پُتلی گھر لائل پور سٹیج ڈراموں کا سفر (تیسری قسط)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائل پور کاٹن ملز سے ڈرامہ نکل کر جب شہر میں داخل ہوا تو شہر میں تیں ڈرامہ کلب بنے ایک کی سr براہی ارشد چوہدری دوسرے کی حمید آر ٹسٹ اور تیسرے کی اعجاز ناصر کرتے تھے ، لیکن اصل میں دو ہی ایم ڈرامہ کلب تھے ایک حمید آرٹسٹ کا اور دوسرا اعجاز ناصر کا ۔۔۔ ان دونوں کا اصل مقابلہ اس وقت دیکھنے میں آتا جب لائل پور مونسپل کارپوریشن کی طرف سے سالانہ ڈرامہ فیسٹیول کا اہتمام کیا جاتا ، جس کے ججوں کے پینل میں لاہور اور راولپنڈی کے ریڈیو اور ٹی وی سٹیشنوں کے نامور اداکار اور ہدایت کار شامل ہوتے ، اس فیسٹیول میں تنویر جیلانی کے تحریر کیے ڈرامےے بھی پیش کیے جاتے تھے ،حمید آرٹسٹ گروپ سماجی اور سوشل موضوعات پہ مبنی ڈرامے پیش کرتا تھا ، جن میں خصوصی طور پہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے مسائیل کو اُجاگر کیا جاتا ، اُس دور میں جب کے بعض گھروں میں لڑکیوں کو ریڈیو پہ بھی گانا سُننے کی اجازت نہیں تھی اور لڑکوں کو نئے فیشن کے کپڑے پہننے کا اور وحید مراد یا دوسرے اداکاروں کے سٹائیل میں بال بنوانے کو محلے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا حمید آرٹسٹ نے اس نسل کی گھٹن کو اپنے ڈراموں میں پیش کیا ، کہ کس طرح نوجوان محلے کی لڑکی کو اپنے دل کی بات بتانے کے لیے نیاز کی پلیٹ لے کر لڑکی کے گھر جاتے ، نیاز کی پلیٹ لڑکی کی ماں کو دیتے ہوئے لڑکی کو اشاروں میں بتا دیتے کہ نیاز کے اندر رقعہ ہے ، اور لڑکی کس طرح لڑکے کی بہیں سے گوٹہ کناری لینے آتی اور اپنا پرا ندہ وہیں بھول آتی ہے ، حمید آرٹسٹ شہر کی کوِ نور ٹیکسٹائیل مل میں کام کرتے تھے ، حمید آرٹسٹ کا تعلق نہ تو بائیں بازو کی سیاست سے تھا اور نہ دائیں بازو کی سیاست سے ، وہ ایک لبرل اور شعرو سخن سے تعلق رکھنے والے انسان تھے اور ایک اچھے ڈرامہ ہدایت کار تھے ، ان کے ساتھ کام کرنے والون میں اور دوسروں کے علاہ شبیر شیخ، اعجاز واسطی ، اقبال کریمی ، راجہ جانی ، رحمن کمل ، طارق ویرا اور میاں عبدالباری تھے ۔ میاں عبدالباری نہ تو اداکار تھے نہ ہدایت کار اور نہ گلوکار تھے ، میں نے اُن کو کبھی کسی ہنسی مزاق کی محفلوں مینں بھی بیٹھا نہیں دیکھا ، وہ صرف اور صرف پروڈیسر تھے مگر میں سمجھتا ہوں لائل کی ڈرامہ تاریخ میں وہ ایک اہم کردار تھے اگر وہ صرف بزنس مین ہوتے تو وہ کسی بھی اور شعبہ میں اپنا پیسہ لگا کر منافع کما سکتے تھے کیونکہ اُس دور میں ڈرامہ کا بزنس کوئی منافع بخش کاروبار نہیں تھا ، طارق ویرا بھی حمیر آرٹسٹ کے دراموں کی ہدایت کاری کرتئ تھئ،،
شہر کی اہم ڈرامہ کلب جس کی سر براہی اعجاز ناصر اور مشتاق ساتھی کرتے تھے ایک نظریاتی گروپ پہ مشتمل تھی ان دونوں اور ان کے ساتھ اکثر کام کرنے والوں کا تعلق پاکستان کی مختلف بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے تھا ، یہ اپنے ڈراموں میں ملک کے پسے ہوئے طبقے اور خاص طور پہ مزدوروں کے مسائیل پیش کرتے نہ صرف مسائیل پیش کرتے بلکہ ڈرامے کے آخر پہ مزدور طبقہ کی قیادت میں انقلاب آنے کا منظر پیش کرکے مسائیل کا حل بھی بتاتے ، اگر یہ کہا جائے کہ اس شخس نے اپنے نظریات اور ڈرامے کے فن کو اپنا خون دیا ہے تو میں سمجھتا ہوں مشتاق ساتھی اور اعجاز ناصر کا شمار اں لوگوں میں ہے ۔ مشتاق ساتھی اس شہر میں عملأ خون تھوک تھوک کے مرا ہے ، اعجاز نٓاصر نے اپنے نظریات کے لیے نہ صرف خود فاقہ کشی کی اس کے بچے بھی اس فاقہ کشی مین شامل رہے ہیں ، ان لوگوں کو بھی علم تھا کہ دوسیر دودھ میں دوسیر پانی ملانے سے چار سیر کی لسی بن جاتی ہے ، مگر انھوں نے اس لسی کو دودھ کے نام سے بیچنے سے انکار کر دیا ، ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی بھی حالت ان سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھی جس میں دوسروں کے علاہ افضل جوشو ، بشیر داس ، مجید مرزا ، عامر نصیر ، علی اختر ، منیر بگا دلاور خان عالم خان ، میک اپ میں ظیور اور الیاس اسد تھے ، میک اپ مین ظہور اس شہر کا میرے خیال میں واحد میک اپ مین تھا جس کی خدمات بلا معاوضہ ہر گروپ کو حاصل تھیں
اس شہر کی ڈرامہ تاریخ الیاس اسد کے بغیر نامکمل ہے یہ شخص سر سے لے کر پاؤں تک ایک آرٹست شخص ہے ، اس شخص نے ، سماجی ، جسمانی اور مالی طور پہ اس شہر کے ڈرامے کی خدمت کی ہے ، اُس وقت شہر میں مونسپل کارپوریشن ہال کے علاوہ کوئیدوسرا ہال نہیں تھا اکثر ڈرامے کے سٹیج تختے یا میز لگا کر بنایا جاتا تھا ۔ الیاس اسد کی تنبو کناتوں کی دوکان تھی لہذا شہر میں ڈرامے کے لیے ، کرسیاں میز تنبو کناتیں اسی کی دوکان سے بلا معاوضہ آتے تھے ، اور اس میں کسی خاص گروپ کی تخصیص نہین تھی ، الیاس اسد نے شہر کے ڈراموں کے علاہ ٹی وی اور فلموں میں پزاروں کردار ادا کیے اور جب وہ منزل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تو گھریلو وجوہات کی بنا پر بھو میلہ چھوڑ کر واپس شہر آگیا
لائل پور شہر سے بہت سے لوگ لاہورمیں فلم میں گئے آخر کیا وجہ تھی کہ ان میں اکثر ناکام ہوئے ، بہت سی وجو ہات ہیں ، ان میں سے دو وجوہات ہیں ( یہ بات میں فلم میکر یعنی ہدایت کاروں کے بارے کہہ رہاں اداکاروں کے بارے نہیں ان کی دوسری وجوہات ہیں ) ایک فناسر کا غلط انتخاب اور دوسرا بغیر فلمی لائین کے تجربے اور وہاں کے ماحول، وہاں کی گروپ بندیوں سے نا آشنائی ، خود کو فوری طور پہ بطور ہدایت کار کے متعارف کرانا ہے ، مشتاق ساتھی بلاشبہ کمال کا فنکار تھا اور غصب کا ہدایت کار مگر کیا ہوا ، اپنے ڈرامہ ،، تاریاں دا لہو ،، کو جب فلم بند کرنے کے لیے وہ لاہور گیا تو اُس کا فنانسر ،، صلاح الدین بٹ ،، تھا جو ایک انتہائی محبت کرنے والا انسان تھا ، مگر کیا وہ صیح معنوں میں فنانسر تھا ، وہ چھ ماہ دن رات دوبئی میں مشقت کرتا اور جو پیسے لے کر آتا وہ ایک دو یا زہادہ سے تین سیٹ کے لیے ہوتے اور وہ پھر اگلے سیٹوں کے لیے دوبئی چھ ماہ کے لیے مشقت کے لیے چلے جاتا ، ادھر لوگ ایک سیٹ سے نکلتے ہیں تو دوسرے سیٹ کے لیے میک اپ بدل لیتے ہیں ، اس سے پہلے کے کوئی اداکار یا ادکارہ ہاتھ سے نکل جائے وہ دن رات شوٹنگ کر کے فلم مارکیٹ میں لے آتے اور ہمارا فنانسر جب دوبئی کی مشقت لے کر آتا یہاں حالات ہی بدل جاتے ، کوئی ادکارہ کسی سے شادی رچا کر فلم سے کنارہ کشی کر رہی ہے ، کوئی حالیہ جگھڑے کی وجہ سے دوسری کی ساتھ کام کرنے سے انکار کر رہی ہے ۔ دوسری وجہ بجائے اس کے آپ پہلے کسی بڑے نام والے ہدایت کار کو لیں اُس کے ساتھ سال دو سال کام کرتے ہوئے وہاں کے ماحول کو سمجھیں اپنا نام لوگوں میں گردش کرائیں ، آپ نے جاتے ہی اپنے ہدایت میں فلم بنانے کا اعلان کر دیا ، اور سٹوڈیو میں دھاڑی پہ کام کرنے والوں کو یقین دلا رہے ہیں کے آپ ہدایت کار ہیں ، یہی حال پونم کمار کا ہوا اُ سکا فنانسر امین پور بازار اور چنیوٹ بازر کے درمیان ایک تولیہ کا دوکان دار ،، رمضان تھا ، فنانس کی بھی وہی صورت ِ حال تھی اور ہدایتکاری کی بھی ،
لائل پور سے اداکاری کی خواہش لے کر جانے والوں کے ساتھ کیا کیا ہوا اور وہ کون کون سی بیماریاں لے کر واپس لائل پور آئے اور کس طرح ٹوٹی چارپائیوں پہ اپنی موت کی دعائیں مانگتے مانگتے مرے اس کا حال اگلی قسط میں لکوں گا ( جارٰی )
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154790432583390
“