(۱)پُتلی گھر
لائیل پور کے سٹیج ڈاراموں کا ایک سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائیل کاٹن مل اور اس کے ارد گرد بسنے والے لوگوں کا لائیل پور کے ادب ، ثقافت اور لائیل پور کی سیاست میں ایک بہت بڑا حصہ ہے ۔ اس میں ایک تو اس ملز کے مالک لالہ مُرلی دھرم لال کا ادب و ثقافت اور موسیقی سے لگاؤ کا نتیجہ ہے ، ملزمیں جہاں ہندوں کے تہوار ، دوسہڑا کا میلہ سات دن ہوتا تھا وہیں عید میلادالنبی کے موقعہ پہ مل کو جھنڈیوں سے سجایا جاتا تھا اور ملز کی دیواروں کو دئیوں سے چرا غاں کیا جاتا تھا ،لائیل پور کی مزدور تحریک کی ابتدا بھی یہیں سے ہوئی ، لائیل پور کاٹن ملز کی مزدور ہونین سب سے بڑی اور شہر کی پہلی مزدور ہونین تھی ۔( لائیل پور کی مزدور تحریک کے بارے میں الگ سے لکھ رہا ہوں ) جیسا کہ میں نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یندوستاں سے ہجرت کرکے اس ملز کے ارد گرد بسنے والے جو کہ انتہائی غریب لوگ تھے مگر شعر و سخن سے وابستہ تھے پہلے پہل یہیں شعر و سخن کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں ، کاٹن ملز میں آل انڈیا مشاعروں میں جگر مراد آبادی ، کرشن لال جوش اور مُلک کے بڑے بڑے شاعروں نے حصہ لیا ہے اسی طرح لائیل پور میں سٹیج ڈرامون کی ابتدا بھی یہیں سے شروع ہوئی ہے ۔
اگر اپ سمن آباد سے شہر کی طرف آئیں تو جہاں ریلوے لائین کا بنا پُل ختم ہوتا ہے وہاں سے ایک سڑک لائیل پور کاٹن ملز کا اور دوسری شہر کو نکلتی ہے ، یہاں ایک بڑا کھلا میدان ہوتا تھا ، جہاں ایک دفعہ ذوالفقار علی بھٹو نے لائیل پور کا ایک بہت بڑا جلسہ عام کیا تھا ، اس میدن کے ساتھ ایک بستی تھی جو پاکستان بننے سے پہلے جیل تھی اور یہاں سزائے موت کے قیدی رکھے جاتے تھے ، جہاں سزائے موت دی جاتی تھی وہ جگہ اور تختے ویسے کے وسیے ہی وہاں موجود تھے ، یہاں ہندوستان سے اکر بسنے والے غربت سے بھی نیچلی لکیر کے لوگ تھے ، جو شاید صیح جگہ آکر بسے تھے کیونکہ اُنھے دیکھ کر لگتا تھا ، زندگی نے انہیں سزائے موت سُنا دی ہے ، گو یہ لوگ انتہائی غریب تھے مگر یہاں بسنے والا ہر کوئی اپنے فن کا ماہر تھا ، کوئی حلیم کا دیگ بھریا (چھوٹی دیگ ) بناتا ساتھ پجاس سو روٹیاں رکھتا اور شہر کی گلیوں محلوں کو نکل پڑتا ،لوگ اُسکے حلیم کا انتظار کرتے رہتے ، کوئی گول گھپے کا ٹیھلا لیے گلی گلی گھومتا ، کوئی بانس کے بنے بڑے سے دیو قد مرتبان میں پاپڑ کندھے پہ لٹکاے شہر کا چکر لگا رہا ہے اور کوئی مختلف چورنوں کو آگ لگا کر شہر کے بچوں کی حیرانی میں اضافہ کرتا پھرتا ۔ لڑکیوں کے سکولوں کے سامنے کھٹی مٹھی امبلیاں بیچنے و الے لوگوں کا تعلق بھی اسی بستی سے تھا ،یہاں سے کچھ لوگ کندھوں پہ ایک ڈبہ لٹکاتے اور شہر کی گلیوں میں ایک صدا لگتی ، امام حسین کا روضہ دیکھو ، مچھلی کے سر والی عورت دیکھو بارہ من کی دھوبن دیکھو اور پچے پلیٹوں اور پیالیوں میں آٹا بھر کر بارہ من کی دھوبن دیکھنے دوٹ پڑتے ، یہ لوگ کسی کے درواے پہ دستک دیتے اور پانی کے ایک گلاس کی درخواست کرتے اور جب عورت پانی لے کر آتی تو یہ لوگ عورتوں کو پُتلی تماشہ دیکھانے کی دعوت دیتے ، اور یہ عورت پنجابی میں اردو ملاتی کہتی ،، بھیا ساڈا بوڈھا چوک مین بیٹھیا ہےتم اودے نال بات کرلیو ، ، پھر چوک میں بیٹھے بوڑھوں سے بات کر کے رات کو یہ لوگ آتے اور کسی گھر کے صحن میں چار پائی پہ ایک چادر یا کھیس ڈال کر چارپائی کے پیچھے اپنی انگلیوں پہ بندھی ڈور سے چارپائی کے آگئے پتلیوں کا تماشہ کرتے رہتے اور پتلیوں کا نچاتے رہتے ، ( آج سارے پاکستاں میں بڑے پیمانے پہ پتلی تماشہ ہو رہا ہے ) اور صحن میں بہٹھے بچے عورتیں اور مرد خود کو اس پُتلی تماشے کا حصہ سمجھتے ہوئے پُتلی تماشہ دیکھتے رہتے ، ان لوگوں کے کاٹن ملز کے قریب اس بستی میں رہنے کہ وجہ سے ہی اس علاقہ کو،، پُتلی گھر ،، کہا جاتا تھا ۔،
لائیل پور کاٹن ملز کا ڈرامہ سٹیج پاکستان بننے سے پہلے کا جدید ترین سٹیج تھا ، سین بدلنے کے لیے پردہ نہیں گرانا پڑتا تھا ، سٹیج گھوم جاتا تھا اور سین جاری رہتا تھا ، اس میں ہندوں کی مذہبی کہانیوں رام لیلا ، راون سیتہ پہ ڈرامے سٹیج کیے جاتے تھے ، چونکہ اسلام اپنےبزرگ ہستیوں کی تشبیہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ، اس لیے اسلامی ڈرامے سٹیج نہیں ہوتے تھے ۔ (مگر پھر شہر میں اسلامی ڈرامے بھی ہوئے اس کا ذکر تھوڑی دیر ٹھر کر کرتا ہوں)
جاپان سے ایک شخص آیا نام اُس کا،، مھتا ،،تھا ، یہ شخص پاکستان میں ٹیکسٹائیل کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھا ، اُس وقت پوری دنیا میں مھتا کو دھاگہ کا ماہر مانا جاتا تھا یہ شخص جہاں دھاگہ کا ماہر تھا وہیں سٹیج ڈرامہ کا دلدادہ تھا یہ جب کاٹن ملز میں مینجر بن کر آیا تو اس نے ملز کے ڈرامے میں نئی جان ڈال دی ، اب ڈرامہ رام لیلا اور سیتہ راون سے نکل کر آغا حشر کے ڈراموں میں داخل ہوگیا اور ساتھ ساتھ لوک کہانیوں پہ بھی ڈرامے ہونے لگے ، ان میں اس وقت ملز کے ڈرامے میں کام کرنے والے ملز کے ہی ملازم ہوتے تھے ، نصرالدین قریشی اُن میں سے ایک تھا ،نصیر الدیں قریشی پہلا آدمی ہے جس نے ڈرامہ کو ملز سے باہر نکلا اور اور شہر کی پہلی ڈرامہ کلب بنائی ،نہ صرف ڈرامے کو ملز سے باہر نکلا بلکہ ڈرامے کو ، رام لیلا، سیتہ راون ، آغا حشر اور لوک کہانیوں سے نکال کر عام سماجی موضوع پہ ڈرامے پلے کیے (جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154783900678390
“