مختار صاحب کو شبہ ہے کہ اُن میں کچھ پراسرارطاقتیں پیدا ہوگئی ہیں۔پہلے وہ اشاروں کنایوں میں اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے‘ اب کھلے الفاظ میں اعتراف کرنے لگے ہیں۔ مختار صاحب میرے کزن ہیں اور بچپن میں میرے ساتھ ہی ٹیلی پیتھی سیکھا کرتے تھے۔ ہم دونوں فرہاد علی تیمور بننا چاہتے تھے لہذا اکثر چھت پر موم بتی جلا کر’شمع بینی‘ کی مشق کیا کرتے تھے۔وہ عمر میں مجھ سے چار سال بڑے ہیں لہذا‘ اب میں انہیں مختار صاحب ہی کہتا ہوں۔میں نے ٹیلی پیتھی کی ٹریننگ اس لیے ادھوری چھوڑ دی تھی کہ میرا کام الٹا شروع ہوگیا تھا‘ بجائے اس کے کہ میں لوگوں کے ذہن پڑھتا‘ لوگ میرا ذہن پڑھنا شروع ہوگئے تھے۔مختار صاحب البتہ اس کام میں لگے رہے۔میٹرک کے بعد وہ کراچی چلے گئے لہذا رابطہ بھی ٹوٹ گیا۔ اب ان سے تقریباً ہر تیسرے چوتھے دن بات ہوتی رہتی ہے۔ بتا رہے تھے کہ اُنہیں ذہن پڑھنا آگیا ہے اور اب جونہی کوئی ان کے سامنے کوئی بات شروع کرتا ہے وہ فوراً ذہن پڑھ لیتے ہیں اور بعد میں وہی بات نکلتی ہے۔میں نے تفصیل پوچھی تو کہنے لگے’’پچھلے دنوں میرے سالے نے مجھے فون کیا اور کہنے لگا کہ بھائی جان آپ سے ایک ضروری کام ہے‘ میں سنتے ہی سمجھ گیا کہ بدبخت کو پیسے چاہیے ہوں گے‘ ایسا ہی ہوا‘ تھوڑی ہی دیر بعد وہ گھر آیا تو اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد بیس ہزار اُدھار مانگ لیے۔ اسی طرح جب میری بیوی مجھ سے کہتی ہے کہ کافی دن ہوگئے ہیں چکن نہیں بنایاتو مجھے فوراً سمجھ آجاتا ہے کہ آج یقیناًاس کے گھر والوں نے آنا ہوگا۔۔۔اور ایسا ہی ہوتاہے۔ ‘‘
مختار صاحب کو یہ بھی یقین ہوتا جارہا ہے کہ اُن کے منہ سے جو بھی بات نکلتی ہے وہ پوری ہوجاتی ہے۔پچھلے دنوں انہوں نے بیگم سے لڑائی کے دوران کہا‘ ہاں ہاں میں پاگل ہوں‘ جاہل ہوں‘ گنوار ہوں‘۔ حیرت انگیز طور پر اگلے دن محلے میں سب انہیں یہی لقب دے چکے تھے۔اسی طرح جب ایک دفعہ اُن کے دوست شیخ اکرم نے دوسری شادی کی تو مختار صاحب کے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔۔یہ تو مارا گیا۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ تین دن بعد شیخ اکرم کی قل خوانی ہورہی تھی۔ایک دفعہ محلے کے ایک لڑکے نے تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے انہیں ٹکر دے ماری‘ مختار صاحب سڑک پر اوندھے گر گئے اور اسی عالم میں کہا’جا تیرا بیڑا غرق ہو‘۔ زبان میں چونکہ تاثیر آچکی تھی لہذا جو نکلا وہ پورا ہوا‘ اگلے ہفتے لڑکے کی شادی ہوگئی۔میں نے مختار صاحب سے کہا کہ وہ پرائز بانڈ خریدیں اور بلند آواز کہیں’ایک کروڑ کا انعام تو نکلے ہی نکلے‘۔دانت پیس کر بولے’میری زبان میں تاثیر آئی ہے‘ قسمت میں نہیں‘۔مختار صاحب کو حادثات کی بھی پہلے سے خبر ہوجاتی ہے ‘کہتے ہیں میں نے ایک گاڑی کو انتہائی تیز رفتاری سے جاتے دیکھا اور فوراً الہام ہوا کہ اس کا ضرور ایکسیڈنٹ ہوجائے گا۔۔۔کچھ دور جاکر گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا ئی اور الٹ بازیاں لگاتی ہوئی کھمبے میں جالگی۔
جب سے میں نے مختار صاحب کا فون سنا ہے مجھے لگتا ہے ایسی ہی پراسرار طاقتیں مجھ میں بھی موجود ہیں بلکہ بہت پہلے سے موجود ہیں لیکن شائد مجھے کبھی ان کا احساس نہیں ہوا۔مثلاً میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ لفظ’’آلو‘‘ بولیں گے تو آپ کے ہونٹ الگ رہیں گے اور آپ ابھی یہ لفظ بول کے چیک بھی کریں گے۔مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میں کسی بھی چیز کو غور سے دیکھ کر اُس میں آگ لگا سکتا ہوں‘ ابھی کل میں نے اس کا تجربہ بھی کیا‘ بازار میں ایک خاتون کو چار منٹ تک لگاتار غور سے دیکھا‘ اُسے غصے سے آگ لگ گئی۔مجھے یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ میں گرمیوں میں بے شک کم اے سی کیوں نہ چلاؤں‘ بل پچھلی گرمیوں والا ہی آنا ہے۔مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ میں دیوار کے آر پار جاسکتا ہوں‘ اور واقعی ایسا ہوبھی چکا ہے۔ کمرے کا دروازہ بند تھا‘ میں دیوار میں سے گذر کر اندر چلا گیا اورمجھے کچھ بھی نہیں ہوا البتہ کھڑکی کا ایک کیل ضرور چبھا تھا۔میں اگر بستر کی چادر سے منہ صاف کرلوں یا پردوں سے ہاتھ پونچھ لوں یا تکیہ فولڈ کرکے سر کے نیچے رکھوں تو پراسرار طاقتوں کی بدولت ایک سیکنڈ میں مجھے پتا چل جاتا ہے کہ میری کنپٹی پر کوئی بھاری چیز مثلاً سٹیل کا گلاس‘ پرات یا بیلن وغیرہ آکر لگنے لگی ہے۔
میں نے مختار صاحب سے یہ بات ڈسکس کی تو وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دونوں ایک لحاظ سے باقی دنیا سے منفرد ہوچکے ہیں کیونکہ ہمیں پراسرار طاقتیں حاصل ہوگئی ہیں۔وہ بتانے لگے کہ اُن پر تو ہپنا ٹزم بھی وارد ہوچکا ہے اور اب وہ جب چاہے سامنے والے کے سامنے محض موبائل چارجر لہرا کر اُسے اپنے قابو میں کر سکتے ہیں۔ یہ نئی چیز تھی‘ میں نے ثبوت مانگا تو کہنے لگے’میں نے اپنے بیٹے کو سامنے بٹھا کر اس کی آنکھوں کے آگے چارجر لہرا کر کہا’یہ چارجر کام نہیں کر رہا‘ یا اس کا سوئچ خراب ہے یا تار‘۔۔۔وہ خوابیدہ انداز میں بولا’’جی ابو! اس کا سوئچ خراب ہے‘‘۔اسی طرح میں نے ایک دفعہ وہی چارجر بیگم کی آنکھوں کے آگے لہراتے ہوئے کہا کہ ’’تم دنیا کی سب سے حسین بیوی ہو‘۔ جواب فوراً آیا’ہاں آپ سچ کہہ رہے ہیں‘۔
مختار صاحب کی باتیں سن کر مجھے خوشی سے نیند نہیں آئی‘ اگلے ہی دن میں پروفیسر صاحب کے پاس پہنچا اور بڑے فخر سے بتایا کہ میں اور میرا کزن پراسرار طاقتوں کے مالک بن چکے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے میری پوری بات نہایت تحمل سے سنی‘ پھر آہستہ سے بولے’’شادی سے پہلے بھی تمہیں یہ پراسرار طاقتیں حاصل تھیں؟‘‘۔ میں نے نفی میں سرہلایا۔ وہ آگے کو جھکے’’تو پھر دوچیزوں کا یقین کرلو‘ پہلی تو یہ کہ یہ پراسرار طاقتیں انسان میں شادی کے دس سال بعد خودبخود بیدار ہوجاتی ہیں اور دوسری یہ کہ اس وقت پاکستان میں یہ طاقتیں اگر پوری قوت کے ساتھ کسی میں موجود ہیں تو وہ اینکر پرسنز ہیں۔انہیں سب پتا چل جاتا ہے کہ کورکمانڈرکانفرنس میں کیا باتیں ہوئیں‘ مودی اس وقت کیا سوچ رہا ہے‘ ٹرمپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے‘ ملک کیوں تباہ ہورہا ہے‘ سیاستدان کون سا نیا طریقہ سوچ رہے ہیں۔ ‘‘ پروفیسر صاحب کی بات سن کر مجھ پر یکدم مایوسی چھا گئی۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہ صلاحیت صرف مجھ میں اور مختار صاحب میں ہی ہے لیکن یہ تو عام سی چیز نکلی۔ لیکن ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ جو میں اور مختار صاحب کسی کی آدھی بات سن کر فوراً پورا مطلب نکال لیتے ہیں یہ صلاحیت تو یقیناًخاص ہے۔ پروفیسر صاحب سے پوچھا تو فرمایا’’یہ صلاحیت نہیں بے صبری ہے‘ ویسے اگر تم چاہو تو میں تم میں ایک ایسی پراسرار طاقت پیدا کرسکتا ہوں کہ تم کسی کے بولے بغیر اس کی بات سمجھ سکتے ہو‘‘۔ میں نے جلدی سے ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا دیے’’پلیزپروفیسر صاحب! یہ عنایت تو آج ہی کر دیجئے‘‘۔ انہوں نے سرہلایا اور لائٹر کی طرف اشارہ کیا‘ میں نے جلدی سے لائٹر اٹھا کر ان کا سگریٹ سلگایا ۔۔۔اور خوشی کی ایک لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ میں ان کے بولے بغیر ان کی بات سمجھ گیا تھا۔بیٹھے بٹھائے ایک اور پراسرار طاقت حاصل ہوگئی تھی۔واقعی ذہین لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔