ ہوتی ہے جس کے اندر انتخابات منعقد ہوں اور ایک خاندان کی اجارہ داری نہ ہو۔ مسلم لیگ نون ایک قبیلہ ہے جس کی بنیاد وسطی پنجاب پر اٹھی ہے۔ فیصل آباد سے لے کر سیالکوٹ تک اور گوجرانوالہ سے لے کر رائے ونڈ تک کے علاقے اس قبیلے کا نشان امتیاز ہیں۔ قبیلے کا سربراہ ہی سب کچھ ہے یا وہ امرا اور عمائدین جو سربراہ سے قربت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات ہرگز اہم نہیں کہ کون کس شعبے کا انچارج ہے، اسے انگریزوں کی زبان میں ’’فری فار آل‘‘ کہتے ہیں۔
یہاں پہنچ کر ہم مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کا موازنہ ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت قبائلی طرز کی حکومت ہے، ہم مسلم لیگ نون کی حکومت کا موازنہ طالبان کی تحریک سے کرکے دیکھتے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان ایک حکومت نہیں، قبائلی طرز کی ایک تنظیم ہے، جس میں شعبوں کے انچارج ہیں نہ وزارتوں کی تقسیم۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق جو کنفیوژن تحریک طالبان پاکستان میں پیدا ہوئی ہے، ویسی ہی کنفیوژن مسلم لیگ نون کی حکومت کو درپیش ہے۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات پرفوجی قیادت اور حکومت میں اتفاق نہیں۔ عسکری قیادت حکومت کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔ اس کے بعد انہوں نے فوج کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ عسکری قیادت کو حکومت سے معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ کے خیال میں وہ معاملات جو عسکری اداروں کے سربراہوں کے علم میں ہیں وہ سیاسی قیادت سے شیئر نہیں کیے جاتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے رانا ثناء اللہ کی تردید کی اور کہا کہ یہ بیان رانا صاحب کی ذاتی رائے ہے، اس کا مسلم لیگ نون کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں پارٹی پالیسی پر بریفنگ لینی چاہیے اور پارٹی پالیسی سے اختلاف سے اجتناب کرنا چاہیے۔ پرویز رشید نے یہ بھی کہا کہ ثناء اللہ کو وفاق کی پالیسیوں پر عملدرآمد کی ہدایت کردی ہے ( غالباً وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہدایت کردی گئی ہے )۔
یہ ہے قبائلی طرز حکومت، جس میں یہ معلوم نہیں کہ کون کس شعبے کا انچارج ہے۔ پرویز رشید صاحب کے بیان سے جوکچھ معلوم ہوا، اس کے مطابق :
1۔ مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کا وزیر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ مسلم لیگ نون کی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
2۔ صوبائی وزیر نے پارٹی پالیسی پر بریفنگ نہیں لی جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ پارٹی پالیسی سے بے خبر ہیں۔
3۔وہ وفاق کی پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں کررہے ۔
رانا ثناء اللہ پنجاب کی حکومت کے نمائندے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک ہی پارٹی کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ایک دوسرے کی پالیسیوں کا یا تو علم ہی نہیں، یا باہمی اختلاف ہے۔
جوکچھ تحریک طالبان میں ہورہا ہے وہ بھی اسی کا پر تو ہے۔ پنجابی طالبان کے رہنما نے وزیراعظم کی مذاکراتی پیش کش کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وزیراعظم نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ تحریک طالبان کے ترجمان نے اس سے شدیداختلاف کرتے ہوئے، پنجابی طالبان کے نمائندے کو اس کے منصب ہی سے برطرف کردیا اور اعلان کیا کہ اس کا تحریک طالبان پاکستان سے اب کوئی تعلق نہیں رہا۔ پنجابی طالبان کے نمائندے نے جواب الجواب میں کہا ہے کہ تحریک طالبان معزول کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتی ، دوسری طرف تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیش کش مسترد کردی۔
یہ درست ہے کہ پرویز رشید صاحب نے طالبان کی طرح یہ نہیں کہا کہ رانا ثناء اللہ کا تعلق اب مسلم لیگ نون سے نہیں ہے۔ تاہم قبائلی طرز حکومت ،تحریک طالبان اور مسلم لیگ نون کی حکومت دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اور وہ قدر مشترک فراق کے الفاظ میں ؎
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
اس قبائلی طرز حکومت کی ایک تازہ مثال دیکھیے۔ گڈانی میں وزیراعظم پاکستان پاور پراجیکٹ منصوبے پر بریفنگ لے رہے تھے۔ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر زکے بارے میں حکومت کی بلند ترین سطح پر جو ڈائلاگ ہوا، ملاحظہ کیجیے۔
وفاقی سیکرٹری پانی وبجلی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پاکستان پاور لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہے۔ وزیراعظم اپنے ایڈیشنل سیکرٹری سے کہتے ہیں: ’’فواد آپ نے مجھے نہیں بتایا کہ کمپنی بن چکی ہے جب کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کمپنی بن گئی ہے لیکن آپ نے کہا تھا کہ ابھی نہیں بنی ہے‘‘۔
پھر وزیراعظم نے کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے بارے میں استفسار کیا تو بتایا گیا کہ ابھی بورڈ آف ڈائریکٹرز نہیں بنا، لیکن سیکرٹری پانی وبجلی نے کہا کہ بورڈ کا پہلا اجلاس بھی ہوچکا ہے۔ اب وزیراعظم نے بورڈ کے ارکان کے بارے میں پوچھا۔ اس پر یہ کہا گیا کہ ابھی بورڈ کے ارکان بنائے ہی نہیں گئے !
یہ صرف دومثالیں ہیں۔ ورنہ ہر شعبے میں ،ہرطرف، ہروقت صورت حال یہ ہے کہ ع
پابدستِ دگری، دست بہ دست ِدگری
کسی کا پائوں کسی کے ہاتھ میں اور کسی کے ہاتھ میں کسی کا ہاتھ۔ صوبائی وزیر، وفاقی وزیر داخلہ کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ ایک اور وفاقی وزیر اس کی تردید کرتا ہے اور وضاحت بھی۔ وزیراعظم جزئیات اور فروعات کے بارے میں سوال کبھی وزارت کے سیکرٹری سے کررہے ہیں اور کبھی اپنے ایڈیشنل سیکرٹری سے ۔متعلقہ وزیر کہاں ہے ؟اجلاس میں تھا بھی یا نہیں ؟تھا تو وہ خود معاملات کو ہاتھ میں کیوں نہیں لے رہا ؟ ایک وفاقی وزیر کو اپنے معاملات کا انچارج ہونا چاہیے اور ان کے بارے میں معلومات اسے ازبر بھی ہونی لازم ہیں۔ عام طورپر وفاق کے سربراہ کو متعلقہ شعبے کے وزیر ہی سے استفسارات کرنے چاہئیں اور اسی کے جوابات پر اعتماد کرنا چاہیے ، اس لیے کہ وزیراعظم کو غلط جواب دینا معمولی فروگزاشت نہیں۔ اگر وزیر پراعتماد کیا جائے تووہ جواب کے غلط یا صحیح ہونے کا ذمہ دار بھی ہوگا۔
لیکن ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں سسٹم ہو، قواعدوضوابط ہوں، طے شدہ طریق کار ہو۔ رہے بادشاہ یا قبائلی سربراہ تو ان کے سامنے سسٹم، قواعدوضوابط اورطے شدہ طریق کار کی حیثیت ہی کیا ہے !!