پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا یہ گیسٹ ہاؤس بڑا منفرد سا تھا۔ ہم تینوں دوستوں کی مشترکہ رائے تھی کہ آج رات یہاں قیام کرنا چاہیے۔ گیسٹ ہاؤس پسند کرنے کی ایک بڑی وجہ اس کا نام تھا۔اپنا وطن گیسٹ ہاؤس‘۔یہ دس مرلے کا ایک گھر تھا جسے گیسٹ ہاؤس کی شکل دی گئی تھی۔ تین کمرے نیچے تھے اور شائد تین ہی اوپر۔ گیراج چھوٹا تھا لہذا گاڑی گیٹ کے باہر ہی پارک کرنا پڑی۔ ایک دوست نے گیسٹ ہاؤس کی ویرانی دیکھ کر خدشہ ظاہر کیا کہ یہاں جنات کا بسیرا بھی ہوسکتا ہے۔ بات خوفناک تھی لہذا احتیاطاً ریسپشن پر موجود بندے سے بھی پوچھ کر تسلی کرلی۔اُس کا نام افضل تھا اور عرصہ دس سال سے یہاں کام کررہا تھا۔افضل کا تکیہ کلام’یس سر جی‘ تھا۔ کسی بھی بات کے جواب میں دو تین دفعہ یس سر جی کہتا اورپھر یس سرجی کہتے ہوئے چلا جاتا۔
تینوں دوستوں نے سامان اپنے اپنے کمروں میں منتقل کیا اور سونے کے لیے لیٹ گئے۔ کمرے بہت چھوٹے اورسیلن زدہ تھے‘ ٹھنڈ بھی کافی تھی‘ میں نے بیڈ کے کنارے رکھا فون اٹھایا جس پر ہوٹل کے فون کی طرح ایک چٹ لگی ہوئی تھی اور مختلف نمبرز لکھے ہوئے تھے۔صفر نمبر کے آگے لکھا ہوا تھا ریسپشن۔ میں نے صفر دبایا۔ آگے سے افضل کی آواز آئی۔ ’یس سرجی !‘ میں نے چائے کا پوچھا تو اُس نے نہایت تہذیب یافتہ انداز میں جواب دیا’سرجی آپ روم سروس پر فون کرلیجئے‘۔ میں نے فون بند کر کے دوبارہ چٹ پر لکھے نمبر پڑھے اور روم سروس کا نمبر ملایا۔ آواز آئی’یس جی سر!‘۔میں بوکھلا گیا۔ ’افضل یہ تم ہو؟‘۔ آواز آئی’یس سرجی‘۔ میں ہنس پڑا۔ ’یار یہ فون بھی تم نے ہی اٹھانا تھا تو پہلے ہی بتا دیتے۔اچھا سنو چائے ملے گی؟‘۔ اُس کی مودبانہ آواز آئی’یس سر جی‘۔
چائے واقعی کمال کی تھی‘ تیز پتی اور بہت کم چینی۔ صبح ہم دوستوں نے سیر و تفریح کے لیے نکلنا تھا‘ کپڑے استری کروانا تھے۔ میں نے چائے ختم کی اور پھرروم سروس کا نمبرملایا ۔ افضل کی آواز آئی’یس سر جی‘۔ میں نے مدعا بیان کیا تو اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا’سر جی لانڈری کا نمبر ملائیے‘۔ میں نے گہری سانس لی اور فون بند کرکے لانڈری کا نمبر ملایا۔آگے سے پھر افضل نے فون اٹھایا’یس سر جی‘۔میرا دماغ گھوم گیا’یار یہ کیا گھن چکر ہے۔ ہر فون تم نے ہی اٹھانا ہوتاہے تو کیوں دو دفعہ فون کرواتے ہو‘۔ دوسری طرف سے تھوڑی دیر خاموشی رہی‘ پھر آواز آئی ’یس سرجی‘۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔’یار اِس میں یس سر جی والی کیا بات ہے‘ میرے سوال کا جواب دو‘۔ افضل نے کچھ کہنے کی بجائے فون رکھ دیا۔ مجھے شدید غصہ آیا، یہ انتہائی بدتمیزی تھی۔ میں نے ری ڈائل کیا۔وہی ازلی آواز آئی’یس سر جی‘۔ میں نے بمشکل خود کو سنبھالا اور قدرے سخت لہجے میں کہا’کل صبح مجھے میرے کپڑے استری چاہئیں۔‘‘ آواز آئی’یس سرجی‘۔ میں نے دانت بھینچے’یس سرجی کے بچے کمرے میں آکر کپڑے لے جاؤ‘ اور فون بند کردیا۔ کچھ ہی دیر میں افضل روبوٹ کی طرح آیا اور کپڑے لے گیا۔ عجیب بندہ تھا‘ میں سمجھ گیا کہ گیسٹ ہاؤس کے مینجر یا مالک نے اسے پابند کیا ہوگا کہ جب تک متعلقہ شعبے کے لیے فون نہ آئے تب تک گاہک کو اٹینڈ نہیں کرنا ۔ کئی گیسٹ ہاؤسز میں فائیو سٹار ہوٹل کی نقل کرنے کا یہ رجحان پایا جاتا ہے ۔ اُس رات میں سو تو گیا لیکن دیر تک افضل کی فون بند کردینے والی بدتمیزی دماغ میں گھومتی رہی۔
صبح میں جلدی اٹھ گیا۔ پانی گرم تھا۔ شیو کرکے غسل کیا ۔ افضل کپڑے استری کروا کے کمرے میں رکھ کر جاچکا تھا۔ میں نے کپڑے بدلے اور گیسٹ ہاؤس سے باہر آگیا۔ دھوپ نکل رہی تھی ۔ رات کی نمی کی وجہ سے گاڑی بارش میں نہائی ہوئی لگ رہی تھی۔ میں نے افضل کو دو تین آوازیں دیں لیکن کوئی رسپانس نہیں آیا۔ حیرت ہوئی کہ افضل کہاں گیا حالانکہ گیسٹ ہاؤس کا دروازہ تو اندر سے بند تھا۔میں نے کچھ سوچا ‘ پھر گیسٹ ہاؤس کے کچن کی طرف بڑھ گیا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا‘ اندر ایک چھوٹا سا فریج پڑا تھا۔ ایک میز کے اوپر چولہا رکھا ہوا تھا۔اردگرد تین چار ڈبے پڑے تھے جن میں چائے ‘ دودھ اور چینی پڑی ہوئی تھی۔ ایک طرف سنک تھا جس میں رات کے برتن پڑے ہوئے تھے اور شائد ابھی دھلے نہیں تھے۔ فریج کے اوپر ایک پرانا سا فون سیٹ پڑا ہوا تھا اور دیوار پر پھٹا ہوا کیلنڈر لٹک رہا تھا۔اچانک کھلے دروازے سے افضل اندر داخل ہوا اور مجھے کچن میں دیکھ کر چونک گیا۔ میں بھی یکدم گھبرا گیا۔’افضل تم کہاں تھے، میں تمہیں آوازیں دے رہا تھا‘۔ افضل نے گھور کر مجھے دیکھا’آپ یہاں کیوں آئے ہیں، اپنے روم میں جائیے۔‘‘ میں نے جواباً کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن چپ کر گیا۔ یہ مجھے کوئی منہ پھٹ لگ رہا تھا او رمجھے خدشہ تھا کہ بلاوجہ بات نہ بڑھ جائے۔ میں نے سرہلایااور کچن سے باہر آتے ہی اپنے کمرے کا رخ کیا۔ بیڈ پر بیٹھ کر ریسیپشن کا نمبر ملایا۔ ’یس سر جی‘۔ افضل کی آواز آئی۔ میں نے لہجہ سیرئس بنایا’مجھے تمہارے مینجر کا نمبر چاہیے‘۔ افضل یہ سنتے ہی گڑبڑا گیا’کک۔۔۔کیوں سر جی؟‘۔ میں نے دانت پیسے’میں اُس سے تمہاری شکایت لگانا چاہتا ہوں تم نے کل میری بات کے درمیان میں فون کاٹ دیا تھا‘۔افضل بے اختیار گڑگڑانے لگا’ایسا نہ کریں سرجی۔۔۔میری نوکری چلی جائے گی، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘ میں مزید کرخت ہوگیا۔’بے فکر رہو! تمہیں نوکری سے کوئی نہیں نکالے گا البتہ تمہیں یہ ضرور سکھائے گا کہ کسٹمرز سے کیسے پیش آتے ہیں۔‘ تین چار منٹ وہ میری منت سماجت کرتا رہا لیکن میں بھی نہیں مانا۔ تھک ہار کر اس نے مجھے مینجر کا موبائل نمبرلکھوادیا۔اصل میں بات یہ تھی کہ میں مینجر سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ہر سروس کے جواب میں آپ کا ایک ہی بندہ بات کرتا ہے تو ایک ہی نمبر پر یہ سارے کام کیوں نہیں شفٹ کروا دیتے۔ میں نے فون رکھا اور موبائل سے نمبر ملایا۔کچھ دیر بیل جاتی رہی۔۔۔پھر کسی نے فون اٹھایاور آواز آئی’یس سرجی۔۔۔‘‘میں نے موبائل بیڈ پر دے مارا۔۔۔!!!
دوستوں کو ساری صورتحال بتائی تو وہ بھی بہت حیران ہوئے۔طے پایا کہ ناشتے کے بعد افضل سے یہ پراسرار صورتحال دریافت کی جائے۔ تھوڑی دیر میں سب تیار ہوگئے اور ٹیبل پر ناشتہ رکھ دیا گیا۔ پراٹھے انڈے اور چائے پینے کے بعد ہم نے افضل کو بلایا اور پوچھا کہ اپنا وطن گیسٹ ہاؤس میں کتنے ملازم ہیں؟اُس نے انگلیوں پر گنتی کی اور بولا’پانچ‘۔ میں نے جلدی سے پوچھا ’کون کون؟‘۔ جھٹ سے بولا’صفائی والا۔۔۔خانساماں۔۔۔دھوبی۔۔۔ریسپشنسٹ اور مینجر۔‘ میں نے پہلو بدلا’اور اِ ن کے کیا نام ہیں؟‘۔ اُس نے پھر ذہن پر زور ڈالا اور شرو ع ہوگیا’صفائی والے کا نام افضل ہے۔۔۔خانساماں کانام افضل ہے۔۔۔دھوبی کا نام افضل ہے۔۔۔ریسپشنسٹ کا نام افضل ہے اور۔۔۔‘‘شٹ اپ۔۔۔ میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ مذاق بنایا ہوا ہے تم نے۔ سیدھا سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ سارا گیسٹ ہاؤس تم ہی چلا رہے ہو۔اس گیسٹ ہاؤس کا مالک بھی تمہاری طرح کا کوئی خبطی لگتاہے جس نے ایک بندہ رکھ کے تاثر دینے کی کوشش کی ہے گویادس مرلے کا یہ گیسٹ ہاؤس ملازمین سے بھرا ہوا ہے۔ کس کاہے یہ گیسٹ ہاؤس؟۔ افضل میرا منہ تکنے لگا۔ میں پوری قوت سے چلایا’’اوئے کس کا ہے یہ گیسٹ ہاؤس؟‘‘۔ افضل کے ہونٹ کپکپائے اور صرف اتنے ہی الفاظ نکلے۔۔۔’یہ تو کسی کو بھی نہیں پتا۔۔۔‘‘
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...